|ڈیجان کوکچ اور حمید علی زادے، ترجمہ: سائرہ بانو|
پیر سترہ جون کو مصری ریاست کے خلاف جاسوسی کے مقدمے کی سماعت کے دوران سابق مصری صدر محمد مرسی کمرہ عدالت میں گر کر جاں بحق ہوگیا۔ ذیابیطس، گردوں اور جگر کے دائمی امراض میں مبتلا مرسی 2013ء سے قید میں تھا، جب انسانی تاریخ کی بڑی عوامی تحریکوں سے ایک تحریک کے نتیجے میں اس کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اخوان المسلمین کے سیاسی بازو، فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے سابق رہنما کومبینہ طور پر دن کے 23 گھنٹے قیدِ تنہائی میں رکھا جاتا تھا۔ دوران قید مناسب خوراک، ضروری طبی علاج، قانونی مشاورت اور اہل خانہ سے ملاقاتوں تک رسائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہی غیر انسانی حالات 67سال کی عمر میں اس کی جلد موت کا باعث بنے۔
2011ء سے 2014ء تک مصر میں انقلاب اور رد انقلاب کے عرصے کے ایک مرکزی کردار کی مصری حکومت کی حراست میں اچانک ہلاکت نے دنیا بھر میں ایک سنسنی پھیلا دی۔ مرسی کی ہلاکت سے ایک بار پھر مصری انقلاب کے واقعات، اخوان المسلمین کا کردار اور صدر سیسی کی جابرریاستی مشینری کے ہتھکنڈے دنیا کی نظروں میں نمایاں ہوگئے ہیں۔ بورژواز میڈیا کے مختلف حصوں کی جانب سے مرسی کی صدارت کا نئے سرے سے جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس موقع پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہم مارکسسٹ مرسی سے کیے جانے والے سلوک کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اس واقعے کا مصر کی موجودہ صورتحال میں کیا کردار ہے، اور اخوان المسلمین کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر کیا ہے۔
لبرل منافقت اور ایک فرعون کی موت
بہت سے لبرل میڈیا گروپس بشمول نیویارک ٹائمز، دی گارڈین اور بی بی سی نیوز نے ایسے مضامین شائع کیے ہیں جن میں مصر کے پہلے سویلین اورجمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے صدر کی موت کا غم منایا گیا۔ حتیٰ کہ گارڈین نے اپنے ایک مضمون کا اختتام مرسی کے ایک سابق مشیر کے قول پر کیا جس کا دعویٰ تھا کہ ’وہ بہت سے مصریوں کے لیے ایک مجسم نمونہ تھا‘۔
درحقیقت، جن انتخابات کے ذریعے مرسی اقتدار میں آیا،وہ بعد ازاں ہونے والے السیسی کے انتخابی ناٹکوں سے کسی طور مختلف نہ تھے اور جس پر یہ جرائد کف افسوس ملتے ہیں۔
پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ اخوان المسلمین اور پرانی حکومت نے بہت سارے معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون کیا۔ حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد جب فوجی قیادت نے یہ دیکھا کہ سپریم کونسل فار آرمڈ فورسز(SCAF) مزید اقتدار پر قابض نہیں رہ پائے گی تو وہ ایک نئے آئین کے نفاذ کی جانب بڑھے۔ اس آئین کے انتخابی قوانین نے بلاشبہ اخوان المسلمین کی مدد کی، جو کئی دہائیوں سے اپنے آپ کو وفادار اور حکومت کے لیے نیم اپوزیشن ثابت کرچکی تھی۔
دوسرا یہ کہ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں قاہرہ، اسکندریہ اور دیگر شہری مراکز میں فتح حاصل کرنے کے باوجود، بائیں بازو کا امیدوار حمدین صباحی سابقہ حکومت کے وزیر اعظم احمد شفیق سے شکست کھا کر انتخابی دوڑ سے باہر کردیا گیا۔ ان انتخابات میں دھاندلی اور بیلٹ پیپر چوری کے واضح شواہد تھے جس کا مقصد صباحی کو آخری مرحلے سے باہر کرنا تھا۔ اگرچہ، شفیق ریاستی بیوروکریسی اور سابقہ حکمران اشرافیہ کا مرکزی امیدوار تھا، مگر صباحی، جس کے پیچھے انقلابی تحریک تھی، کے مقابلے میں مرسی قابل اعتماد امیدوار نہ تھا۔
