[تحریر: ایلن وڈز/حمید علی زادے، ترجمہ: اسدپتافی]
مصر میں مرسی کے تخت اکھاڑے جانے کے بعد کی صورتحال نے مصری انقلاب کو ایک انتہائی پر پیچ اور نازک کیفیت میں دھکیل دیاہے۔
اخوان المسلمون کی اب بھی مصر کے سماج میں پیٹی بورژوازی، انتہائی پسماندہ و نیم خواندہ کسانوں اور لمپن پرولتاریہ میں بنیادیں موجودہیں۔ اخوان کوشش کررہی ہے کہ کسی طرح اقتدار دوبارہ اس کے پاس آجائے۔ لیکن کروڑوں مصری جنہوں نے سڑکوں پر نکل کر مرسی حکومت کا تخت اکھاڑدیاتھا، وہ بھی پوری طرح متحرک ہیں کہ کسی طرح بھی اخوان کو دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔ اس کشمکش کی کوکھ سے مصری انقلاب کا مستقبل سامنے آئے گا۔
لوگوں کے غم وغصے کا اندازہ ان کی سرگرمیوں سے واضح ہوجاتاہے کہ جب انہوں نے اخوان المسلمون کے ہیڈکوارٹرکو تہس نہس اور جلا کے بھسم کرڈالا۔ اور یہ سب اخوان کے غنڈوں کی جانب سے کی گئی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں کیا گیا جس کے ذریعے مظاہرین کو قتل کیاگیا اوران پر تیزاب پھینکا جاتارہا۔ میڈیا کی جانب سے اخوان کے شہیدوں کو پر امن قراردینے کی کوششیں حقائق کے بالکل الٹ ہیں۔ مصر میں اس وقت جو ہورہاہے، بڑے اخبارات اور میڈیاوالے اس کی انتہائی غلط تصویر پیش کررہے ہیں۔ اخوان المسلمون کی ریلیوں کو جان بوجھ کر بڑا کرکے اور بار بار دکھایاجارہاہے جبکہ عوام کے بڑے اخوان مخالف اور انقلابی مظاہروں کو دبانے یا چھپانے کی بھرپورکوشش کی جارہی ہے۔
ایک طرف اخوان مرسی کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے مسلح تصادم کی صورتحال پیداکرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جمعہ کے دن اخوان کے غنڈوں نے سکندریہ شہر میں دو معصوم بچوں کو چھت سے نیچے گراکر ہلاک کرڈالا۔ جبکہ اصیوت شہر میں اخوان کے غنڈوں نے اخوان کے خلاف مظاہرے میں شریک ہونے پر تین نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان واقعات سے مشتعل ہوکر عوام نے اخوان کے ہیڈکوارٹرز کو تہس نہس اور بھسم کرڈالا۔ ان واقعات بارے میڈیامیں کوئی سنگل کالم خبر بھی نہیں دی گئی، جو کچھ بھی خبروں اور خبرناموں میں پیش کیا جارہاہے، وہ اس سے کہیں مختلف ہے جو مصر کے شہروں، ان کی گلیوں اور سڑکوں پر ہورہاہے۔ جونہی مرسی کا دھڑن تختہ ہوا، لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تاکہ اپنی کامیابی کا دفاع کرسکیں اور اخوان کی اقتدار میں واپسی کی کو ششوں کو روک سکیں۔ ہفتے کے آخری روز لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ سڑکوں پر موجود تھے۔ اتوار کے دن سب سے بڑا اجتماع تحریر سکوائر میں ہوا۔
تحریرچوک پر جمع ہونیوالی ریلیوں میں ورکنگ کلاس علاقوں شوبرہ، سیدہزینب، درب الاحمرسے لوگ شریک تھے۔ شوبرہ کے مظاہرین ’’روٹی، آزادی، سماجی انصاف‘‘ ، ’’ربا نہیں عوام کی حاکمیت چلے گی‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے وہاں پہنچے۔ ربا وہ چوک ہے جس میں اخوان کے مظاہرین جمع تھے۔
سکندریہ، مصر کے دوسرے بڑے شہر میں عوام کا جم غفیر مرسی کے بعد اپنے انقلاب کے دفاع کیلئے صدی گبر ریلوے سٹیشن کے میدان میں جمع ہوا۔ چھ بجے کے قریب، سات مختلف اطراف سے لاکھوں لوگ ریلی کرتے ہوئے میدان میں آئے۔ جہاں پہلے ہی ہزاروں لوگ موجود تھے۔ یہ سب مظاہرین اس بات پر سخت نالاں تھے کہ مرسی کو ایک فوجی بغاوت نے اکھاڑباہرکیاہے۔ وہ اس تاثر کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔ ان مظاہروں میں امریکی سامراج کے خلاف بھی شدید غم وغصے کے جذبات موجود تھے جو کہ مرسی اور اس کی حکومت کی پشت پناہی کررہاتھا۔ ایسے ہی مناظر سارے مصر میں تھے خاص طورپرمصر کے مرکزی صنعتی علاقے میں جہاں مظاہرین کی منصورہ محالہ، پورٹ صیداوراسماعیلیہ کے علاقے میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ یہاں تک کہ بالائی مصر کے پسماندہ علاقوں میں بھی جو کہ اخوان کا گڑھ سمجھا جاتاہے ہزاروں لوگ اخوان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
دوسری طرف اخوان، قاہرہ اور سکندریہ سے علاوہ کہیں بھی بڑامظاہرہ منظم کرنے میں ناکام رہی۔ قاہرہ میں اس کے مظاہرے میں بڑی تعداد موجود تھی لیکن یہ محض مڈل کلاس علاقے نصرکے علاقے تک ہی محدود تھی۔ جہاں پیشہ ورانہ مہارتوں کے حامل، ڈاکٹرز، اور تاجر رہائش پزیر ہیں اور جن کی زندگیاں، مصریوں کی اکثریت کی زندگیوں سے کئی نوری سالوں کے فاصلوں پر ہیں۔
مصر میں طاقتوں کے درمیان توازن کی یہی کیفیت ہے۔ جب عوام کا جم غفیر سڑکوں پر نکلا تو اخوان کے مظاہرے سمٹ کر دو ہی شہروں تک محدود رہ گئے۔ اور اپنے تمام تر کوشش کے باوجود یہ عوام کے مقابلے میں قابل ذکر لوگ اکٹھے نہیں کر سکے۔
خانہ جنگی
سوموار کے دن صورتحال نے ایک نئی کروٹ لی جب ریپبلکن گارڈز کے ہیڈکوارٹرز، جہاں مبینہ طورپر مرسی کو حراست میں رکھاگیاہے، کے باہر موجود اخوان کے دھرنے میں شریک لوگوں اور مسلح اداروں کے دوران اچانک تصادم شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں 54افراد مارے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کیسے شروع ہوا تاہم یہ ضرور واضح ہے کہ اس کی منصوبہ بندی پہلے سے کرلی گئی تھی۔ اسی دن ہی اخوان نے کوشش کی کہ وہ قاہرہ میں اخوان مخالف مظاہرین کے ساتھ تصادم کی کیفیت پید اکرے۔ اخوان نے اتحادیہ صدارتی محل کوجانے والے راستے بلاک کرنے کی کوشش کی جہاں سے مظاہرین نے گزرناتھا۔ اس کے علاوہ اور اس سے پہلے بھی مرسی مخالف مظاہرین پر حملے کئے گئے جن میں کم وبیش 40 افراد قتل کردیے گئے۔ اخوان نے بھرپور کوشش کی کہ وہ تصادم کا ماحول پیداکرے تاکہ اپنے لئے ہمدردیاں اور معاونت حاصل کر سکے۔
