|تحریر: راشد خالد|
25جولائی کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ انتخابات سے متعلق گہما گہمی اپنے عروج پر ہے۔ اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر عام انتخابات کے علاوہ کوئی بات سنائی بھی نہیں دیتی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت ملک میں سوائے انتخابات کے اور کوئی خبر موجود ہی نہیں ۔خواتین اور بچوں کے ساتھ آئے روز ہونے والے انسانیت سوز مظالم ہوں یا گرمی اور بارشوں سے ہونے والی ہلاکتیں، مہنگائی کا عذاب ہو یا بیروزگاری کا عفریت کوئی بھی خبر اس بکاؤ میڈیا کے لیے اہم نہیں۔اس وقت میڈیا کا دھندہ صرف الیکشنوں سے جڑا ہوا ہے۔ الیکشن لڑنے والوں کے سیاسی بیانات ناصرف یہ کہ اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت ہیں بلکہ نیوز چینلوں پر بریکنگ نیوز بھی پارٹیوں کے سیاسی بیانات سے مزین ہیں۔ ایک دھما چوکڑی ہے جو رچائی جا رہی ہے۔ الیکشن کیمپین کا مقصد کوئی سیاسی پروگرام اور منشور دینا یا عوام کے مسائل کو حل کرنے سے متعلق نہیں بلکہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، غلاظت پھینکنا، الزامات اور بہتان تراشیاں اور بڑھک بازیاں بن چکا ہے۔ اور یہ عمل اس قدر غلیظ حد تک پہنچ چکا ہے کہ کسی بھی پارٹی کا کوئی چمچہ بھی اپنی پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات کا دفاع کرنے سے قاصر ہے بلکہ کئی ایک تو اس عمل سے متنفر ہو چکیہیں۔ غرض میڈیا کے ذریعے انتخابات کا غلیظ پروپیگنڈا دن رات عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنے کے باوجود عوام میں ان انتخابات کے حوالے سے کوئی ہلچل نظر نہیں آ رہی۔
ماضی میں انتخابات عوام کی ایک خاطر خواہ مداخلت سے پایۂ تکمیل تک پہنچتے تھے لیکن آنے والا انتخاب ماضی کے انتخابات سے یکسر مختلف اس لئے بھی ہے کہ عوام کی اکثریت اس عمل سے خود کو لاتعلق کر چکی ہے۔ ہر فرد کے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ بالآخر یہ انتخابات ان کی زندگیوں میں کس قسم کی تبدیلی لے کر آ سکتے ہیں اور جب وہ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں کی طرف دیکھتا ہے تو اسے ان میں کوئی فرق سرے سے نظر ہی نہیں آتا جس کی وجہ سے ان تمام تر پارٹیوں کو ترازو کے ایک ہی پلڑے میں رکھتا ہے۔ بالخصوص گزشتہ عرصے میں ریاستی بحران اور اس بحران کی وجہ سے جنم لینے والے سیاسی بحران اور حکومت اور اداروں کے مابین تصادم نے رائج الوقت حکمران طبقے کے مکروہ سیاسی دھندے کو عوام کی نظروں میں مزید ننگا کر دیا ہے۔ نون لیگ کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ’’جنگ‘‘ نے، جو درحقیقت حکمران طبقے کے دھڑوں کی ہی باہمی چپقلش ہے، سیاسی عمل کے پس منظر میں لوٹ مار اور مفادات کے کھیل کو منظر عام پر لا کھڑا کیا ہے اور عوام پر یہ بھی عیاں کر دیا ہے کہ درحقیقت اس ریاست پر حکمران طبقے کے کون سے دھڑے براجمان ہیں اور ان کے مفادات کیا کیا ہیں۔ ماضی میں ڈھکے چھپے انداز میں کی جانے والی باتیں آج سرعام ہو رہی ہیں۔
تمام تر رنگ بازی کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ان انتخابات میں پچھلے پانچ سال تک اقتدار میں رہنے والی نون لیگ اور باقی تمام پارٹیوں کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ لیکن اگر بغور ان پارٹیوں کو دیکھا جائے تو ان کے مابین تفریق نہ ہونے کے برابر ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں وفاداریاں بدلنے کے ریکارڈ قائم ہو چکے ہیں۔ کل جو نون لیگ میں تھا آج وہ تحریک انصاف میں ہے، جو پیپلز پارٹی میں تھا وہ اس بار نون لیگ کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ ماضی میں مخصوص خاندان جو اپنی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے مشہور ہوا کرتے تھے، وہاں بھی اتھل پتھل دیکھنے میں آتی ہے، ناصرف ان خاندانوں کی سیاسی وابستگیاں دن بدن تبدیل ہو رہی ہیں بلکہ ایک ہی خاندان کے مختلف افراد مختلف پارٹیوں کی نمائندگی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان انتخابات میں کئی حلقوں میں ایک ہی خاندان کے افراد 4، 4پارٹیوں کے ٹکٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے؛ باپ نون لیگ تو بیٹا تحریک انصاف اور بھتیجا پیپلز پارٹی۔ پارٹیاں اور وفاداریاں تو تبدیل ہوئیں لیکن ووٹ لینے والے افراد ان انتخابات میں بھی وہی ہیں جو طویل مدت سے سیاسی دھارے پر براجمان ہیں۔
سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جو کل تک کسی حد تک ڈھکی چھپی ہوتی تھی وہ بھی اب کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ پاکستان میں بننے والی حکومتیں عمومی طور پر یہاں کے حکمران طبقے کے عالمی آقاؤں کی آشیرباد اور عسکری قیادت کے باہمی گٹھ جوڑ کے تحت ہی ترتیب پاتی ہیں۔ لیکن ماضی کی نسبت اس مرتبہ کیفیت بہت مختلف اور گھمبیر ہے۔ ماضی میں اس ریاست کے آقا کا کردار امریکی سامراج ادا کرتا تھااور علاقائی طاقتیں جیسا کہ سعودی عرب، مگر اب کہ صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ایک طرف امریکہ کے ساتھ اس ریاست کے تعلقات میں شدید تناؤ آیا ہے اور اس وجہ سے یہاں کے حکمران طبقے کا جھکاؤ چین کی طرف منتقل ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سی پیک کے تحت بڑی سرمایہ کاری کے بعد چین کے مفادات بھی پہلے کی نسبت اس خطے کے ساتھ زیادہ وابستہ ہو چکے ہیں۔ یہ حکمران طبقہ ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں نہ تو مکمل طور پر امریکہ سے پیچھا چھڑایا جا سکتا ہے اور نہ ہی چین پر اس انحصار کو مکمل طور پر منتقل کر سکتا ہے جس وجہ سے انہیں ایک ہی وقت میں مختلف سامراجی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے ایک ایسے کٹھ پتلی سیاسی سیٹ اپ کو تشکیل دینا ضروری ہے جس کے ذریعے یہ امریکہ کے ساتھ بھی اپنے معاملات چلا سکیں اور چین کے ساتھ بھی۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ جمہوری حکومت ان کے اشاروں پر چلتی بھی رہے۔ اور یہی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک کٹھن امتحان بن چکا ہے۔
کل تک نون لیگ اسٹیبلشمنٹ اور یہاں کے حکمران طبقے کے روائتی نمائندہ کا کردار ادا کرتی رہی ہے مگر ریاست کا بحران جس حد تک شدید ہو چکا ہے اس میں نہ تو اسٹیبلشمنٹ کوئی یکتا اکائی کی شکل میں اپنا وجود رکھتی ہے اور نہ ہی یہاں کے حکمران طبقے کے مفادات کسی ایک پالیسی کے گرد گھومتے ہیں۔ یہی تضادات نون لیگ کے عسکری قیادت کے ساتھ چپقلش کا باعث بھی بنے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے حاوی دھڑے نے نون لیگ سے متعلق انتہائی ’’سختی‘‘ سے نپٹنے کا پیغام بھی دیا ہے اور انتخابات کے اعلان سے قبل ہی نون لیگ میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے کوئی نیا سیٹ اپ تشکیل دینے کی کوشش دی گئی۔ ابتدائی طور پر تو نواز شریف کو نون لیگ کی قیادت سے ہٹا کر شہباز شریف کو چوہدری نثار کی حمایت کے ساتھ نون لیگ کی قیادت سونپنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہیں ہو سکی جس کے بعد نون لیگ کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کو نون لیگ سے الگ کر کے تحریک انصاف میں شامل کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے رہے سہے چند نام بھی تحریک انصاف میں شامل کروائے گئے۔ عدالتی کاروائیوں اور میڈیا کے ذریعے ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی کہ اب کی بار تحریک انصاف ان انتخابات میں ایک واضح اکثریت لینے میں کامیاب نظر آئے۔ لیکن یہی عمل تحریک انصاف کی رہی سہی ساکھ کو بھی ختم کرنے کا موجب بنا ہے۔ گو کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے گزشتہ انتخابات کے بعد سے جو ’’حرکات‘‘ کی ہیں، انہوں میں تحریک انصاف میں ساکھ نام کی کوئی چیز رہنے نہیں دی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کے گزشتہ انتخابات سے قبل درمیانے طبقے میں عمران خان کا جو بخار ابھرا تھا وہ پانچ سالوں میں اب یکسر ماند پڑ چکا ہے اور اب تحریک انصاف کی ’’تبدیلی‘‘ کے علمبرداروں کی اکثریت وہی ہے جو کل تک ’’شیر آیا، شیر آیا‘‘ یا پھر ’’اک زرداری سب پر بھاری‘‘ کے راگ الاپتے تھکتی تک نہیں تھی۔ ریاستی آشیر باد کے اتنے بڑے انجکشنوں کے بعد بھی تحریک انصاف کی پژ مردگی درحقیقت اس کے سیاسی خصی پن کا واضح اظہار ہے اور وہ سماج کے کسی ایک حصے کی بھی حمایت نہیں جیت سکی۔
سیاسی اکھاڑے میں بڑے پیمانے کی توڑ پھوڑ کے باوجود کوئی قابل عمل سیاسی سیٹ اپ ابھی تک تشکیل پاتا نظر نہیں آ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ نامزدگیوں کی حتمی تاریخ سے محض ایک دن قبل جنوبی پنجاب سے نون لیگ کے 8امیدواران نے اپنے ٹکٹ نون لیگ کو واپس کر دیئے اور جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ نون لیگ کے ہی ناراض رہنما اور سابق وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار اور نون لیگ کے ایک اور ناراض رہنما زعیم قادری بھی اسی نشان پر الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ صورتحال اس وقت شدید تناؤ کا شکار ہو گئی جب نون لیگ کے ملتان سے ٹکٹ ہولڈر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ آئی ایس آئی کے افراد نے انہیں ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ وہ نون لیگ کی ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ نہ لیں۔ جس پر نواز شریف نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بیرون ملک سے ہی اپنی سابقہ سرپرست آئی ایس آئی کے خلاف بیان داغ دیا۔ لیکن صورتحال اس وقت انتہائی مضحکہ خیز ہو گئی جب انہی موصوف ٹکٹ ہولڈر نے اگلے دن ایک اور پریس کانفرنس میں یہ فرمایا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی تھی اور گزشتہ دن ان کے گودام پر چھاپا مارنے والے افراد تو ’’محکمہ زراعت‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد سے ’’محکمہ زراعت‘‘ سوشل میڈیا پر شاید سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
ویسے بھی ان انتخابات میں لطیفے زیادہ ہیں اور سنجیدگی کم۔گو کہ انتخابات کے انعقاد میں ایک ماہ سے بھی کم کا عرصہ رہ گیا ہے لیکن انتخابات سے قبل جو روایتی گہما گہمی ہوتی تھی، اس بار سطح پر کہیں وجود نہیں رکھتی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ سیاسی پارٹیوں یا الیکشن میں حصہ لینے والوں کی کمی ہے یا حلقوں میں امیدوار موجود نہیں ہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ اس انتخابی عمل سے عوام کی لاتعلقی ہے۔ عوام بار بار کے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کر چکے ہیں کہ ان پارٹیوں میں سے کسی کی بھی حکومت آتی ہے تو ان کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ اور یہ الیکشن پیسے والوں کے الیکشن ہیں جو ان الیکشنوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر اقتدار میں آ کر ناصرف اپنا صرف کیا سرمایہ واپس حاصل کرتے ہیں بلکہ عوامی فنڈز میں سے اربوں کھربوں کی لوٹ مار کا موجب بھی بنتے ہیں۔ اور جس پارٹی کی بھی حکومت آئے گی اس کے اقدامات پھر محنت کشوں کے لئے نئے عذاب ہی مسلط کریں گے۔ عوام کے لئے نہ تو اس جمہوریت میں کوئی چاشنی ہے اور نہ انہیں کسی آمریت سے غرض ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں کونسی پارٹی ہے جو اقتدار میں نہیں رہی۔ منظر عام پر موجود تمام سیاسی پارٹیاں کہیں نہ کہیں اقتدار میں حصے دار رہی ہیں اور ان پانچ سالوں نے عوام کے لئے کونسی آسانی فراہم کی ہے۔ آئے دن اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے نے محنت کشوں کی زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے۔ پاکستانی ریاست کا معاشی بحران اس عمل کو شدید سے شدید تر کرتا جا رہا ہے۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ محنت کشوں پر حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بیروزگاری، بھوک، لاعلاجی عام انسانوں کا مقدر بنتے جا رہے ہیں۔ تعلیم پہلے تو غریبوں کی پہنچ سے باہر ہوئی تھی مگر اب سفید پوش درمیانہ طبقہ بھی اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے قاصر ہوتا جا رہا ہے۔ ہسپتالوں کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ کل دل کی تشفی کے لئے کوئی ایک آدھ دوا ہسپتالوں میں مفت دستیاب ہوتی تھی مگر اب پہلی بات کہ ڈاکٹر ہی میسر نہیں آتے اور اگر ڈاکٹر میسر آ بھی جائیں تو جو نسخہ وہ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں اس کو خریدنے کی سکت آبادی کی ایک اکثریت کے پاس موجود ہی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ مریض علاج کی خواہش لے کر تڑپتے ہوئے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ حکمران طبقہ ریاست کے معاشی بحران کو حل کرنے کے لئے بار بار نجکاری کو استعمال کرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پہلے سے موجود روزگار بھی سکڑتے جا رہے ہیں اور محنت کی منڈی میں نئے آنے والوں کے لئے سوائے ذلت کے اور کچھ بھی نہیں رکھا۔
یہی وہ حالات ہیں جو ان انتخابات سے عوام کی لاتعلقی کو جنم دے رہے ہیں اور کہیں تعلق کو جنم دیتے ہیں تو وہ حلقے میں ووٹ مانگنے آنیوالوں پر پتھراؤ کی شکل میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ ووٹ مانگنے والوں پر پتھراؤ کے ابھی محض چند ایک واقعات ہی منظر عام پر آئے ہیں جن میں بلاول پر لیاری میں ہونے والا پتھراؤ قابل ذکر ہے۔لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے اور وہیں پر بلاول پر پتھراؤ پیپلز پارٹی کی اس وقت سماج میں حیثیت کو عیاں کرتا ہے۔خورشید شاہ کے ساتھ بھی اس کے حلقے میں یہی سلوک ہوا۔بلاول اور زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت کا اس پر رد عمل ان کی حیرانگی کو ظاہر کرتا ہے۔دیگر ایسی کاروائیوں کے بعد بھی سندھ کے وڈیروں سے لے کر پنجاب کے سرمایہ داروں اور لٹیروں تک سب انگشت بدنداں ہیں۔وہ اپنے ٹھنڈے کمروں اور نرم و ملائم بستروں سے نکل کر عوام کے پاس گئے تو وہ سمجھ رہے تھے کہ عوام والہانہ طور پر ان کا استقبال کریں گے۔ عوام کا نفرت آمیز رد عمل ان کے لیے سمجھ سے باہر ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں حامد میر نے پیپلز پارٹی کی ترجمانی کرتے ہوئے اسے ماضی کے مختلف واقعات سے جوڑنے کی کوشش کی اور متعدد بار زور دے کر کہا کہ اس میں حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ گویاوہ خود کو اور اپنے سرپرستوں کو یہ باور کروانا چاہ رہا تھا کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہی چل رہا ہے اور ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہتے ہیں۔دراصل وہ حکمران طبقے کے دیگر افراد اور میڈیا کے تجزیہ نگاروں کی طرح اس وقت سماج کی تبدیل شدہ صورتحال کوتسلیم نہیں کرنا چاہ رہا اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے دل کو یہ تسلی دے رہے ہیں کہ سیاسی لیڈروں کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور سب کچھ ویسے ہی چل رہا ہے جیسے ’’ہمیشہ‘‘ سے چلتا آیا ہے۔لیکن زمین پر صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کی سماجی حمایت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ایم کیو ایم کی شکل میں یہ سطح پر واضح ہے ۔ پنجاب اور دیگر صوبو ں میں پیپلز پارٹی کے لیے بھی یہ واضح ہے لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت اس ملک کے حکمرانوں کو یہ سطح پر اب نظر آ رہا ہے۔آنے والے دنوں میں یہ عمل زیادہ شدت سے اپنا اظہار کرے گا اور پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کی طرح تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی طرف جائے گا۔
