|تحریر: آدم پال|
عام انتخابات کے حوالے سے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں جبکہ محنت کشوں پر بیروزگاری اور مہنگائی کے حملوں میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس ا س ملک میں موجود کسی ایک بھی مسئلے کا حل موجود نہیں اور تمام سیاسی پارٹیاں حکمران طبقے کے ہی مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ایسے میں عوام کے کسی بھی حصے میں ان انتخابات کے حوالے سے جوش و خروش موجود نہیں اور نہ ہی ان انتخابات کے حوالے سے کوئی بھی امید موجود ہے کہ یہ کسی بھی طرح مزدوروں کے حالات زندگی تبدیل کر سکتے ہیں۔جبکہ دوسری جانب حکمران طبقے کی آپسی لڑائی میں شدت آتی جا رہی ہے اور وہ عوام کی بچی کھچی بوٹیاں اور کھال نوچنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور اقتدار میں آ کر لوٹ مار کرنے کی ہوس انہیں پاگل پن تک لے جا چکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کا کردار بھی مختلف نہیں اور وہاں بھی دونوں ہاتھ سے لوٹ مار کے نت نئے طریقوں کو آزمایا جا رہا ہے۔
اس تمام شور و غل میں کبھی جمہوریت کا راگ الاپنے کی کوشش کی جا تی ہے اور کبھی عوام کو جھوٹے وعدے اور تسلیاں دے کر بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن محنت کش بخوبی جان چکے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیاں درحقیقت جرائم پیشہ افراد کے گروہ ہیں جو اقتدار میں آنے کے لیے ہر قسم کے جرائم، لوٹ مار، جھوٹ، فراڈ اور منافقت کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اس ملک کی سیاست کا عمومی کردار ہی جھوٹ، فراڈ، بد کرداری اور منافقت بن چکا ہے اور اپنے کسی بھی نعرے یا بیان سے غداری کرنا بالکل بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کا دلال کہلانا فخر سمجھا جاتا ہے اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی گماشتگی کرنے والا ذہین اور فطین قرار دیا جاتا ہے۔ اس غلاظت بھرے عمل میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کے نام نہاد دانشور، پروفیسر، علما، مذہبی مبلغ اور کرائے کے تجزیہ نگار سمیت تمام شامل ہیں۔ ان سب کی محنت کش طبقے کی جانب عمومی سوچ حقارت اور نفرت سے اٹی ہوتی ہے اور ان کے نزدیک غریب لوگ دھرتی پر بوجھ ہیں جبکہ امیر ترین افراد کی چاپلوسی اور خوشامد کرنا اعلیٰ اور ارفع ترین کام ہے۔
اسی طرح یہ گھٹیا اور غلیظ ترین افراد تمام تر سیاست کا محور شخصیات کو بنا دیتے ہیں اور ان سے کرایہ وصول کر کے ان کی خوشامد کے لیے اپنا تمام تر ہنر اور علم استعمال کرتے ہیں تاکہ یہ شخصیات اپنی لوٹ مار میں سے چند ہڈیاں ان کی جانب بھی پھینک دیں۔ اس حوالے سے کبھی کسی نئے آنے والے آرمی چیف کی ڈاکٹرائن کا واویلا شروع کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کے جانے کے بعد اس کی بیوفائی اور کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے جبکہ نئے آنے والے کی دوبارہ سے خوشامد کے لیے نئے زوایے تلاش کیے جاتے ہیں۔ یہی کچھ سیاستدانوں کے حوالے سے بھی جاری ہے۔
اس ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو ایک دفعہ پھر مسیحا بنانے کی ناکام کوششیں بھی جاری ہیں اور اسے اور اس کی پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے رستہ ہموار کیا جارہا ہے۔ نواز شریف کی مزدور شمنی، آمریت کی گماشتگی اور سامراجی طاقتوں کی دلالی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں اور اس نے ہمیشہ ہی اس ملک کے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو تحفظ دیا ہے۔ اس عمل میں اس نے کرپشن کی جو داستانیں رقم کی ہیں اس کی اس ملک میں کوئی مثال بھی نہیں ملتی۔ لکھ پتی سے ارب پتی اور پھر کھرب پتی کا سفر اس نے اور اس کے پورے خاندان نے اسی اقتدار کے ذریعے طے کیا ہے لیکن ان کی اقتدار کی ہوس کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی جا رہی ہے اور اب اس ایک خاندان میں ہی وزارت عظمیٰ کے کئی امیدوار موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو بھی گھر کی لونڈی سمجھتے آئے ہیں جس کا آغاز ضیا الباطل کے دور میں آمریت کے گماشتے کے طور پر نواز شریف کو دے کر کیا گیا تھا۔ شہباز شریف کے بطور وزیر اعظم ایک ڈیڑھ سال کے دوران بھی اس خاندان کی لوٹ مار نے نئی تاریخ رقم کی جبکہ محنت کشوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔ پہلے اقتدار میں آکر مہنگائی اور بیروزگاری کم کرنے کے جھوٹے دعوے کیے گئے لیکن پھر آکر کہا گیا کہ ہم بے بس ہیں اور ہمارے اختیار میں کچھ نہیں۔ کہا گیا کہ ”مشکل“ فیصلے کرنے پڑیں گے جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ عوام پر مہنگائی اور بیروزگاری کے مزید حملے کرنے پڑیں گے جبکہ سرمایہ داروں کی دولت میں کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں مشکلات کا شکار عوام پر کروڑوں گنا مشکلات مزید مسلط کر دی گئیں جبکہ عیاشی کی زندگی گزارنے والے سرمایہ داروں پر سبسڈیوں اور مراعات کی بارش کر دی گئی۔ جس اسحاق ڈار کو معاشی بحران کا مسیحا بنا کر پیش کیا گیا تھا اس نے ملک کو دیوالیہ پن کے دہانے لا کر کھڑا کر دیا جس کا نزلہ پھر محنت کش عوام پر ڈالا گیا۔ اس ایک سال میں واضح ہوگیا کہ شریف خاندان کی لوٹ مار کی ہوس بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور اس کے لیے انہیں پورے ملک کے محنت کشوں سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھیننا پڑے تو وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچیں گے اور عوام کا معاشی قتل عام جاری رکھیں گے۔ ایسے عوام دشمن افراد اور محنت کشوں کا معاشی قتل عام کرنے والے افراد کو مسیحا بنا کر پیش کرنے والوں پر عوام کا غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور جیسے ہی عوام کو موقع ملا وہ ان سے اپنے اوپر ہونے والے تمام مظالم کا انتقام ضرور لیں گے۔
پیپلز پارٹی کا کردار بھی مختلف نہیں اور وہ بھی ان تمام جرائم کی برابر کی شریک ہے۔ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران بلاول بھٹو وزارت خارجہ کے مزے لوٹتا رہا اور اس حکومت کے تمام عوام دشمن فیصلوں میں برابر کا شریک ہے۔ یہ بھی اس ملک کے سرمایہ دار طبقے کا ہی گماشتہ ہے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہی تمام تر توانائیاں خرچ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے باپ سے اس کے اختلافات کا بھی جھوٹ اکثر بولا جاتا ہے تاکہ زرداری کی کرپشن اور لوٹ مار سے اسے الگ کر کے دکھایا جا سکے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے نیا ناٹک رچایا جا سکے۔ لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ یہ دونوں باپ بیٹا مل کر ہی لوٹ مار کرتے آئے ہیں اور مسٹر ٹین پرسنٹ کی کمیشن میں اب کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ اس کا بیٹا اس لوٹ مار کو نئی انتہاؤں پر لے جا رہا ہے۔ سندھ میں اس باپ بیٹے کی حکومت گزشتہ پندرہ سال سے موجود ہے اور وہاں پر محنت کشوں کی بھوک، بیماری اور غربت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور وہاں پر احتجاج کرنے والے اساتذہ، ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت تمام افراد کو بد ترین تشدد اور ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان پندرہ سالوں میں سندھ کے سرمایہ داروں اور وڈیروں کی لوٹ مار بھی انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے جبکہ مقامی افراد کی زمینوں کو ہتھیانے اور وہاں پر ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنانے کا عمل بھی شدت کے ساتھ آگے بڑھا ہے جس میں زرداری کے ”اپنے بچے“ راؤ انوار نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے قتل و