بورژوا ’’جمہوریت‘‘ پسندوں کی طرف سے فوجی بغاوت کا واویلا،جس کی بدقسمتی سے کچھ بائیں بازوکے لیفٹسٹوں نے بھی ہمنوائی شروع کر دی ہوئی ہے،کسی طور بھی جمہوریت کے دفاع کیلئے نہیں ہے۔بلکہ یہ ایک شرمناک کوشش ہے جس کے ذریعے انقلاب کی توہین کی جارہی ہے۔سماج کو بدلنے کیلئے عام انسانوں کی جدوجہد کے حق کومستردکرنے کی یہ منافقانہ روش قابل مذمت ہے۔بورژوازی کا گشتی میڈیانام نہاد فوجی بغاوت کو عوام کے انقلاب کرنے کی کامیاب کوشش کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کررہاہے۔تاکہ عوام کے اعتماد کو مضمحل اور مجروح کیا جاسکے۔اور ان کی یہ کوشش ہر حوالے سے سمجھ میں آجاتی ہے۔لیکن وہ لوگ جو اپنے آپ کو ’’لیفٹسٹ‘‘ کہلواتے ہیں کی جانب سے بورژوازی کی نقالی کی کوشش ہر اعتبار سے شرمناک ہے۔ ہر ایک موقع پر اس سطح کے ’’لیفٹسٹوں‘‘ نے یہ قرار دینے میں ذرا تاخیر نہیں کی کہ رد انقلاب تو جی فوت ہوگیا‘۔جب مرسی اقتدار میں آیا تو یہی فرمان جاری کیاگیا۔اور اب جبکہ مرسی چلا گیا پھر سے یہی فرمایاجارہاہے۔ایسے لوگوں کومعاف کردینا بہتر ہے کیونکہ ان کی وجہ سے مصر کا انقلاب ایک مایوس کن اور منفی عمل کے سوا کوئی معنی کوئی تاثر نہیں رکھتا۔
فوجی بغاوت کی مہانتا
مرسی کے ہٹادیے جانے کے بعدسے دنیا بھر میں میڈیامیں بڑے پیمانے پر ایک مہم شروع کردی گئی جس کے ذریعے انسانوں کی جدوجہدکی ان لہروں کو دبانے اور ان کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی گئی جس نے ہی درحقیقت مرسی اقتدارکا خاتمہ کیا۔ اس جدوجہد کو سارے بورژوا میڈیا نے ایک فوجی بغاوت کا ثمر قراردینے کی کوشش شروع کردی جو کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف کی گئی۔ اپنے معانی و مفہوم میں یہ ایک متضاد کوشش ہے۔ عام بات ہے کہ فوجی بغاوت، اقتدارپر قبضے کیلئے ایک چھوٹے سے گروپ کی کارستانی ہوتی ہے جسے کسی طور عوام کی نمائندگی یا پشت پناہی حاصل نہیں ہوتی، جبکہ مصر میں اقتدار کی تبدیلی کیلئے جو قوت سرگرم ہوئی وہ اور کوئی نہیں بلکہ خود عوام تھے۔ مارکس وادی بلاشک وشبہ جمہوریت کے حامی ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ اندھا دھند طورپر، غلامانہ طریقے سے بورژواجمہوریت کا ساتھ دیتے چلے آئیں۔ جمہوریت کی اس نوعیت کی مہلک صورتیں جمہوریت کی حقیقی اساس سے کہیں دور ہوتی ہیں۔ ایڈولف ہٹلر بھی یہ دلیل دے سکتاتھا کہ اسے توجرمن ووٹروں کی وجہ سے اقتدار ملاہے۔ اگرچہ حقیقت میں جرمنی کے لوگوں کی اکثریت نے اسے یا اس کی نازی پارٹی کو ووٹ نہیں دیے تھے۔ اگرکوئی یہ دلیل دے تو اس کا کیا جواب دیاجائے کہ جرمنی کے محنت کش 1933ء میں پارلیمانی جمہوریت کو کام کرنے کا احترام کرنے کے جذبے سے سرشارتھے اور یہ کہ کسی مقام پر ہٹلر کو ہٹانے کیلئے عام ہڑتال کرنا بالکل غلط ہوتا اور یہ کہ لوگوں کو صرف یہ حق ہے کہ وہ اپنے مسائل کیلئے اگلے پانچ سال مزید انتظار کریں۔
یہ دلیل کہ مرسی کے بعد سے مصر میں جمہوریت پنپنا شروع ہوگئی تھی انتہائی لغو ہے۔ اس دلیل کو باربار دہرانے والے آسانی سے کیسے اورکیوں بھول جاتے ہیں کہ سینکڑوں کو قتل اور ہزاروں کو جیلوں میں ڈال دیاگیا۔ یہ بھی فراموش کر دیاجاتاہے کہ مرسی نے SCAF سمیت پچھلی حکومت کے دیگر سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساز باز کرکے سزایافتہ قاتلوں اور وحشیوں کو جیلوں سے باہر نکال کر آزادچھوڑدیا۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ مرسی نے پورٹ صید کے ہڑتالی مزدوروں کو کچلنے کیلئے فوج کشی کی۔ وہ اس اقدام کو بھی بھول جاتے ہیں جب مرسی نے نومبرمیں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے سبھی اختیار اپنے عہدے میں مرتکز کرنے کی کوشش کی تھی۔ مرسی نے صرف دس فیصد ووٹروں کے ذریعے منتخب ہونے والی سینیٹ کے ذریعے آمرانہ انداز میں قانون سازی کی کوششیں کی۔ اس نے عوامی عہدے اپنے بھائی بندوں میں بانٹے۔ جمہوریت اورانسانی حقوق کے فروغ کیلئے کام کرنے والے غیر ملکیوں پر سختی کی گئی۔ کئی صحافیوں کو گرفتار بھی کیاگیا۔ مرسی کی پارٹی نے ترقی کا باعث بن سکنے والی ٹیکسیشن کو بھی روکا۔ ان لوگوں نے کام کی جگہوں پر آزادٹریڈیونینوں کے قیام کو بھی ممکن نہیں ہونے دیا، اس کی بجائے انہوں نے ہڑتالوں کو ’’ریگولیٹ‘‘ یعنی قانون کے مطابق کرنے اور مالکان کی حمایت کو ترجیح دی۔ اس سے صاف عیاں ہوجاتاہے کہ مرسی اور اس کی پارٹی کی کس طبقے کے ساتھ وابستگی تھی اور ہے۔ یہاں تک کہ خود اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔ نجکاری کے منصوبے بنائے گئے اورقومیائی گئی مصری صنعت کی نیلامی شرو ع کردی گئی، وہ بھی غیرقانونی طورپر کم نرخوں پر۔ دوسرے لفظوں میں ان لوگوں نے منافع خور تاجروں کے ٹولے کے گماشتے کا کرداراداکیاجو مصری عوام اور ان کے اثاثوں کو ہڑپ کرنا چاہ رہے تھے۔