تیسری بات یہ کہ کچھ فوجی افسران کی تطہیر اور پرانی ریاستی مشینری کے کچھ حصوں سے جان چھڑواتے ہوئے، اس(مرسی) نے سابقہ طاقتور افراد کو ہٹاتے ہوئے عبدالفتح السیسی کو اپنا وزیر دفاع مقرر کیا جو کہ آج مصر پر حکمران ہے۔
اگر مرسی بہت سے مصریوں کے لیے ایک علامت ہے تو وہ اس نفرت کی علامت ہیں جولوگوں کو اخوان المسلمین کی حکومت سے تھی۔ اخوان المسلمین کے دور حکومت میں کئی بار مسلح اسلامی جتھوں نے پولیس کے ساتھ مل کر ان پر امن احتجاجیوں پر حملے کیے جو کہ بڑھتے ردانقلابی اقدامات کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔
نومبر 2012ء میں مرسی نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت اس کے فیصلوں اور قوانین کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا تھا، اس قانون نے مرسی کو لامحدود طاقت عطا کردی۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ آئین ساز اسمبلی (اس وقت اخوان المسلمین کی مکمل طور غیر جمہوری اورکٹھ پتلی باڈی) کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور اس نے بہت سرعت سے ایک نیا آئین تیار کیا جس نے واضح طور پر ملک میں شریعت کو اعلیٰ قوانین کا درجہ دے دیا۔ مرسی کے اعلان کے نتیجے میں عوامی احتجاج پھوٹ پڑے اور مظاہرین اور پولیس اور اخوان المسلمین کے حامیوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ مرسی نے ذاتی طور پر پولیس کو حکم دیا کہ صدارتی محل کے باہر جاری مظاہرے کو ختم کروایا جائے، لیکن انھوں نے انکار کردیا جس کے بعد اسلامی انتہا پسندوں کو بھیجا گیا جنہوں نے مظاہرین بشمول بچوں پربدترین تشدد کیا۔ ان مظاہرین کے ہاتھ باندھ کر رات بھر سڑکوں پر رکھا گیا حتیٰ کہ انھوں نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ انہیں مظاہرہ کرنے کے لیے مصر کے دشمنوں نے پیسے دیئے تھے۔
بی بی سی نیوز پر مرسی کی موت پر شائع ہونے والے مضمون میں اس واقعے کا سرسری ذکر کیا گیا ہے کہ اس واقعے میں ہونے والے قتل کے حوالے سے وہ ایک مقدمے میں زیر تفتیش تھا اور صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ بعد ازاں اپیل پر اس کی سزائے موت کو معطل کردیا گیا تھا۔ بجائے طاقت کو مرتکز کرنے کے اقدامات پر بات کرنے کے جو ان مظاہروں کا باعث بنی، اس مضمون میں کہا گیاکہ مرسی کو ان کی خطیبانہ صلاحیتوں کے لیے سراہا جاتا تھا۔ عمومی طور پر ان رپورٹوں اور موت کی خبروں میں، مرسی کی طاقت کو اپنے ہاتھ میں مرتکز کرنے کی کوششوں، دوران صدارت اخوان المسلین کی جانب سے رد انقلابی تشدد کے بارے میں بمشکل کوئی بات کی گئی۔ زیادہ سے زیادہ، مصری عوام کی جمہوری خواہش کی مدح سرائی، اور ایک اہم شخصیت کو قتل کے مقدمے میں ظالمانہ قید میں رکھنے کی مذمت کے پیچھے ان حقائق کو چھپادیا گیا۔
تاہم، مصری عوام مرسی کی قبل از وقت موت سے کوئی زیادہ ہمدردی نہیں رکھتے۔ مرسی کے آبائی علاقے العدوہ کے علاوہ، جو دریائے نیل کے ڈیلٹا کا ایک پسماندہ صوبہ ہے، کہیں کوئی قابل ذکر احتجاجی مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا، حتیٰ کہ اخوان کے حامیوں نے بھی کوئی خاص مظاہرہ نہیں کیا۔ 2013ء سے جماعت زیر زمین جانے پر مجبور ہوچکی تھی اور اس قدر نحیف مظاہروں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جماعت کی موثر حمایت کس قدر سکڑ چکی ہے۔ مصریوں کے لیے دیگر سلگتے مسائل زیادہ اہم ہیں مثلاً پٹرول پر رسبسڈی کے خاتمے کی وجہ سے بار بار ہونے والی مہنگائی، یا نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح جو آسمان کو چھورہی ہے۔ تاہم ہمارے نام نہاد جمہوریت پسندوں کی اس کی چنداں پرواہ نہیں ہے۔