یہی عمل مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ بھی وقوع پذیر ہو چکا ہے۔ پشتون تحفظ تحریک نے پشتون قوم پرست پارٹیوں کی متروکیت کو چند ماہ قبل ہی واضح طور پر عیاں کر دیا تھا۔ گو کہ اس تحریک کی قیادت اپنی ہچکچاہٹ اور سیاسی نا پختگی کے باعث اس عمل کو فیصلہ کن انجام تک نہیں پہنچا سکی اور اس کے کارکنان انہی متروک پارٹیوں کے مردہ جسم میں ابھی تک زندگی تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔آنے والے عرصے میں ان لاشوں کا تعفن انہیں مزیدنئے رستے تلاش کرنے پر مجبور کرے گا۔اپنے چند لیڈران کے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے پر بھی یہ تحریک تذبذب کا شکار ہے ۔ وہ لیڈران بھی کوئی مشترکہ واضح سیاسی پروگرام نہیں دے سکے جو ان کی نظریاتی زوال پذیری کو ظاہر کرتا ہے۔بلوچ قوم پرست پارٹیوں کی بھی یہی صورتحال ہے جو اقتدار کے لالچ کے لیے کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔سندھی قوم پرست پارٹیاں انتخابی عمل میں کبھی بھیبڑے اثرات مرتب نہیں کر سکیں لیکن اب پیپلز پارٹی کی بوسیدگی کے باوجود ان کا زوال پذیر ہونا ان کی شکست کا واضح اعلان ہے۔
مذہبی پارٹیوں کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔جماعت اسلامی اور فضل الرحمان مسلسل اقتدار کے ساتھ لٹکے رہے ہیں اور کرپشن اور لوٹ مار کی گنگا میں سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ان کی منافقت اب زبان زد عام ہے اور اپنے روایتی اثر و رسوخ والے سماجی حلقوں میں بھی ان سے نفرت کی جاتی ہے۔یہ پارٹیاں صرف ٹی وی اور اخبارات کی حد تک ہی موجود ہیں اور زمین پر ان کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ نئے مہرے میدان میں اتار رہی ہے۔ان میں حافظ سعید سے لے کر خادم رضوی ،اورنگزیب فاروقی اورلدھیانوی شامل ہیں۔ایک طرف تو امریکہ کا سامراجی دباؤ ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کی جائے جبکہ مقامی اسٹیبلشمنٹ ان تنظیموں کو ’’مین سٹریم‘‘ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اپنے سٹریٹجک اثاثوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔یہی تنازعہ نواز شریف اور فوج کے اختلافات کے پھٹنے کا باعث بنا تھا جسے ڈان لیکس بھی کہا جاتا ہے۔ نواز شریف امریکی سامراج کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ مقامی اسٹیبلشمنٹ اپنے قیمتی اثاثوں کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتی اور انہیں مستقبل میں استعمال کے قابل رکھنا چاہتی ہے۔لیکن دونوں دھڑوں کا حتمی مقصد حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے اور صرف طریقہ کار پر اختلاف ہے اس لیے عوام کو اس عمل میں کوئی دلچسپی نہیں۔میڈیا پر مبالغہ آمیز کوریج دے کر اور کالے دھن کی رقم کے بڑے بڑے انجکشن لگا کر ایسی پارٹیوں کا مصنوعی بلبلہ بنایا جاتا ہے جس کا زمین پر وجود بھی نہیں ہوتا۔کسی بڑی عوامی تحریک کے آغاز پر ہی یہ بلبلے ختم ہو جائیں گے۔
بائیں بازو کی کوئی پارٹی ان انتخابات میں موجود نہیں صرف چند لبرلز ہیں جو این جی اوز کی شکل میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کا مقصد ووٹ لینے کی بجائے اپنی ذاتی تشہیر اور کاروباری فنڈنگ ہے جسے وہ خاطر خواہ انداز میں حاصل کر لیں گے۔ اس کاروبار کے لیے انہیں عوام کے حقوق اور نظریات کی بات بھی مجبوراً کرنی پڑ تی ہے جسے کچھ سوشل میڈیا کے دیوانے سنجیدہ لیتے ہوئے بحث شروع کر دیتے ہیں۔جبکہ حقیقت میں یہ اپنی چھوٹی چھوٹی دکانوں کی بقا کے لیے الیکشن میں آتے ہیں اس سے زیادہ ان کا مقصد کچھ بھی نہیں۔