اور پھر یہاں ایک چھوٹا سا سوال مذہب کا بھی ہے۔ ایک حقیقی جمہوریت میں مذہب کا مکمل طورپر ریاست سے الگ تھلگ ہونا لازمی ہوتاہے۔ مرد وزن کیلئے مذہبی اعتقادات کا رکھنا (یا نہ رکھنا) قانون اور ریاست کی نظرمیں ایک انتہائی ذاتی معاملہ ہونا چاہئے۔ اخوان المسلمون اور اس جیسی دوسری تنظیمیں خواتین اور اقلیتوں بارے انتہائی رجعتی رویوں کی حامل ہیں۔ مرسی اقتدار کے دوران شیعوں اور عیسائیوں کے خلاف جان لیوا اقدامات کئے گئے۔ اسی قسم کے غیر جمہوری اور رجعتی ہتھکنڈوں کو یہ اسلامی تنظیم سارے سماج پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ مرسی اور اس کے غنڈے یہ طے کئے ہوئے تھے کہ کسی بھی طرح اور ہر ممکنہ طریقے سے سماج کی ہر پرت کو ’’اسلامائز‘‘ کیا جائے۔ مصر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ عیسائی بھی شیعوں کی طرح سے ان کے حملوں کی زد میں آیا رہا۔ جب ان پر حملے کئے جاتے تومرسی کے منہ سے آواز بھی نہیں نکلتی تھی۔ جب ان سب حقائق کو مدنظر رکھاجائے تو یہ دلیل کہ مرسی کو ایک معمولی اکثریت سے الیکشن میں کامیابی ملی، کسی طور اپنا وزن قائم نہیں رکھتی۔ اور یہ بات تو اس وقت اور بھی بے وزن ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مرسی کیلئے ووٹ دینے والوں کی اکثریت بھی اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔
تاریخ کا میزان
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بہت سے جمہوری حقوق جن سے ہم آج کل مستفیدہوتے ہیں، عوام کی طرف سے کی جانے والی جدوجہدوں ہی کا ثمر ہیں۔ خود جمہوریت اپنے اندر انقلاب ہی کی ایک ضمنی پیداوار ہے۔ برطانیہ میں جمہوریت، جدوجہد سے ہی ممکن العمل ہوئی تھی جس میں ایک بادشاہ کو اپنے سر سے ہی محروم ہوناپڑگیاتھا۔ فرانس میں جمہوریت، جیکوبنز کی انقلابی آمریت کی مرہون منت ہے جنہیں ایک سے زیادہ سروں کو کاٹنا پڑگیاتھا۔ جنہوں نے لوگوں کو مسلح اورمنظم کیا اور یورپ کی ہر بادشاہت کی افواج کو شکست سے دوچارکیا۔ امریکہ میں بھی چھوٹے کسانوں اور کاریگروں نے مسلح جدوجہد سے برطانویوں کا نکال باہرکیاتھا۔ ان سبھی جمہوری انقلابات میں اس سے کہیں زیادہ خون خرابہ ہواتھا جتنا ہم نے ان دنوں مصر میں ہوتے دیکھاہے۔ اس سب کے باوجود بھی کچھ لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس سب کا کیا جواز ہے؟ کوئی بھی ہوشمند انسان جارج واشنگٹن یا ابراہام لنکن پر تنقید نہیں کرتا کہ انہوں نے کیونکرمروجہ آئینی قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کی تھی؟ جن کے بغیر یہ دونوں وہ کچھ نہیں کرپاتے جو یہ کرگئے۔
مصر میں جمہوریت کیلئے جدوجہداسی صورت کامیاب ہوسکتی ہے کہ جب تک لوگ اسے آخر ی کامیابی تک نہیں لے کر جاتے۔ لوگوں کے خلاف بہت ہی طاقتور دشمن ادارے موجود ہیں اور جن کا یہ ہدف ہے کہ اقتدار اور مراعات کو ایک اقلیت کے مفادات کے تابع رکھنا ہے۔ اپنے ان طاقتور دشمنوں سے لڑنے اور جیتنے کیلئے عوام کو ایک سخت اور طویل لڑائی لڑنی ہے تاکہ ان کی طاقت کا خاتمہ کیا جاسکے اور انہیں مجبورکیاجاسکے کہ اقلیت کے نہیں اکثریت کے مفادات کیلئے اقتدار چلانا ہو گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے نہ رستہ کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی رضاکارانہ طورپر اقتدارچھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔
اٹھارویں صدی کے فرانسیسی انقلاب کو اپنے ا ندرونی اور بیرونی دونوں دشمنوں سے نبردآزماہوناپڑا تھا۔ تب طاقتور سامراجی قوتوں نے فرانس میں بھرپور مداخلت کرتے ہوئے انقلاب کو کچلنے کیلئے فوجیں اتاریں۔ آسٹریا، پروشیا اور انگلینڈتینوں کی افواج کے خلاف بیک وقت فرانس کو لڑنا پڑا تھا۔ انقلاب کے پرچم کو تھامے فرانسیسیوں نے انہیں شکست سے دوچارکیاتھا۔
لیکن یہ تو بیرونی دشمن تھے۔ بہت سے دشمن فرانس کے اندر کے بھی تھے۔ یہ وہ پیشہ ور سیاستدان اور اعتدال پسند تھے جنہوں نے انقلاب کو چرانے اور اس سے مراعات کشید کرنے کی کوششیں کیں۔ انقلاب کو، خود کو بچانے کیلئے اس قسم کے موقع پرستوں اوربدعنوان عناصر کا قلع قمع کرناپڑاتھا۔ انقلاب کے سب سے خطرناک دشمن فرانس کے جنوب مغربی علاقے وینڈی کے کسان تھے۔ پسماندہ اورناخواندہ ان بے بہرہ کسانوں کو کیتھولک پادری صاحبان بڑی عیاری سے تیار کرتے تھے کہ جاؤ اور ’’الحاد ی‘‘ انقلابیوں کا قلع قمع کردو۔ اور ان کیتھولک پادریوں کو بڑے جاگیرداروں اور اشرافیہ کی پشت پناہی حاصل تھی جن کے خلاف انقلاب برپا ہورہاتھا۔ اخوان المسلمون بھی دراصل مصری انقلاب کیلئے وینڈیز ہی ہیں۔ اس کی شکست درحقیقت انقلاب کیلئے ایک بہت بڑی پیش قدمی اور بنیادی شرط کا درجہ رکھتی ہے۔ اس شکست سے پیٹی بورژوا عناصر کی کمر ٹوٹ جائے گی اور ان کا ہیجان کم ہوتاچلاجائے گا۔ سکندریہ میں مرسی کے حق میں منگل کے روزہونے والے مظاہرے میں چند ہزار افراد ہی شریک ہوئے۔
مصرمیں موجود ہمارے ایک ساتھی نے منگل کے روز ہمیں یہ بتایاہے کہ ’’ہم لوگ مصر کی سڑکوں پر پہلے کی طرح موجود ہیں تاکہ انقلاب کو بچایا اور آگے بڑھایاجاسکے۔ ہم اب بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ اگرچہ یہ تعدا د 30 جون جتنی نہیں ہے۔ اخوان ہزاروں کے اجتماع کر رہی ہے۔ تانتا میں ہماری تعداد ہزاروں میں جبکہ اخوان کے لگ بھگ ایک سو افراد سڑکوں پر ہیں‘‘ ۔
ممکن ہے کہ یہ لوگ مزید لوگوں کو باہر نکال لائیں لیکن ہوا ان کے خلاف چل چکی ہے۔ ان کے حق میں فضا ہموار نہیں بلکہ دشوار ہو چکی ہے۔ یہ لوگ شاید انڈرگراؤنڈ چلے جانے کی تدابیر کریں تاکہ دہشت گردانہ طورطریقے سے کام چلا سکیں۔ لیکن اس سے ان کی کمزوری واضح ہوگی نہ کہ یہ طاقت پکڑ سکیں گے۔ تاہم یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انقلاب کو ایک اور خطرے نے گھیرلیاہے لیکن وہ کسی اور جانب سے ہے۔