غارت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ بلاول کے اس منہ بولے بھائی کو اب ٹی وی پر لا کر زرداری کے خلاف انٹرویو کروائے جا رہے ہیں اور زرداری کو ”معصوم“ دکھانے کی ایک اور ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ اس عمل سے گماشتہ میڈیا کا کردار بھی بے نقاب ہو چکا ہے جہاں آرمی پبلک سکول کے بچوں کے قاتلوں سے لے کر راؤ انوار جیسے گھناؤنے افراد کے انٹرویو نشرکرنے کو فخر سمجھا جاتا ہے جبکہ محنت کشوں کے نمائندے اور عوامی تحریکوں کی قیادت کرنے والے افراد کو بلانا تو دور ان کی خبر تک نشر کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے جرائم کی فہرست کافی طویل ہے۔ اس میں بینظیر بھٹو کے دور میں آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدے بھی موجود ہیں جس کا خمیازہ اس ملک کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ ان معاہدوں کے عوض جہاں پیپلز پارٹی کی قیادت نے اربوں روپے کی کرپشن کی وہاں اس ملک کے عوام کو بجلی کے بلوں کے ذریعے ان سرمایہ داروں کے ہاتھ گروی بھی رکھ دیا گیا۔ ان معاہدوں کے تحت یہ سامراجی کمپنیاں اگر بجلی نہیں بناتی تب بھی ان کو عوام بجلی کے بلوں کے ذریعے ادائیگی کرتے رہیں گے جبکہ ان سرمایہ داروں کو تیل سمیت تمام خام مال بغیر کسی ٹیکس اور ڈیوٹی کے فراہم کیا جاتا رہے گا جسے وہ مہنگے داموں منڈی میں بآسانی بیچ کر مزید اربوں روپے کما سکتے ہیں۔ درحقیقت اس ملک میں نجکاری کے عوام دشمن عمل کا آغاز بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ہی ہوا تھا اور عالمی سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر چلتے ہوئے اس ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اور عوامی اثاثوں کی لوٹ مار کے ایک منظم عمل کا آغاز کیا گیا تھا جو اب پی آئی اے، پوسٹ آفس، ریلوے اور دیگر اداروں کی نجکاری تک جا پہنچا ہے۔ آئی ایم ایف کے حالیہ احکاما ت کے مطابق نہ صرف تمام عوامی اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے جن میں سرکاری ہسپتال اور تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں بلکہ لاکھوں سرکاری ملازمین کو جبری طور پر برطرف کرنے کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح پنشن کا نظام بھی ختم کیا جا رہا ہے اور عوام کے لیے موجود دیگر تمام بنیادی سہولیات بھی جو بچی کھچی شکل میں موجود تھیں وہ بھی نیلام کی جا رہی ہیں۔ نجکاری کے اس عمل میں سرمایہ داروں نے لوٹ مار کی گنگا میں خوب اشنان کیا ہے اور صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات کی مہنگے داموں فروخت سے لے کر بلیک مارکیٹ کے ذریعے فروخت کر کے کھربوں روپے کمائے ہیں جس میں تمام سیاسی لیڈروں نے اپنا پورا کمیشن بھی حاصل کیا ہے۔ آنے والی نئی حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو وہ اسی عمل کو جاری رکھے گی اور عوام دشمن کاروائیوں میں مزید شدت لائے گی۔
آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے حوالے سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ ایک جانب کہا جا رہا ہے کہ اس پارٹی کو انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ دوسری طرف اس پارٹی کی جانب سے امیدواروں کی فہرستیں بنانے اور سیاسی سرگرمیاں کرنے کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کو دیگر پارٹیوں کی نسبت قدرے مقبولیت حاصل ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس پارٹی کی قیادت بظاہر زیر عتاب ہے اور اس کے کچھ کارکنان بھی جیلوں میں ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ بھی کھل کر اس پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی حمایت درحقیقت اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کا اظہار ہے۔ اس ملک کے عوام میں اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے اور مہنگائی اور بیروزگاری کے ہر حملے کے بعد اس نفرت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس ملک کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کبھی بھی اتنی نفرت نہیں رہی۔ 1971ء میں جب اپنے ہی ملک کے مشرقی حصے کے کروڑوں عوام پر بد ترین جبر کیا گیا، لاکھوں لوگوں کو بے گناہ ہی قتل کر دیا گیا جبکہ تین لاکھ کے قریب خواتین کے ریپ کیے گئے اس وقت بھی اس وقت یہاں پر براجمان جنرل یحییٰ اور اس کے حواریوں کے خلاف شدید نفرت اور غصہ موجود تھا۔ لیکن آج یہ نفرت اور غصہ اس سے کہیں زیادہ تجاوز کر چکا ہے اور آنے والے عرصے میں اس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہو سکتا ہے۔ ابھی تک اس غم و غصے کو اظہار کا کوئی منظم ذریعہ نہیں مل سکا لیکن اس کے باوجود لوگوں کو کسی بھی بالواسطہ طریقے سے یہ غصہ نکالنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اسے بالکل بھی ضائع نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کی اس کے علاوہ کوئی بھی دوسری وجہ نہیں۔
اپنے دور اقتدار میں اس پارٹی نے عمران خان کی قیادت میں عوام پر مظالم کے نئے ریکارڈ بنائے تھے جو اس سے پہلے اس ملک کا کوئی بھی حکمران نہیں کر سکا۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں جتنے بڑے پیمانے پر عمران خان کے دور اقتدار میں اضافہ ہوا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اسی طرح مزدور تحریک پر بد ترین حملے کیے گئے اور عمران خان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے ایک جلوس پر پر بد ترین لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکنے کے عمل کواپنے لیے تفریح اور انجوائے منٹ بنا کر پیش کیا۔ دراصل طاقت کے نشے میں شیخ رشید سچ ہی بول رہا تھا اور عمران خان سمیت دیگر تمام سیاسی لیڈروں کے لیے عوام پر ہونے والے مظالم محض انجوائے منٹ اور انٹرٹینمنٹ ہی ہیں اور وہ اپنے محفوظ گھروں میں پر تعیش زندگیاں گزارتے ہوئے عوام کی بھوک اور بیماری کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور انہیں بیوقوف سمجھتے ہیں۔ درحقیقت تمام حکمران یہی سمجھتے ہیں کہ عوام کی غربت اور بیماری ان کا اپنا ہی قصور ہے اور اگر وہ سمجھدار ہوتے تو اس غربت سے کب کا چھٹکارا حاصل کر چکے ہوتے۔ اس بیہودہ عوام دشمن سوچ کے ذریعے وہ اپنے جرائم سے بھی فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی عوام دشمن کاروائیوں کو حالات کی مجبوری اور وقت کا تقاضا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
درحقیقت اس وقت تمام تر سیاست کا بنیادی نظریہ ہی یہ بن چکا ہے کہ موجودہ حالات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا جائے اور سرمایہ دارانہ نظام کو ازلی اور ابدی تسلیم کر کے غلامی کے طوق کو اپنی تقدیر سمجھ لیا جائے۔ اگر لاکھوں لوگ بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں تو یہ ان کی قسمت ہے اور اگر کچھ خاندان اور حکمران دنیا کی ہر لذت اور نعمت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں تو یہ ان کا مقدرہے اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ یہ سب کچھ ایسے ہی تسلیم کر لیا جائے اور سر جھکا کر زندگی کا پہیہ کوہلو کے بیل کی طرح گھماتے چلے جاؤ۔کسی یونیورسٹی میں، کسی سیاسی پارٹی میں، کسی اخباری تجزیے اور ٹاک شو کے تناظر میں حالات سے بغاوت کا ذکر تک موجود نہیں ہوتا۔ کہیں بھی ان حالات کو تبدیل کر کے حکمرانوں کا تختہ الٹنے کا پیغام نہیں دیا جاتا اور کہیں بھی سماج کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا درس نظر نہیں آتا۔ ہر طرف ایک ہی نظریہ، ایک ہی سوچ اور دلیل حاوی نظر آتی ہے کہ یہ سب کچھ ایسا ہی چلتا آرہا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا۔ نواز شریف کے بعد اس کا بھائی یا بیٹی اقتدار پر آئے گی، زرداری کے بعد اس کا بیٹا اور دیگر تمام پارٹیوں میں بھی علاقے کے سرمایہ دار، جاگیر دار، رسہ گیر اور جرائم پیشہ افراد ہی بر سر اقتدار آتے رہیں گے۔ محنت کشوں کو تھانے ا ور کچہری میں ایسے ہی تذلیل کا سامناکرتے رہنا ہوگا، ان کے بچے ایسے ہی بھوک سے بلکتے رہیں گے، ان کے بوڑھے ماں باپ ایسے ہی بغیر علاج کے موت کے منہ میں جاتے رہیں گے اور ان کی زندگیاں کیڑے مکوڑوں کی طرح ان طاقتور اور امیر ترین افراد کی طاقت تلے کچلی جاتی رہیں گی۔
