تحریر: |ملک رفیق چنڑ|
گذشتہ کئی سالوں سے گلستان ٹیکسٹائل کے مزدور ایک غنڈے گماشتہ سرمایہ دار سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کئی سالوں کی انتھک لڑائیوں کے بعد مزدورصرف اسی امید پر آگے بڑھ رہا ہے کہ اس کی فتح کا دن بھی آئے گا جس دن وہ اور اس کے بچے پیٹ بھر کر روٹی کھائیں گے اور اس کے بچوں کی ماں روٹی گن کر نہیں دے گی اور نہ اس کے بچوں کے پاس صرف ایک ایک چڈی ہو گی اور اس کا اور اسکی بیوی کا بھی چمکدار سوٹ ہو گا جس کے میلے ہو نے اور پھٹ جا نے کا خوف بھی نہ ہو گا ۔ بیماری کا خوف بھی نہ ہو گا۔ دوائیوں کیلئے پیسے نہ ہونے کا خوف بھی نہ ہو گا۔ بچوں کو فیس نہ ہو نے کی وجہ سے ماسٹر بھی نہیں مارے گا اور بچوں کے ننھیال جا نے کے کرائے کی فکر بھی نہ ہو گی۔ اگلے دن کی روٹی کی فکر بھی نہ ہو گی۔ انہی خوابوں اور سوچوں میں گم اچانک اس کو آنے والی عید کا خیال آتا ہے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور بچوں کو نئے کپڑے نہ لا نے کے جھوٹ سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کو کوئی مناسب جھوٹ بھی نہیں ملتا۔ پھر سوچنے لگ جاتا ہے کیا جھوٹ بھی میری طرح غریب ہو گیا ہے جو روٹی کی طرح مل ہی نہیں رہا۔ اچانک مزدور لیڈرچلا کر کہتا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں پیسے ملنے کی امید ہے، ساتھ ہی وہ ایک آس امید دلاتا ہے کہ شاید مل بھی دوبارہ چلے گی اور غریب کا چولہا بھی؟
گذشتہ کئی دہائیوں میں ٹریڈ یونین کی عمومی زوال پذیری کے باعث محنت کش انتہائی غیر محفوظ حالات میں انتہائی کم اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی حادثے ہوتے ہیں جس کے باعث محنت کش زخمی بھی ہوتے ہیں مگر سر مایہ دار اس کی مدد کر نے کی بجا ئے اس کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے اور ہلاک ہو نے والوں کے ورثا کو ذلیل کیا جاتا ہے۔ سیفٹی اور دیگر امور پر اخراجات نہ کر کے ہی سرمایہ داروں کے منافع بڑھتے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی ابھرنے والی تحریکیں اس بات کی غمازی کر تی ہیں کہ اس نظام کے اندررہتے ہوئے کوئی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس نظام کے بالائی ڈھانچے ٹوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ آج سے لگ بھگ دس سال قبل مزدور کی تنخواہ پانچ ہزار تھی اوران دنوں بازار سے ہر ہفتے 100 روپے کی سبزیاں، مثلاً آلو، پیاز، ادرک، لہسن اور دیگر ضروری چیزیں خریدا کرتے تھے، لیکن اب ان میں سے اتنی مقدار میں محض دو چیزوں کی خریداری پر ہی 100 روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ چیزوں کے دام کئی گنا بڑھ چکے ہیں، جبکہ تنخواہ میں محض نوہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں مرکزی ،صوبائی، ضلعی اور بلدیاتی مشینری کو مزدور چلاتے ہیں اس کے ساتھ صنعت کا پورا شعبہ بھی مزدور طبقے کی بدولت ہے۔ پاکستان کی ریاست اور اس کا پورا ڈھانچہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قائم ہے۔ ہر گزرتا دن محنت کشوں کی اذیت میں مزید اضافہ کرتا جا رہا ہے اور ایسے میں جب کوئی تہوار آتا ہے تو محنت کشوں اور ان کے بچوں کے احساس محرومی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ اس کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ جلد یا بدیر محنت کش اس ظالمانہ نظام اکھا ڑنے کیلئے سڑکوں پر ہو نگے۔ قیامت اس سرمایہ دار، جاگیر دار، جرنیل، جج اور حکمران پر اس وقت آتی ہے جب وہ لوٹ مار اور ظلم و جبر کے نظام پر اپنی گرفت قائم نہیں رکھ پاتے جبکہ مزدور، کسان اور عام محنت کش یا کسی غریب پرتو دن رات کام کرنے کے باوجود ایک دن میں استعمال کئے جانے والے آٹے، گھی، پتی، تیل، بجلی، گیس، گھرکے کرائے کے برابر صلہ محنت نہ پانے کی صورت میں روزہی قیامت اترتی ہے۔ اس کا گھر قیامت کی آماجگاہ ہوتا ہے اور ہلاکت اسکا موسم ہوتا ہے۔ایسے میں کیسی خوشیاں اور کون سی عید؟