وہ بس جیل میں مرسی کے ساتھ نا روا رویئے پر شاکی ہیں۔ جب کبھی ریاست کے ہاتھوں ہونے والی نا انصافیوں کی بات ہوتی ہے تو مصریوں کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ طاقت پر قبضے کی کوشش یاانقلابی نوجوانوں کے خلاف اسلامی دہشت گردوں کو بھڑکانے جیسے اقدامات کو بہت دور کی بات ہے ایسی کسی حرکت کے بغیر ہی ان کے ساتھ اس سے بھی برا سلوک ہوسکتا تھا جو مرسی کے ساتھ ہوا۔ جیسا کہ کسی کنسرٹ میں قوس قزح والا جھنڈا لہرانے کی صورت میں جیل میں ڈالے جانے سے قبل پولیس افسر آپ کے مقعد کا جائزہ بھی لے سکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر جنسی ہراسانی کے خلاف تنقید کرنے کا نتیجہ عوامی سطح پر تذلیل کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے ا ور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہونے پر آپ کو سزا بھی ہوسکتی ہے۔
مرسی کی ہلاکت پر، برطانیہ میں ہمارے معزز انسان دوست، ٹوری ممبر پارلیمنٹ کرسپن بلنٹ اپنی طویل کیمپین کے ساتھ میدان میں اترے کہ سابق مصری صدر کے ساتھ روا رویئے پر مصری حکام سے باز پرس کی جائے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مصری ریاست کی قید میں موجود 60ہزار سیاسی قیدیوں کے بارے میں اس نے ایک لفظ نہیں کہا جن کی اکثریت بالکل بے قصور ہے۔ 2015ء سے 2017ء کے دوران خارجہ امور کی منتخب کمیٹی کے چیئر مین کے طور پر برطانیہ کے سیسی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور ٹوریز کی جانب سے مصری صدر کی کھلے بندوں حمایت بھی بلنٹ کے لیے کوئی اہم مسئلہ نہ تھی۔ منافقت، جھوٹ اور دہرے معیار کی کوئی حد نہیں۔
بورژوا سیاستدان اور میڈیا انسانی حقوق کے لیے جو لگاؤ ظاہر کرتا ہے یہ منافقت اس پر سے پردہ اٹھا رہی ہے۔ دراصل ان کی فکر یہ ہے کہ سیسی کی حکومت اس کے اپنے لیے، مصر کے حکمران طبقے کے لیے اور عالمی حکمران طبقات (خاص طور پر امریکہ)کے لیے مشکلات کا باعث بن گئی ہے۔ ان کو اس خطرے کا احساس ہے کہ ایک غلط چال سے مصری انقلاب کے بجھے ہوئے الاؤ میں پھر چنگاری بھڑک سکتی ہے اوراس حوالے سے ایک سابق اپوزیشن رہنما اور صدر کا قتل ان کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہے۔ مرسی میں موجود تکثیریت اور جمہوریت پسندی میں ان کی نئی دلچسپی دراصل سیسی کی ڈکٹیٹرشپ کے حوالے سے موجود خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ عناصراس کمزور حکومت پر ایک ایسے ملک کے استحکام کے حوالے سے بھروسہ نہیں کر سکتے جس کی معیشت تباہ حال ہے اور جس کی سیاست اب تک تناؤ کا شکار ہے۔ ایک طرح سے بورژوا پالیسی سازوں اور تبصرہ نگاروں کو مرسی کی موت سے ایک پیغام ملا ہے کہ مصر کا حکمران طبقہ اس ایک متبادل سیاسی راستے کو استعمال کرچکا ہے جو اسے دستیاب تھا۔
اخوان المسلمین
مرسی کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا جس کو پہلی بار 2005ء کے پارلیمارنی انتخابات میں شرکت کی اجازت ملی۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی ایسی جماعت کو باضابطہ طور پر انتخابات لڑنے کی اجازت ملی جو فوجی حکومت کے خلاف تھی۔ یہ ایک رعایت تھی، جو 2006ء میں ہونے والی محلہ ٹیکسٹائل کی ہڑتالوں کے ساتھ مبارک آمریت کے خاتمے کا موثر طور پر اعلان کررہی تھی۔ تاہم 2005ء سے قبل بھی اخوان کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخابات میں کھڑے ہونے کی اجازت تھی۔ ریاستی مشینری کے ساتھ وقتاً فوقتاً ہونے والے تنازعوں میں پارٹی نیم قانونی طور پر موجود تھی۔