اس سارے انتخابی عمل میں عوام کی نمائندگی کرنے والی کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں اور یہ تمام عمل محض حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کا میدان جنگ ہے جبکہ عوام محض تماشائی ہیں۔ حکمران طبقے کا ایک دھڑا یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ دوسرے تمام دھڑوں کو اب واضح شکست دینے کی پوزیشن میں آ گیا ہے اور انتخابات کے بعد تمام تر لوٹ مار صرف اسی کے حصے میں آئے گی۔لیکن یہ محض خام خیالی ہے۔ پاکستان کی ریاست جتنی بوسیدہ ہو چکی ہے اور انہدام کی جانب جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کا اندازہ خود یہاں کے حکمرانوں کو بھی نہیں اور وہ خود بھی حیرانگی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔معیشت کا بحران صرف اس کا ایک پہلو ہے۔ سماج میں موجود بے چینی اور حکمران طبقے کے خلاف نفرت آج جتنے بڑے پیمانے پر موجود ہے اتنی کبھی بھی نہیں رہی ۔ اور اس پر حکمران طبقہ کسی حقیقی سیاسی پارٹی کے بغیر سماج کو چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ تجزیہ نگار اسے ایک ابلتے ہوئے آتش فشاں سے تعبیر کرے گا جو پھٹنے کے قریب ہے۔انتخابات اس سارے عمل کو ایک معیاری جست لگانے کی جانب بڑھیں گے اور ہوا میں معلق ان تمام سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں کو زمین بوس کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔
لیکن حکمران طبقے کا بڑا حصہ اس عمل سے مکمل طور پر لاتعلق ہے اور دن رات اپنی لوٹ مار میں مصروف ہے۔ ان کے ایک نمائندے کی پیری مریدی اور درگاہوں پرحاضریوں کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ انہیں نہ تو انتخابات کے عمل پر یقین ہے اور نہ عوامی حمایت پر۔حکمرانوں کے دیگر حصوں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں اور وہ خود کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔یہ معجزے کی خواہش ہی کسی راسپوٹین کو جنم دیتی ہے۔ زار روس کے آخری دنوں میں بھی اس کے محل میں راسپوٹین نامی شخص کا راج تھا جو ایسے ہی کرتبوں کے ذریعے ملک کے تمام مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا تھا اور ملکہ سمیت تمام رئیس زادے اور وزرا اس پر اندھا یقین کرتے تھے۔ سوآج پاکستان میں ہونے والا یہ عمل محض یک طرفہ اور میکانکی نہیں بلکہ دوطرفہ اور سماجی حرکیات کے قوانین سے مزین ہے۔
پچھلے پانچ سال سے نفسیاتی طور پر اور اس وقت متوقع وزیراعظم بنا کر پیش کیے جانے والے عمران خان کی حالت قابل رحم ہے کہ وہ وزیر اعظم بننے کے لئے اس حد تک باؤلا ہو چکا ہے کہ کسی حد تک بھی گر سکتا ہے۔ دوسری طرف سابقہ اور نااہل شدہ وزیراعظم جس کو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ متصادم ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہ بھی ایک اداکار بن چکے ہیں۔ یقینااس کی اداکاری کا مقصد اپنی کرپشن کا دفاع ہی ہے جس میں اس نے کئی ریکارڈ قائم کیے ہیں اور اب اس کی بیٹی مریم نواز یہ ریکارڈ توڑنے کی خواہشمند ہے۔شہباز شریف کی پھرتیاں بھی مضحکہ خیز ہیں اور اس کو گورننس کا بے تاج بادشاہ کہنے والے کرائے کے دانشور بھی اس کی حمایت کے لیے مزید دلائل فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔لیکن افسوس ان کے سیاسی مخالفین پر ہے جو عوام کے لیے اتنے قابل نفرت لوگوں کو بھی شکست نہیں دے پا رہے۔ نوازشریف اور مریم نواز کی مظلومیت کے ناٹک کا پردہ چاک کرنے سے لے کر ان کو مکمل انتخابی شکست سے دوچار کرنے تک عمران خان اور اس کے حواری اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر حمایت کے باوجود ناکام نظر آتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ عمران خان برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی اتنا رسوا ہو چکا ہے جتنا کوئی شخص اقتدار کے بعد میں ہوتا ہے۔ ایسے میں معیشت کے بحران سمیت ریاست کے دیگر بحرانوں کا سامنا کرنا ایسے کمزور شخص کے لیے بالکل بھی ممکن نہیں ہو گا جس کی نہ صرف یہ کہ کوئی سماجی حمایت موجود نہیں بلکہ وہ اپنے عوام دشمن نظریات کے باعث پہلے ہی رسوا ہو چکا ہو۔یہ تمام ترصورتحال بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ ہے۔
اقتدار کے حصول کے لیے سامراجی طاقتوں کی آشیر باد بھی یہاں اہمیت کی حامل ہے۔ عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ بھی اسی تناظر میں پیش کیا گیا تھا۔ دیگر تمام پارٹیاں بھی اپنے علاقائی یا عالمی آقاؤں کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ وہ ان کے مفادات کا بہتر طور پر تحفظ کر سکتی ہیں۔ ریاست کے مختلف مقامی دھڑے جو اپنی اپنی مرضی کا کوئی سیٹ اپ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی سامراجی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کے در پر متوقع حاضری ہے جبکہ دوسری جانب چین سے بھی مسلسل قرضوں کا حصول جاری ہے ۔ جو رقم دے گا وہ اپنی مرضی کی حکومت کا بھی خواہشمند ہوگا۔یہ اس نظام کا بنیادی اصول ہے۔امریکہ اور چین کی حالیہ تجارتی جنگ کے آغاز نے صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے اور کھینچا تانی میں اضافہ ہوا ہے۔یہ لڑائی انتخابی عمل پر بھی اثرات مرتب کرے گی اور اسے مزید پر تشدد کرے گی۔ سامراجی طاقتوں اور مقامی حکمرانوں کے یہی متضاد مفادات کسی ایک نئی کیفیت کو جنم دینے کا موجب بھی بنیں گے۔ انتخابات سے قبل حالات مختلف کروٹیں لیتے رہیں گے اور سب کے لیے قابل اعتماد سیٹ اپ کی تشکیل کسی بھی صورت ممکن نہیں ہو گی۔ اور حتیٰ کہ جو سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا وہ اب کے زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ پہلے کی نسبت انتہائی نحیف اور تضادات سے بھرپور ہو گا۔ لیکن یہی عمل دوسری طرف پاکستان میں محنت کش طبقے کو حتمی نتائج اخذ کرنے پر بھی مجبور کرے گا۔ اس حکمران طبقے اور ان کے نظام پر اس کا اعتماد پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب تک اس نظام میں زندگی گھسیٹنے کی ذرا سی رمق بھی موجود ہے، محنت کش طبقہ اس آپشن کو رد نہیں کرے گا۔ اور محنت کش طبقے کے لئے کسی آسانی کے امکانات موجود ہی نہیں ہیں۔ آنیوالی حکومت چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو اس نے محنت کش طبقے پر مزید حملے کرنے ہیں۔ ٹیکسوں کی شکل میں ان کے منہ سے روٹی کے آخری نوالے بھی چھیننے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن محنت کش طبقہ اس عمل سے جو نتائج اخذ کرے گا وہ اسے اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی طرف لے جائیں گے۔آنے والا ہر دن اس ملک میں انقلابی طوفانوں کو قریب لانے کا باعث بنے گا۔معاشی انتشار سے لے کر سیاسی بحران تک کوئی بھی واقعہ ان طوفانوں کے آغاز کا باعث بن سکتا ہے۔کوئی ایک عدالتی فیصلہ بھی اس ریاست کے اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہو سکتا ہے ۔ ان طوفانوں کا آغاز انتخابات سے قبل بھی ہو سکتا ہے یا پھر اس عمل کے دوران بھی ، لیکن یہ طے ہے کہ طوفان کا آنا ناگزیر ہے اور اس سے فرار کا رستہ اب اس حکمران طبقے کے پاس نہیں۔ ایسے میں مارکس وادیوں کا یہ کام ہے کہ وہ محنت کش طبقے تک مارکسزم کا پیغام تیزی سے لے کر پہنچیں اور محنت کشوں کی ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کریں تاکہ غلاظت اور تمام بڑائیوں کی جڑ اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی تشکیل کا فریضہ ادا کیا جا سکے۔