اس تمام تر پراپیگنڈے میں امریکی سامراج کی طاقت کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور ہمیشہ یہ سبق دیا جاتا ہے کہ امریکی سامراج کی غلامی ہماری تقدیر بن چکی ہے اور اس کی خوشامد یا ترلا منت کر کے ہی ہم اپنی معیشت اور سیاست کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ امریکی سامراج کی گماشتگی میں ہر حد عبور کر جانا ہی اس ملک میں سمجھداری اور ذہانت سمجھا جاتا ہے اور اس ملک کا ہر حکمران، ہر وزیر اور مشیر اور نام نہاد پڑھا لکھا یا سمجھدار شخص امریکی سامراج کے قدموں کی خاک بننا اپنا اولین مقصد حیات سمجھتا ہے۔ اگر کوئی بہت زیادہ سیانا ان میں خودکو منفرد دکھانے کے لیے الگ سوچتا ہے تو وہ چینی سامراج کی غلامی قبول کرنے کا مشورہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمیں دوسری سامراجی طاقتوں سے بھی تعلقات خراب نہیں کرنے چاہیے اور تمام سامراجی ممالک کی گماشتگی کو اپنا نصب العین بنا لینا چاہیے۔ اسی حوالے سے سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کی گماشتگی کو بھی مذہبی لفاظی میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور اسے بھی ملک کی سا لمیت اور بقا کے لیے اشد ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ عمران خان چونکہ اپنے تئیں خود کو سب سے زیادہ سمجھدار گردانتا تھا اس لیے اس نے ترکی اور ملائشیا کی گماشتگی میں بھی تمام حدیں عبور کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ جبکہ روس کی گماشتگی کرنے کے لیے ماسکو کا دورہ بھی عجلت میں کر بیٹھا جس پر اس کے امریکی آقا اس سے ناراض بھی ہو گئے جنہیں منانے کے لیے بعد میں اس نے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگایا اور ناک سے لکیریں بھی نکالیں۔
سامراجی گماشتگی کے اسی تسلسل میں اس ملک کے معاشی تجزیہ نگار آئی ایم ایف کی گماشتگی کو آج بھی تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ گزشتہ ستر سال سے اس ملک کی معیشت کو چلانے والے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کی پالیسیاں اس ملک سمیت دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک کو دیوالیہ پن تک لے آئی ہیں لیکن اس کے باوجود ان سامراجی اداروں کے یہ گماشتے عوام کو یہی چورن بیچ رہے ہیں۔ محنت کشوں کے استحصال سے اپنی تجوریاں بھرنے والے یہ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف درحقیقت اس ملک کا خیر خواہ ہے اور اگر اس کی پالیسیاں صحیح طریقے سے لاگو ہو جائیں تو سب مسئلے حل ہو جائیں گے۔ لیکن درحقیقت آئی ایم ایف سمیت تمام مالیاتی ادارے یہاں لوٹ مار کرنے کے لیے ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور قرضوں کے سود کی مد میں یہاں سے ہر سال اربوں ڈالر لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سال 2022ء میں ترقی پذیر ممالک نے سرکاری قرضوں کی مد میں 443.5 ارب ڈالر ادا کیے اور عالمی سطح پر شرح سود میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے اس رقم میں تاریخی اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2023-24ء میں اس رقم میں 39 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔دوسرے الفاظ میں پاکستان جیسے ملکوں سے ہرسال سینکڑوں ارب ڈالر سامراجی ملکوں کی تجوریوں میں جاتا ہے جس سے ان سامراجی ملکوں کی گرفت اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے جبکہ غریب ممالک کی سامراجی غلامی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ لیکن اس کھلی لوٹ مار اور سامراجی ممالک کی کھلی بدمعاشی کو غلط کہنے والا کوئی بھی تجزیہ نگار اور دانشور نظر نہیں آئے گا۔