مصر کی تاریخ میں، اخوان المسلمین رجعت کی نمائندہ ہر اول جماعت رہی ہے۔ یہ وہ واحد جماعت ہے جس نے مذہبی قدامت پسند اسٹیبلشمنٹ، کسانوں اور درمیانے طبقے کومحنت کش طبقے اور انقلابی عوام کے خلاف صف آرا کیا۔یہ مصری سرمایہ دار طبقے کا ہی ایک چھوٹا دھڑا ہے جو کہ انقلابی عوام کے مقابلے میں بڑے سرمایہ داروں کے مفادات کے لیے کوئی قابل ذکر خطرہ نہیں ہے۔
کئی سالوں تک اس طبقے نے اخوان کی پرورش کی تاکہ اگر ان کو کوئی خطرہ ہو تو جماعت ان کی جگہ لے سکے۔ جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی دے کر درحقیقت ریاست نے ایک وفادار اپوزیشن تخلیق کی تھی، جو بڑھتے ہوئے انقلابی جذبات کو سرد کرکے سرمایہ دارانہ طبقے کو محفوظ بناسکے۔
سالوں تک ریاستی اشرافیہ نے اخوان کی اس مقصد کے تحت پرورش کی گئی کہ اگر اقتدار پر خطرہ منڈلانے لگے تو یہ مداخلت کرسکے۔ اس کو کھڑے ہونے کا موقع فراہم کرکے حکومت نے ایک وفادار اپوزیشن کو تخلیق کیا تاکہ انقلابی موڈ کو سرمایہ دارانہ بھول بھلیوں میں گم کیا جاسکے۔
اگرچہ اخوان کے کارکنان انقلابی تحریک کی ابتدا ہی سے اس میں مداخلت کر رہے تھے مگر جب حسنی مبارک کا زوال یقینی ہوگیا تو اس وقت اکوان کی قیادت بھی اس کا حصہ بن گئی اور انقلاب کے ہر موڑ پر سبوتاژکی کوششیں جاری رکھیں۔
جب حکمران طبقے کا سامنا ایک ایسی انقلابی تحریک سے ہوا جسے جبر کے ذریعے روکنا ممکن نہ تھا تو اخوان کو سامنے لایا گیا تاکہ تحریک کے ایک ایسے رستے پر ڈالا جائے جہاں اسے کنٹرول کرنا آسان ہو اور پورے کے پورے نظام کو برباد ہونے سے بچایا جاسکے۔ وہ مصری سرمایہ دارانہ نظام کی آخری دفاعی لائن کے طور پر کام کررہے تھے اور انھوں نے یہ کردار بخوبی نبھایا۔
چونکہ اخوان ایک بورژوا جماعت ہے اسی لیے وہ ان تمام مسائل کا کوئی حل پیش کرنے سے قاصر تھی جن کے نتیجے میں انقلاب برپا ہوا تھا۔ تنخواہیں، معیار زندگی، اور عوامی فلاح سب زوال پذیر تھے اور اقربا پروری اور بدعنوانی عروج پر تھی۔ داڑھی وہ واحد تبدیلی تھی جواستحصالی طبقے میں نظر آئی۔ اسی استحصال کی وجہ سے مرسی کے انتخابات کے بعد کے سالوں میں عوام اور اخوان اور ریاستی عناصر کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہوگیا۔
اسی دوران حکمران طبقے کے مابین ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ اخوان ریاستی مشینری اور معیشت کے کچھ حصوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتے تھے جبکہ روایتی حکمران اشرافیہ اپنی پوزیشن کا دفاع کررہی تھی۔ اس کی ایک تنبیہی علامت یہ تھی کہ مرسی نے آئین میں سے وہ شق ختم کردی جس کی وجہ سے پہلے صدر آرمی کو جوابدہ تھا۔ اخوان کی اکثریت پر مبنی آئین ساز اسمبلی کوعدلیہ سے برتر کرنے کی کوشش مرسی کا ناقابل قبول قدم تھا۔
اگرچہ، ملک کی پرانی اشرافیہ اخوان کے طاقت پکڑنے اور ریاستی امور میں حصے دار بننے سے پریشان تھی، لیکن اس سے بڑھ کر وہ انقلاب سے زیادہ خوفزدہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بار انھوں نے سڑکوں پر عوام سے نمٹنے کے لیے اخوان سے تعاون کیا۔ 25 جنوری 2013ء کو آرمی، پولیس اور اخوان المسلمین نے مشترکہ طور پر ملک بھر میں ہونے والے اخوان مخالف عوامی مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے کچلا اور قاہرہ، اسکندریہ اور پورٹ سعید میں کرفیو نافذ کردیا۔