بوناپارٹزم کا خطرہ
ہر ایک حقیقی انقلاب میں سچی قوت محرکہ عوام کی حرکت ہواکرتی ہے۔ لیکن انارکسٹوں کے نقطہ نظر کے برخلاف ہم مارکس وادی اس قسم کی ’’خود رویت‘‘ کی کسی طور پرستش نہیں کرتے۔ اس خو د رو حرکت کے بلاشبہ کئی مضبوط پہلو بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے پہلو بہ پہلواس میں کئی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں لا محالہ اس ’’خودرویت‘‘ کی محدودیت کو سمجھنا اور ذہن نشین رکھنا چاہئے۔ 30 جون کو مصر کی سڑکوں پر جمع کروڑوں افراد اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے سکتے تھے۔ کوئی طاقت نہیں تھی جو ان کو روک سکتی۔ فوج کی طرف سے ایسی کوئی بھی کوشش فوج کو اندر سے چیر کے رکھ دیتی اور فوج جرنیلوں کے ہاتھوں سے ہی نکل جاتی۔ اسی ایک وجہ سے ہی فوجی جرنیلوں نے عوام کے خلاف جانے کی بجائے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے انقلاب کی بپھری ہوئی لہروں سے ٹکرا کے پاش پاش ہونے کی بجائے ’’ہوا‘‘ کے رخ کاساتھ دینے کو ترجیح دی۔ تاہم اب انقلاب کو درپیش خطرہ صرف اخوان المسلمون سے ہی نہیں بلکہ فوج سے بھی ہے۔ اخوان المسلمون کے کھلے ردانقلابی تو اقتدار سے محروم ہو چکے ہیں لیکن اپنی خالص ’’خودرو‘‘ فطرت کی بدولت، انقلاب اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینے میں ناکام رہا۔
طبقات کے مابین پیدا ہونے والے تعطل (ڈیڈلاک) کی وجہ سے وہ کیفیات پیدا ہو گئیں جن کی وجہ سے فوج نے خودکو سماج سے بالا سمجھ لیااور یہی نہیں بلکہ سماج کی تقدیر کو اپنی مرضی سے مرتب کرنے والی قوت سمجھنا شروع کردیا۔ تین جولائی کو اقتدارپر براجمان ہونے کے بعد جنرل السیسی نے اعلان کیا کہ آئین معطل کردیاگیاہے۔ ایک طرف رجعتی اسلامی، ردانقلابی سرکشی اورخانہ جنگی شروع کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف بورژواعناصر، جرنیل اور سامراجی عوام کی اس جدوجہد پر ڈاکہ ڈالنے پر تل گئے ہیں جسے انہوں نے اپنے خون سے سینچا ہے۔
انقلاب سے توجہ ہٹانے کیلئے جرنیل خطرات اور خانہ جنگی کے خوف کو ہوا دینا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔ شہروں میں فوج کے گشت، ریلیوں کے اوپر سے مصری جھنڈے لہراکر، اور ایک وسیع پیمانے پر مصری قوم کی عظمت کی مہم چلاکروہ اس طبقاتی لائن کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں جو کہ انقلاب کا مرکزی نکتہ چلی آرہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاملے میں فوج اور اخوان ایک دوسرے کے ’’ہم مزاج‘‘ ہو چکے ہیں تاکہ عوام کی تحریک کو قابومیں لایاجاسکے۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ جب اخوان کو عبوری حکومت کا حصہ بننے کی پیشکش کی گئی۔ لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ اخوان کو ایک عبرتناک شکست کا سامنا کرناپڑاہے، وہ بھی فوج نہیں بلکہ مصری عوام کی انقلابی تحریک کے ہاتھوں۔ بورژوا میڈیا کی تمام تر بھونڈی کوششوں کے باوجود سڑکوں پر اخوان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی بجائے ان میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ مصر کا حکمران طبقہ حواس باختگی کی حد تک ایسا اہتمام کرنے میں لگ چکاہے کہ کس طرح انقلابی تحریک کو منتشر اور مضمحل کیا جاسکے تاکہ عوام اقتدار سے باہر رکھے جاسکیں۔ اس کا اظہار ان اقدامات سے ہوتا ہے کہ کیسے عوام کے انقلابی مطالبات کو یکے بعد دیگرے مسترد کیا جارہاہے۔ پچھلے سوموارکو عبوری صدرعادلی منصور نے ایک آئینی مسودہ پیش کیا جو کہ 2011ء میں سپریم کونسل آف رمڈفورسز SCAF کے مرتب کردہ متنازعہ آئین کی جگہ لے گا۔ اور جس میں اخوان المسلمون نے 2012ء میں معمولی ترامیم کی تھیں۔ یہ عبوری آئین بھی اپنے پچھلے متنازعہ و متنفرآئین کا ہی اعادہ ہے۔ کئی اعتبار سے یہ پچھلے سے زیادہ رجعتی ہے۔ اس میں صدر کے اختیارات کم وبیش لا محدود ہیں۔ انتظامی اور قانونی اختیارات اسی کو تصویب کئے گئے ہیں۔ یہ ویسے ہی ہیں جیسے مرسی خود کو دینا چاہ رہاتھالیکن جسے دسمبر2012ء میں عوام کی تحریک کی وجہ سے یہ فیصلہ واپس لینا پڑگیاتھا۔ ایسے ماحول میں عدلیہ اور فوج کو کسی بھی پوچھ تاچھ سے الگ رکھا جارہاہے اورصرف عام شہریوں کو ہی انصاف کے کٹہرے میں لائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایسا حق ہے جو پچھلے آئین میں بھی موجود نہیں تھا۔ ایک اور متنازعہ قانون لانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے مطابق سنی فقہ سے ہی سبھی قوانین اخذ اور لاگو کئے جائیں گے۔ ایسی تنظیموں کو قائم کرنے کی آزادی ہوگی کہ جن سے سماج کو چلانے والے نظام کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہ ایک ایسی شق ہوگی جس کی مدد سے ’’تمرد‘‘ جیسی تنظیم غیرقانونی قرارپائے گی جس نے مرسی کے خلاف حالیہ تحریک کو منظم و متحرک کیا۔ اظہار کی آزادی کی بھی ضمانت دی گئی ہے لیکن صرف وہی جو قانون کے دائرے میں ہوگا۔ یعنی کوئی آزادی میسر نہیں ہوگی۔ تمرد تحریک نے اس نئے قانون کو ایک نئی آمریت مسلط کرنے کی کوشش قراردیاہے۔ جس کے ذریعے صدر کوسبھی اختیار تفویض کئے جارہے ہیں کہ جن کی مدد سے وہ ملک وقوم کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔ تمرد تحریک نے کہا ہے کہ اس کا مطلب ہے مطلق اور ناقابل تنسیخ طاقت۔ یہ انقلاب کو چوری کرنے اور ہم سب کو دوبارہ 25 جنوری 2011ء کی حالت میں واپس دھکیلنے کے مترادف ہے۔ کہ جس دن حسنی مبارک کو ہٹانے کی تحریک شروع کی گئی تھی۔