معیشت تو چھوڑیں ان سامراجی ممالک کی جنگوں اور خونریزیوں کا دفاع کرنے والے بھی یہاں ہر جگہ نظر آجائیں گے۔ فلسطین پر حالیہ اسرائیل کے بد ترین حملے اور قتل عام کے باوجود بھی یہاں کے حکمران طبقے کے دانشور ان تمام مظالم کا ذمہ دار فلسطینیوں کو ہی قرار دیں گے جو سامراجی غلامی کی بد ترین مثال ہے۔ اسرائیل نے ایک مہینے میں پندرہ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے جس میں بڑی تعداد بچوں کی شامل ہے لیکن اس ظلم اور بربریت کے خلاف اس ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے یا تو خاموش ہیں یا پھر ہلکا پھلکا مذمتی بیان جاری کر کے بری الذمہ ہو چکے ہیں۔ پوری دنیا میں واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل کے ان تمام مظالم کی امریکی سامراج اور یورپی سامراجی ممالک نے کھل کر حمایت کی ہے اور اور ان کی پشت پناہی کے بغیر اسرائیل کی گماشتہ صیہونی ریاست یہ سب کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود امریکی سامراج کی گماشتگی کرنے والوں کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آئی اور وہ آج بھی امریکی سامراج اور اس کی بنیاد میں موجود سرمایہ دارانہ نظام کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اس ملک کے آرمی چیف نے امریکہ کا دورہ کیا ہے جس کو ملک کی سیاسی اور ریاستی صورتحال کے حوالے سے انتہائی اہم بتایا جا رہا ہے۔ اس دورے میں اس کی ملاقاتیں امریکہ کے وزیر خارجہ سمیت اہم دفاعی عہدیداروں کے ساتھ بھی ہوئی ہیں۔ لیکن کہیں بھی فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف احتجاج نہیں کیا گیا اور نہ ہی امریکہ کی اسرائیل کی حمایت کرنے پر مذمت کی گئی ہے۔ فلسطینیوں کے خون کا سودا کرنے والے حکمرانوں کے خلاف کسی بھی سیاسی لیڈر، مذہبی راہنما، عالم دین یا تجزیہ نگار کی غیرت نہیں جاگی اور کسی نے پاکستان کی ریاست کے اس دوغلے کردار کی مذمت نہیں کی ہے۔ امریکی سامراج کی گماشتگی 1947ء سے شروع ہو کر، ڈالر جہاد اور نام نہاد وار آن ٹیرر سے ہوتی ہوئی آج اسرائیل کی درپردہ حمایت تک جاری و ساری ہے اور اس ملک کے حکمران طبقے کا واحد نظریہ صرف اور صرف سامراجی دلالی ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کشوں میں اس اسٹیبلشمنٹ اور اس کے گماشتوں کے خلاف غم و غصہ انتہاؤں تک جا پہنچا ہے اور وہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں اور اس کی پشت پناہی کرنے والی سامراجی طاقتوں سے بھی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب اس ملک کے ایک وزیر جان اچکزئی نے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کہا ہے کہ وہ امریکی سامراج کو پاکستان میں فوجی اڈے دینے کے لیے تیار ہیں جہاں سے وہ اپنی مرضی کے ڈرون حملے کر سکتا ہے۔
سادہ الفاظ میں حکمران طبقے اور عوام کے درمیان تضاد شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور آنے والے عرصے میں کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ سکتا ہے۔ اس دھماکے کے ابتدائی آثار پہلے ہی نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ اس وقت ”آزاد“ کشمیر میں بجلی کے بلوں کے خلاف عوامی تحریک پوری شدت کے ساتھ جاری ہے اور وہاں رہنے والے لاکھوں لوگوں نے گزشتہ چھے مہینے سے بجلی کے بل ادا نہیں کیے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی آٹے کی سبسڈی کے خاتمے کے خلاف ایک عوامی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے اور بدترین سردی اور خراب موسم کے باوجود بہت بڑے احتجاج ہو رہے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں ریاستی جبر اور مظالم کے خلاف ہزاروں خواتین تربت سے لے کر اسلام آباد تک احتجاج کر رہی ہیں جبکہ چمن میں ہزاروں افراد کا احتجاجی دھرنا بھی دو مہینے سے جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں سب سے بڑی تحریک پنجاب کے سرکاری ملازمین کی نظر آئی جس میں لاکھوں خواتین اساتذہ نے بھی بھرپور شرکت کی اور ان کا روزگار ختم کرنے کے حکومتی اقدامات کی شدید مذمت کی۔ پورے ملک میں خواتین کی تحریکوں میں بڑے پیمانے پر شمولیت سماج میں ایک بنیادی تبدیلی کا اظہار ہے اور آنے والے عرصے میں ایسی تحریکیں زیادہ بڑے پیمانے پر نظر آئیں گی۔ لیکن یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ ان تحریکوں کی قیادت کسی بھی روایتی سیاسی پارٹی کے پاس نہیں اور ان تحریکوں میں شامل لاکھوں افراد کو کسی بھی سیاسی پارٹی یا آنے والے الیکشنوں سے کوئی امید نہیں۔ درحقیقت اس ملک میں پارلیمانی نظام اور جمہوریت کی کھوکھلی حقیقت سب پر عیاں ہو چکی ہے، جبکہ عدلیہ کا سرمایہ دار طبقے کے گماشتے کے طور پر کردار بھی واضح ہے۔
تاریخ بھی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ فرسودہ سماجی ڈھانچے یا حکمرانوں کے مسلط کردہ نظریات انقلابی تحریکوں کا رستہ کبھی بھی نہیں روک سکتے اور انقلابات ہمیشہ ان کے خلاف بغاوت کر کے ہی ابھرتے ہیں۔ الیکشن، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر تمام ریاستی ادارے یہاں پر برطانوی سامرج نے مسلط کیے تھے اور یہ تمام ادارے آج بھی سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتوں کے مفادات کے لیے کام آتے ہیں۔ عوام ان کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں اور آنے والے عرصے میں ان فرسودہ ڈھانچوں کے باہر سے ہی نئے انقلابی پلیٹ فارم جنم لیں گے جو متوازی ادارے قائم کرتے ہوئے تحریکوں کو منظم کرنے کے عمل کا آغاز کریں گے۔ آزاد کشمیر میں ہم عوامی ایکشن کمیٹیوں کا ابھار پہلے ہی دیکھ چکے ہیں جو کسی بھی ریاستی یا سیاسی ادارے سے زیادہ مضبوط اور فعال ہیں اور ان کی ہی کال پر ہڑتالیں اور لاکھوں کے احتجاج منظم ہو رہے ہیں۔ دیگر علاقوں میں بھی اسی جانب پیش رفت نظر آئے گی اور سرمایہ داروں کی سیاست اور نام نہاد جمہوریت کے مقابلے میں مزدور طبقے کی سیاست اور حقیقی جمہوریت کا عملی میدان آنے والے عرصے میں سجتا نظر آئے گا۔ ہر فیکٹری، ہر یونیورسٹی اور کالج اور ہر محلے میں عوام اپنے نئے متوازی ادارے قائم کریں گے اور ان کے ذریعے ہی سماج کو چلانے اور اپنے مسائل حل کرنے کی جانب آگے بڑھیں گے۔ دنیا کی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب برپا کرنے والے لینن اور ٹراٹسکی اور ان کی بالشویک پارٹی بھی1917ء میں روس میں انہی متوازی اداروں کے ذریعے منتخب ہو کر اقتدار میں آئی تھی جنہیں سوویت کہا جاتا تھا۔ اس پارٹی کو دنیا کی دیگر تمام پارٹیوں پر جو فوقیت حاصل تھی اس کی وجہ اس کے انقلابی نظریات تھے جن پر کئی دہائیوں تک اس پارٹی کی قیادت نے ایک طویل جدوجہد کے ذریعے پارٹی تعمیر کی تھی۔
آج بھی دنیا بھر کی سامراجی طاقتوں اور سرمایہ دار طبقے کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہی انقلابی نظریات کی ضرورت ہے اور انہی نظریات پر ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی پارٹی جو اگلے انتخابات جیتنے کے لیے نہ بنائی جائے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر یہاں پر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکے۔ اس وقت اس ملک کے مزدور طبقے کو ایسی ہی ایک نمائندہ پارٹی کی اشد ضرورت ہے اسی لیے انقلابی نظریات رکھنے والے نوجوانوں اور مزدوروں کو تیزی سے منظم ہوتے ہوئے اس پارٹی کا ممبر بننے کی ضرورت جو یہاں پر عالمی مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) کے کارکنان تعمیر کر رہے ہیں۔