یہ جبر سڑکوں پر ہونے والے بھرپور مظاہروں کو ختم نہ کرسکا اور مرسی کے حکومت میں آنے کے محض ایک سال کے اندر مصری عوام مرسی سے نجات پانے کے لیے تیار تھے۔
سڑکوں پر عوام کے بڑھتے ہوئے غصے کا اندازہ لگاتے ہوئے فوج اور ریاستی عناصر نے مرسی سے کنارہ کشی اختیار کرنی شروع کردی۔ ریاست اور معیشت میں اخوان کے نفوذ سے خوفزدہ پرانی اشرافیہ کو اس بات کا یقین نہ تھا کہ پارٹی نظام کو بچاسکتی ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ انھوں نے مرسی کو ان جرائم کے لیے سزا پانے کے لیے چھوڑ دیا جو اس نے پورے حکمران طبقے کے ایما پر کیے تھے۔ لاکھوں محنت کشوں، غریبوں اور نوجوانوں کی نہ رکنے والی انقلابی تحریک کا عروج دیکھتے ہوئے پرانی اشرافیہ نے سرعت سے اخوان سے علیحدگی اختیار کرلی۔ جبکہ ان کے کچھ گروہوں نے تو2011ء کی طرح مرسی اور اس کے حواریوں کی طرح انقلاب کا لبادہ بھی اوڑھ لیا۔
المیہ یہ ہے کہ 2013ء کی تحریک کے رہنما انقلاب کے طبقاتی کردار کو سمجھنے اورپرانی اشرافیہ سے معاشی اور ریاستی طاقت چھیننے کی ضرورت سے واقف نہ تھے۔ بلکہ انھوں نے یہ طاقت ان ہی جرنیلوں کو واپس کردی جو برسوں سے ان کا استحصال کررہے تھے۔ طاقت کے اس خلا میں قدم رکھنے کے بعد السیسی نے ان رہنماؤں کی جانب سے عطا کردہ انقلابی طاقت کو نفرت انگیز اخوان کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ ان اقدامات کا مقصد اپنے اقتدار کو مضبوط کرنا اور جابرانہ اقدامات میں اضافہ کرنا تھا۔
مصری اور عرب انقلابات کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ ریاست کے سربراہ کو معزول کرنے کے بعد انھوں نے ریاستی اور معاشی طاقت پرانی اشرافیہ کے پاس ہی رہنے دی، جنھوں نے آہستہ آہستہ دوبارہ اپنے اقتدار کو مستحکم کر لیا۔ سرمایہ دارانہ نظام قائم و دائم رہا اور عوام کی ذلتوں میں بے انتہا اضافہ ہوگیا۔
اس کے باوجود، حکمران طبقے کے تناظر سے کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ ان کے نزدیک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ تمام معاشی اور سماجی تضادات جو انقلاب کا باعث بنے تھے مزید گہرے ہورہے ہیں اور کسی مرحلے پر لازماً دوبارہ سر اٹھائیں گے۔ جبر کے ذریعے اقتدار کو قائم رکھنے کے ہتھکنڈے اپنے الٹ میں تبدیل ہوجائیں گے جیسے مبارک کے ساتھ ہوا اوریہ جبر وہ کوڑا بنے گا جو مستقبل کے انقلاب کو مہمیز دے گا۔ اس وقت، عبد الفتح السیسی کی صورت میں مجسم مصری بورژوازی ایک قریب المرگ شکل میں سب کے سامنے ننگی ہوجائے گی۔ اس سب کے باوجود مصر میں انقلابی عمل سطح کے نیچے جاری ہے۔ اگر عوام اب تک حرکت میں نہیں آئے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان میں اعتماد یا انقلاب کی خواہش نہیں بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک رجعت پسند حکومت کو ہٹا کر دوسری یکساں رجعت پسند حکومت کو اقتدار دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے باوجود، انقلابی تحریک جلد یا بدیر ضرور ابھرے گی۔ تاہم اس وقت، برسراقتدار طبقے کو اخوان المسلمین کی شکل میں فرارکا کوئی راستہ نہیں ملے گا، جس کے ذریعے وہ انقلاب کو راہ سے بھٹکا سکیں۔
شمالی افریقہ میں انقلابی اٹھان اور سیسی آمریت