اسی دوران ہی ایک فاش غلطی اس وقت سامنے آئی جب وزارت عظمیٰ کیلئے نام کا معاملہ سامنے آیا۔ تمرد کی جانب سے اس سلسلے میں جو امیدوار سامنے لایا گیاوہ بورژوا لبرل البرادی کا تھا۔ اس نام کو الٹرا کنزرویٹو سلفی جماعت نوری کی جانب سے ویٹو کردیاگیا۔ جس کے نزدیک البرادی حد سے زیادہ سیکولرتھا۔ اس کی جگہ 76 سالہ البیبلاوی کا نام پیش کیاگیاجو معروف بورژوا جریدے ’’وال سٹریٹ جرنل‘‘ کے مطابق لبرل اکنامکس کا چیمپین ہے۔ عبوری آئین پر اعتراض کے باوجود اس نے اپنے لیے نائب صدرکے عہدے کا انتخاب مناسب سمجھا۔ اس نوع کے حضرات کیلئے لوٹ مار میں حصہ بننا کوئی مسئلہ نہیں ہواکرتا اور نہ ہی انہیں سڑکوں پر نکل آنے والے ان لوگوں کے مسائل سے کوئی سروکار ہوتاہے کہ جن کی جدوجہد کے نتیجے میں پچھلی حکومت کو اقتدار سے باہر ہونا پڑگیا۔ ان کو صرف ایک بات کی چنتا ہوتی ہے کہ ایسی تمام سازشیں مرتب اور ممکن کی جائیں جن کی مدد سے عوام کو اقتدار سے یکسر باہر رکھا جاسکے۔ اس پاگل پن کا اظہار ان کی اس پیشکش سے صاف عیاں ہوتاہے کہ جب انہوں نے اخوان کو بھی حکومت کا حصہ بننے کی پیشکش کی۔
گدھ ہر طرف منڈلارہے ہیں۔ نئی حکومت کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے 12ارب ڈالر کا قرضہ مل چکاہے جس کی مدد سے ان حکمرانوں کو اپنے سازشی مقاصدکے حصول میں آسانی رہے گی۔ جبکہ امریکہ نے بھی کہہ دیاہے کہ وہ مصرکی فوج کی مضبوطی کیلئے جلدرقم بھیج رہاہے۔ اس کے ذریعے وہ قاہرہ پر اپنی گرفت مضبوط رکھے گا۔
تمرد تحریک کی قیادت نے نئی آئینی ترامیم کو انقلاب کو ہائی جیک کرنے کی کوشش قراردیاہے۔ یہ بات درست ہے۔ کچھ پوزیشنیں شاید تمرد قیادت کو دے دی جائیں لیکن ایسا انہیں تحریک سے باہر کرنے کے ارادے سے کیا جائے گاتاکہ انہیں انقلاب پر ہونے والے حملوں کے ذمہ داروں میں شامل کیا جاسکے۔ جس کی ابتدا آئی ایم ایف کی جانب سے سبسڈیوں میں کٹوتیوں کے ذریعے کی جائے گی۔ اس پروگرام پر مرسی کو عملدرآمد کرنے کی مہلت میسر نہیں آسکی تھی۔
اگرعوام اقتدار پر قبضہ کرلیتے!
عوام کو جون کے آخر میں اقتدار پر خود قبضہ کرلینا چاہئے تھا۔ یہ سوال غلط طور پر پیش کیا جارہاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار عوام کے ہاتھوں میں آچکا تھا لیکن اس بات کا انہیں ادارک نہیں تھا۔ مرسی کا تخت اکھاڑا جانا مصر کی معلوم تاریخ کی سب سے بڑی تحریک کے باعث ممکن ہوا۔ مصر کی ہر بڑی سڑک پر لکھوکہا انسانوں کی موجودگی نے حکومت اور فوج دونوں کو مفلوج کر کے رکھ دیاتھا۔ یہ کسی سیکولر طاقت کی کسی اسلامی تحریک کے ساتھ مقابلے کی جدوجہد نہیں تھی۔ یہ محنت کشوں ا ور غریبوں کی غربت، بیروزگاری اور گلہ گھونٹ دینے والی غیر جمہوری طرز حکمرانی کے خلاف جنگ تھی۔ اس دوران آگے پیش قدمی کرتی عام ہڑتال ویسے بھی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی تیاری میں تھی۔ انقلابی کمیٹیاں‘جنہیں 30 جون کمیٹیاں کہا گیا، ملک بھر میں ہر گلی محلے اور کام کی جگہوں پر منظم و متحرک ہو چکی تھیں اور یوں ایک موثر طاقت، جدوجہدکے ان مقبول اداروں میں موجود تھی لیکن تحریک کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اس طاقت کا کیا کرناہے؟ تمرد تحریک جو 30 جون تحریک کا حقیقی مرکز و محور تھی، کے ایک سرگرم قائد محمد خمیس نے اس عمل کا درست تجزیہ کیاہے اور کہا ہے ’’میں کسی طور اس دن ہونے والی تبدیلی کو فوجی بغاوت نہیں کہوں گا۔ سیسی اور اس کے ساتھیوں کو ساری جسارت عوام نے دی۔ اس دن جو فوج نے کیا وہ اس سے پہلے بھی کر سکتی تھی اور ایسے کئی مواقع بھی آئے۔ لیکن جب وہ وقت آیا کہ کروڑوں لوگ سڑکوں پر نکلے اور نعرے لگاتے رہے کہ فوج مداخلت کرے۔ یوں یہ ہم عوام تھے جنہوں نے فوج کو حکم دیا کہ وہ ایسا کرے۔ اقتدار عوام نے فوج کے حوالے کیا نہ کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ فوج ایک معمولی پارٹنر تھی جسے ہم نے مستقبل کی جمہوری تبدیلی کیلئے اپنے ساتھ کیاجس کی ہم جستجواور تگ ودوکر رہے تھے‘‘ ۔
اس بات سے بے خبر کہ اپنے ہاتھوں میں موجود طاقت کو کس طرح بروئے کارلاناہے، انقلاب کی قیادت نے فوج کو اپنا پارٹنر بنالیا۔ لیکن آرمی کے جرنیل نہ تو انقلاب کے پارٹنر ہوتے ہیں نہ ہی اس کے دوست۔ یہ وہی حضرات ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں تک پہلے حسنی مبارک کا ساتھ دیا اور ابھی کچھ عرصہ تک مرسی کے ہم نوا بنے رہے۔ یہ وہی صاحبان ہیں جنہوں نے2011ء کے بعد سے کئی بار انقلابیوں کو کچلنے کے احکامات اور اقدامات کیے۔ یہ مصر کے سرمایہ دار طبقے کے نمائندے ہیں جن کا مصر کے عوام کو کوئی رعایت کوئی مراعت دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