کم از کم عالمی نقطہ نظر سے مرسی کی سر عام موت سیسی حکومت کی ایک اور فاش غلطی ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب سیسی نے ریفرنڈم کے ذریعے آئین میں ترامیم کرکے وہ چند آخری جمہوری رعایتیں بھی چھین لیں جو انقلاب کے ذریعے حاصل ہوئی تھیں۔ سیسی نے صدارت کے لیے دو بار کی حد ختم کردی، یعنی اب وہ 2030ء تک صدر رہ سکتا ہے۔ اب اس کو مبارک کی طرح ججوں کو مقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ ترامیم عوام کے سامنے لانے سے پہلے اپریل میں محض چند دنوں میں پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کروالی گئیں۔
ریاستی میڈیا کے مطابق سیسی کی ترامیم کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں 44.33 فی صد لوگوں نے رائے دہی کی جس میں سے 88.83 فی صد لوگوں نے ترامیم کے حق میں رائے ووٹ دیا۔ ٹرن آؤٹ اعدادوشمار خاصے مشتبہ ہیں کیونکہ یہ گذشتہ سال کے صدارتی انتخابات کے ٹرن آؤٹ سے بھی زیادہ ہیں، جس سے قبل ایک طویل مہم چلائی گئی تھی۔ اس ریفرنڈم میں، سیکیورٹی فورسز کی جانب سے رائے دہندگان کو ووٹ نہ دینے کی صورت میں کھلی دھمکیاں دی گئیں۔ اپوزیشن کے سینکڑوں حامی جنھوں نے ووٹ نہ دینے کی مہم چلانے کی ہمت کی، انھیں گرفتار کرلیا گیا اور حمدین صباحی اس حوالے سے زیر تفتیش ہے۔
گذشتہ سال کے صدارتی انتخابات کے بعد ریاست کی جانب سے اس قسم کے جابرانہ اقدامات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گذشتہ ماہ ہائی اسکول میں پڑھنے والے پندرہ سولہ سالہ طلبہ کے ایک گروہ کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ وہ اس بات پر احتجاج کررہے تھے کہ حکومت کی جانب سے امتحانی ہال کے انٹرنیٹ کا بل نہ ادا کرنے کی وجہ سے وہ امتحان دینے سے قاصر رہے۔ انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق فروری اور مارچ کے دوران 160 سیاسی کارکنان کو گرفتار کیا گیا، جبکہ گذشتہ سال اگست میں اپوزیشن رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا۔سیسی نے وہ کیا جو مرسی کرنے میں ناکام ہوگیا تھا۔ وہ مصر کا نیا فرعون بن چکا ہے جو کسی بھی قانون کو جوابدہ نہیں، اور فی الوقت کسی بھی مخالف کو خاموش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم یہ اقدامات سیسی کی غیر مستحکم حکومت کو مضبوط ثابت نہیں کرسکتے۔ حالیہ مہینوں میں ہم نئی عرب بہار دیکھ رہے ہیں، جس میں الجزائراور سوڈان میں آمریت کا خاتمہ ہوا اور تیونس میں تیل کی قیمتوں پر سبسڈی کے ختم ہونے پر عوامی مظاہرے ہوئے۔ مصری عوام جب دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے تو وہ دنیا کو دکھائیں گے کہ وہ ایک اور آمر کو زمیں بوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
فی الوقت المیہ یہ نہیں کہ مصر کے مقتدر طبقے میں سے ایک مجرم کی قبل از وقت موت ہوگئی بلکہ المیہ یہ ہے کہ مصر کے بے قصور نوجوان اور محنت کش افراد کی گرفتاریوں اور اموات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ مصری عوام خود اپنے ہاتھوں سے اپنے طبقاتی دشمن کو سزا نہیں دے پائے۔
نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون میں اس امر کی درست طور پر نشاندہی کی گئی کہ جب اخوانی غنڈوں کو گرفتار کیا جارہا تھا یا موت کی سزا سنائی جارہی تھی تو مبارک اور اس کے بیٹے آزاد پھر رہے تھے۔ یہ کھلی ناانصافی ہے اخوان المسلمین کے ساتھ نہیں بلکہ مصر کے محنت کشوں کے ساتھ۔ مکافات عمل اس وقت ہوگا جب اس گلی سڑی حکومت کو ہمیشہ کے لیے اکھاڑ پھینکیں گے اور ان کے جرائم کا خود فیصلہ کریں گے۔