یہ ڈیڈلاک کی ایک ایسی پوزیشن ہے کہ جس میں کوئی ایک فریق بھی اپنی حتمی کامیابی کا دعویٰ نہیں کرسکتاہے۔ ایسی ہی کیفیت میں فوج کو خود سماج سے بالا سمجھنے کا موقع مل رہاہے کہ وہ ملک وقوم کے ساتھ جو کرتی رہے۔ حالانکہ حقیقی طاقت سڑکوں پر موجودتھی۔ کچھ لوگوں کی طرف سے فوج پر مکمل اعتماد مکمل خوش گمانی ہے۔ مصری انقلاب کو بوناپارٹزم کے حقیقی خطرے کا سامنا ہے۔ زندگی کے سخت اسباق ہی عوام کے ذہنوں پر حاوی اس خوش گمانی کی حقیقت کھولیں گے۔ کئی حوالوں سے یہ صورتحال روس میں فروری1917ء کی صورتحال سے کافی ملتی جلتی ہے۔ لینن نے اس بارے نشاندہی کی تھی کہ ورکروں کی جانب سے اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے روکنے کیلئے کوئی خارجی کیفیت موجود نہیں تھی ہاں مگریہ سب ایک داخلی عنصر کی وجہ سے ہوا۔ فروری انقلاب بارے لینن نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ کیونکر طاقت اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے ؟ سٹیکلوف اس کیلئے کبھی یہ عذرتراشتاہے کبھی وہ جواز بتاتاہے۔ لیکن یہ اور وہ دونوں بیہودہ ہیں، حقیقت یہ ہے کہ پرولتاریہ منظم نہیں ہے اوریہ اپنے اندرمضبوط وتوانا طبقاتی شعوربھی نہیں رکھتاہے۔ اس کو تسلیم کرنا چاہئے؛ مادی طاقت پرولتاریہ کے ہاتھوں میں ہے لیکن بورژوازی سنبھلی ہوئی ہے اور وہ پوری طرح طبقاتی شعور سے لیس ہے۔ یہ اک خونخوار حقیقت ہے اور اسے جرات اور کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے۔ اور لوگوں کویہ بتانا چاہئے کہ وہ اس لئے اقتدار نہ لے سکے کیونکہ وہ پوری طرح نہ تو منظم تھے اور نہ ہی طبقاتی شعور سے لیس تھے۔‘‘ (لینن: اجتماعی لکھتیں‘ جلد 36‘ صفحہ437)
مصر کے مزدور اور نوجوان انقلاب کی درسگاہ سے بہت کچھ اور تیزی سے سیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈھائی سال پہلے کے ان کے انقلاب کی بہ نسبت، اس سال میں جون کی ان کی سرکشی بہت کشادہ‘ بہت گہری‘ بہت تیز اور بہت باشعور تھی۔ لیکن اب بھی انہیں درکار تجربہ میسر ہے نہ ہی ان کے پاس انقلابی نظریہ ہے جس کی مدد سے انقلاب ایک نسبتاًتیز اور کم تکلیف دہ کامیابی کو ممکن کرسکتاہے۔ انقلاب اتنا مضبوط ضرورتھا کہ اس نے اپنے فوری اہداف حاصل کر لئے یعنی مرسی اور اخوان المسلمون اقتدارکا خاتمہ۔ لیکن یہ اتنا مضبوط نہیں تھا کہ اپنی کامیابی کے پھل کو جرنیلوں اور بورژوازی کے منہ سے بھی بچاسکے۔ اسے تاریخ کے دھارے کو بدلنے کیلئے تاریخ کے ایک اور عمل کی سخت درسگاہ میں داخل ہوناپڑے گا۔
اگر دوسال پہلے یہاں لینن اور ٹراٹسکی کی بالشویک پارٹی کی طرح کی کوئی پارٹی ہوتی، چاہے اس کی تعداد آٹھ ہزار ہی کیوں نہ ہوتی، جیسا کہ فروری 1917ء کے دوران تھی، تویہاں ساری کیفیت ہی مختلف ہوتی۔ لیکن ایسی پارٹی موجود تھی ہی نہیں۔ واقعات کی گرم بھٹی میں سے ہی ایسی پارٹی کو ابھرناہوگا۔
تباہ کن خطرہ
مصر کے انقلابی عوام کو لازمی طورپر ہر حالت میں چست، باخبر اور سرگرم رہناہوگا۔ مصر میں معاملات ویسے ہی بدتر بلکہ اس سے بھی بدترین ہیں کہ جب حسنی مبارک کو انقلاب نے اقتدار سے باہر کیاتھا۔ سماج میں ہر طرف ہر شعبے میں ناانصافی، نابرابری اور بدعنوانی نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ انقلاب کے ڈھائی سال گزرجانے کے بعدسے کوئی مسئلہ بھی حل نہیں ہواہے۔ انقلاب کی سب سے باشعور پرتیں دیکھ اور سمجھ رہی ہیں کہ فوجی جرنیل اورسرمایہ دار پس پردہ سازشیں کر رہے ہیں۔ لیکن عوام کو اب بھی فوج کے کرداربارے خوش گمانیاں ہیں جنہیں آگے آنے والے واقعات ہلا کے رکھ دیں گے۔ ویسے ہی جیسے اخوان بارے عوام کی خوش فہمیاں دورہوئی ہیں۔
مصری انقلاب کی سب سے نمایاں خاصیت مصری عوام کی حالت زار ہے۔ حسنی مبارک کے خاتمے کے دو سال بعد اس وقت مصرکی مجموعی قومی آمدنی پچھلے بیس سالوں کی بدترین حالت میں ہے۔ سرکاری سطح پر بیروزگاری کی شرح 13.2ٰٖ فیصد پر ہے جو کہ 2011ء میں 9 فیصد تھی۔ یہ سرکاری اعداد وشمار حقائق کو چھپائے ہوئے ہیں، کیفیت اس سے کہیں بدتر ہے۔ مصری پونڈ کی قیمت میں 30 فیصد گراوٹ عیاں کرتی ہے کہ یہاں افراط زر بھی اتنی شرح سے بڑھا ہے۔ اس کا زیادہ تر شکار غذائی اجناس ہیں جو زیادہ ترباہر سے برآمدکی جاتی ہیں۔ مصرگندم کا دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ مصری عوام کی اکثریت کیلئے غذائی اجناس کی قیمتوں میں روزبروز بڑھتاہوااضافہ وبال جان بناہواہے۔ پچھلے سال کے آخر سے کئی اشیا کی قیمتیں دوگنا ہو چکی ہیں۔ یہ ان خاندانوں کیلئے تباہ کن کیفیت ہے جو کہ اپنی آمدنی کا 50 فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔ بھوک اور افلاس میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہاہے جس سے سماج کی ہولناکی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اس سال مئی میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مصر میں غربت اور غذائی بے یقینی میں 2009ء سے2011ء کے دوران بہت اضافہ ہواہے۔ 2011ء میں آبادی کا 17 فیصد بمشکل خوراک حاصل کر رہا تھا۔ جبکہ 2009ء میں یہ شرح 14ٰٖ فیصد تھی۔ پانچ سال سے کم عمربچوں میں کم غذائیت کی شرح 31ٰٖ فیصد ہوچکی ہے جو پہلے 23 فیصد تھی۔ ان اعداد وشمار میں غربت کا کوئی ذکر نہیں کیاگیاہے جو اس عرصے میں بڑھی ہے۔
ایک ماہر معیشت رضویان نے جریدے گارڈین کو بتایا ہے کہ ’’آبادی کا نصف غربت کی حالت میں جا چکاہے۔ یاتو مکمل غربت یا نیم غربت، یعنی مزید معاشی جھٹکا لگا تو صورتحال ازاں بدترہوجائے گی اوریہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا گریں گے‘‘ ۔ اس وقت مصر میں 25.2 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے۔ جبکہ 23.7 فیصد بمشکل اس لکیر سے اوپر ہیں۔ یہ مصر کے سرکاری اعداد وشمار ہیں۔ گوما ایک آرکیٹیکٹ خاتون ہیں جو قاہرہ میں رہتی ہیں، نے گارڈین کو بتایا کہ اس کے بچے جو کچھ کھانا چاہتے ہوتے ہیں وہ میرے بس سے باہر ہوچکاہے۔ چھ ماہ قبل میری آدھی تنخواہ خوراک پر ہی خرچ ہو جاتی تھی لیکن اب 70 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں کما نہیں رہی ہوں، مسئلہ یہ ہے کہ قیمتیں بہت بڑھ رہی ہیں اورکم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ اس کیفیت کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ بچے اب سکول میں ناقص کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں سیاہ دھبے پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔
یہ اور اس قسم کے ہی حالات تھے جو مرسی حکومت کے خلاف عوامی ابھار کی وجہ بنے ہیں۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ یہی حالات ہی حسنی مبارک کے خلا ف عوام کو سڑکوں پر نکال لائے تھے۔ فرق اتنا ہے کہ بحران اب زیادہ شدید ہوچکاہے۔ ڈھائی سالوں میں مصری سماج میں جو معمولی تبدیلی واقع ہوئی بھی وہ ’’جمہوریت‘‘ کی باریک جھلی ہے جو کہ مصری سرمایہ داری کی خونخواری کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
مصری معیشت انہدام کے دہانے پر ہے۔ مصری پونڈ اور اس کا غیر ملکی زرمبادلہ گراوٹ کی زد میں ہیں۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے اور 24 سال سے کم نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 40ٰٖٖ فیصد کو پہنچی ہوئی ہے۔ مصر معاشی و سماجی تباہی کے دہانے پر کھڑاہواہے۔ آئی ایم ایف ایک بڑا قرضہ دینے جارہاہے جو دوسروں کیلئے رستے کھولے گا۔ بدترین گرمی کے موسم میں لوگوں کو بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ ایندھن کی فراہمی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ کسانوں کو گندم کی قیمتیں نہیں دی جارہی ہیں۔ جرائم وبا کی طرح پھیل رہے ہیں اور پولیس کا کہیں نام ونشان تک نظر نہیں آتا۔
واحد راستہ جو مصری انقلاب کے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ یہ مسائل کو ان کی جڑوں سے پکڑے۔ یعنی صرف کسی ایک یا دوسرے حکمران کو اقتدار سے الگ کرنے سے نہیں، چاہے وہ جمہوری ہے یا آمر، بلکہ اس بدعنوان زوال پذیر مصری اشرافیہ کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ اس فریضے کو جرنیلوں یا پیشہ ور سیاستدانوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ کیونکہ ان کا بھی تعلق طفیلی اور استحصالی ٹولے سے ہی ہے۔ صرف انقلابی عوام ہی اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے کر ہی ان مسائل سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اس مقصدکے حصول کیلئے مصر کا محنت کش طبقہ جو سماج میں واحدخالص انقلابی طبقہ ہوتا ہے، اسے عوام کی قیادت کیلئے آگے آناہوگا۔ وہ جو سماج کی دولت کو پیداکرتے ہیں، انہیں پیداواری ذرائع، زمینوں، بینکوں، صنعتوں اورسروسزکو اپنے کنٹرول میں لیناہوگا۔ اور انہیں عوام کے اجتماعی مفادکیلئے استعمال کرناہوگا۔
’’ایک خطرناک مثال‘‘
مغربی میڈیا مسلسل روپیٹ رہاہے کہ ’’یہ تو بہت خطرناک مثال قائم کر دی گئی ہے‘‘ ۔ ہمارے ان پیارے دوستوں کا رونا دھونا بالکل درست ہے۔ دوستو!واقعی یہ تم سب کیلئے بہت ہی خطرناک مثال قائم ہوئی ہے، کیونکہ آپ لوگ جھوٹ پرالیکشن میں حصہ لیتے ہو۔ لوگوں کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے دلاسے دے کر ان کی زندگیوں کو اور بھی عذاب میں مبتلا کر دیتے ہو۔ اور جب تم لوگ کامیاب ہو کر اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہوتو آپ لوگ اپنا ہر وعدہ بھول جاتے ہو اور ان سے الٹ کرناشروع کردیتے ہو۔
عوام کے پاس کیا متبادل بچتا ہے؟ کہ جب وہ تم جیسے لوگوں کو تمہارے نوکیلے جوتوں سمیت سرپر اٹھا لیتے ہیں!اگر حقیقی جمہوریت کی بات کی جائے تو لوگوں کے پاس اور کوئی متبادل کوئی رستہ نہیں بچتا کہ وہ سڑکوں پر آجائیں۔ احتجاج کریں، مظاہرے کریں۔ جمہوریت کے دعویدار سیاستدان کہتے ہیں کہ بالکل یہ درست ہوتا ہے ایسا ہونا چاہئے لیکن احتجاج کو زیادہ دور بھی نہیں جانا چاہئے۔ زیادہ دور نہیں جانا چاہئے سے کیا مراد ہوتی ہے؟ اس سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونا چاہئے۔ ایک نام نہاد جعلی بورژوا جمہوریت میں حقیقی احتجاج سے مرادیہ ہوتا ہے کہ عوام کو ان کا غم وغصہ نکالنے دیا جائے اور بس۔ یہ ایک حفاظتی والو ہوتاہے جس سے بدعنوان، ظالم اور عوام دشمن حکمرانوں کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اس قسم کا احتجاج ان حکمرانوں کیلئے سکھ کے سانس کی طرح ہوتاہے۔ اس کے ذریعے یہ عوام کا غم وغصہ بھی نکال لیتے اور اپنے اقتدار کو بھی طول دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔
لیکن جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی عوام لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر حقیقی احتجاج پر اترتے ہیں اور تخت اکھاڑ پھینکتے ہیں، تب سبھی خودساختہ جمہوریت زادے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے دہائیاں دینا شروع کردیتے ہیں؛ یہ انتشار ہے؛ یہ نراجیت ہے؛ یہ غیر جمہوری ہے۔ ان کی آوازیں بلند سے بلند ترہوتی چلی جاتی ہیں۔
ہمارا موقف ان سے الگ اور بالکل مختلف ہے۔ نہیں جناب یہ نہ تو انتشار ہے نہ نراجیت۔ یہ تو عوام ہیں‘عوام جو اپنی تقدیریں بدعنوان سیاستدانوں اورافسرشاہی کے خونی جبڑوں سے نکال کراپنے ہاتھوں میں لے لینے کیلئے نکلے ہیں۔ اور یہی ہرانقلاب کی اصل اساس ہواکرتی ہے۔
ماضی بعید میں بورژوازی ایک ترقی پسند طبقہ ہواکرتی تھی۔ جو جمہوریت کو بہت سنجیدہ عمل لیتی تھی۔ آج تک امریکی آئین کی دوسری ترمیم شہریوں کے اس حق کا دفاع کرتی ہے کہ وہ ایسی ہر حکومت کا تخت اکھاڑ سکتے ہیں جو لوگوں کے حقوق اور ان کی خودداری کے خلاف سرگرم و سرگرداں ہو۔ یہ ایک تھیوری ہے۔ لیکن جب لوگ اس تھیوری کو عمل کی شکل میں ڈھالنے کیلئے منظم اورمتحرک ہوتے ہیں، ایسے میں بورژوازی اور اس کا گماشتہ میڈیا اس عوامی عمل کے خلاف آسمان سرپر اٹھانا شروع کردیتاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہر دوسرے حق کی طرح‘ احتجاج کا نام نہاد جمہوری حق بھی نری منافقت کے سوا کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ بورژوازی کی عمومی جمہوریت، بڑی اجارہ داریوں اور بڑے بینکوں کی آمریت کو نقاب فراہم کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
مرسی کا تخت عوام نے اکھاڑ پھینکا ہے۔ اسے کچھ حضرات ’’سٹریٹ پاور‘‘ قراردیتے ہیں۔ بورژواجریدہ ’’اکانومسٹ‘‘ اسے خطے کیلئے ایک خطرناک اور ہولناک مثال قرار دیتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’محمد مرسی کا انہدام خطے میں موجود کمزور حکومتوں کیلئے ایک انتہائی ہولناک واقعہ ہے۔ یہ تنگ آئے لوگوں کو حوصلہ دے گا کہ وہ ایسی نامقبول حکومتوں کو ووٹ کے ذریعے ہی نہیں بلکہ ان کا تخت ا کھاڑکر ان سے جان چھڑالیں۔ یہ سارے عرب خطے میں حکومت مخالفین کو مہمیز دے گا کہ وہ اپنے ایجنڈے کو پارلیمنٹوں کی بجائے سڑکوں پر لے آئیں۔ جس کے نتیجے میں خطے میں امن و استحکام کو سنجیدہ خطرات لا حق ہو چکے ہیں‘‘ ۔
یہ ایک خوفزدہ اور بوکھلائی ہوئی بورژوازی کی آواز ہے۔ انہیں خطرہ ہے کہ مصرکے عوام نے جو مثالیں قائم کر دی ہیں، وہ خطے کے دوسرے ملکوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیں گی، صرف عرب خطے میں ہی نہیں بلکہ یورپ میں بھی۔ انہی دنوں پرتگال میں وسیع عوامی مظاہروں اور عام ہڑتال کے باعث وہاں کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیاہے۔ یہ ایک واضح انتباہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں بھی ایسا ہوگا۔
اس قسم کے واقعات نے بورژوازی کے سنجیدہ ماہرین کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں۔ تمام غیر ضروری اورحادثاتی عوامل کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ سبھی تحریکیں ایک جیسے حالات سے متاثر ہو کر سامنے آئی ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت جو ایک عالمگیرمظہر موجود ہے؛ وہ ایک ایسا رحجان ہے جو عالمی انقلابی تحریک کی طرف پیش قدمی ہے۔ ایسا ہی آغازہم یورپ میں بھی پنپتا اور پھلتاپھولتادیکھ سکتے ہیں۔ جہاں جمہوریت پسند بورژوازی یہ سرتوڑ کوشش کررہی ہے کہ حالیہ بحران کی قیمت محنت کش طبقہ اداکرے۔ اس کیلئے کٹوتیوں کی وحشیانہ پالیسیاں مسلط کی جارہی ہیں۔ جن کے باعث یورپ کا بحران روزبروز گہرا ہوتا چلا جارہاہے۔ جس کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے، معیشتیں سکڑتی جارہی ہیں، ٹیکسوں کی وصولی ناکام ہورہی ہے اور خسارے کے حجم اور شرح میں تیزی سے اضافہ ہوتاجارہاہے۔
لیکن معیار زندگی میں کٹوتیوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ لوگ اس حدسے زیادہ ان پالیسیوں کو قبول نہیں کریں گے۔ اور اب یہ حدبھی اپنی حد کو پہنچنے والی ہے۔ پرتگال میں معیار زندگی پر تابڑتوڑ حملوں نے وہاں سیاسی اور سماجی دھماکوں کی فضا ہموار کردی ہے۔ لوگوں کی طرف سے خود رو تحریک کو شروع کرنے کے خطرے کو مصر کے واقعات نے اور بھی امکانی بنا دیاہے۔ اور اس امکان کے ممکن ہونے کے خدشے نے دنیا بھر کی بورژوازی کو دہلا کے رکھ دیا ہے اور یہ سب مصری انقلاب کی مرہون منت ہے۔
صرف بیس سال پہلے مشرقی یورپ میں سٹالنسٹ حکومتوں کو وسیع عوامی مظاہروں نے ختم کر دیاتھا۔ یہ تحریکیں ایک عنصرکی طاقت سے پھٹ کر سامنے آئی تھیں؛ اچانک اور بغیر انتباہ کے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ تب ناقابل شکست سمجھی جانیو الی یہ حکومتیں ان اچانک عوامی لہروں کے سامنے ایک ایک کرکے ریت کی دیوار کی طرح ڈہتی اوربہتی چلی گئیں۔ جب یہ سب ہورہاتھا تو تب بورژوازی پھولے نہیں سما رہی تھی اور جشن منا رہی تھی۔ لیکن اب صرف دو ہی دہائیوں کے بعدبورژوازی کو عوامی تحریکوں کے ایک ایسے آسیب نے آگھیرا ہے جو کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے لیکن جو کہیں سے بھی اچانک سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ بظاہر بورژوازحکومتیں بہت طاقتور ہیں، فوجیں‘ پولیس، خفیہ پولیس یہ سب طاقتیں اچانک خود کو اس آسیب کے سامنے انتہائی بے بس پاتی ہیں۔ اور انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کی طاقت کہیں خلا میں گم ہوچکی ہے اور انہیں ادھر اُدھر کوئی حمایتی بھی نظر نہیں آرہاہوتا۔
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ سٹالنسٹ حکومتوں، حسنی مبارکوں اور مرسیوں کی طرح بورژوا زی کا بھی یہی حال ہو؟ یہی وجہ ہے کہ ان کی چیخ وپکار کم نہیں ہورہی ہے کہ مرسی تو جمہوری طورپرمنتخب شدہ تھا، جیسے ہم منتخب ہوکر آئے ہوئے ہیں۔ اگر ایک منتخب شدہ مرسی کو ایک انقلابی طوفانی لہر اکھاڑ کر پھینک سکتی ہے توکیا ایسا کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو گا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے نہ صرف ریاض اور لزبن کے محلات کے باسیوں کی نیندیں اڑادی ہوئی ہیں بلکہ پیرس، لندن حتیٰ کہ واشنگٹن کے ایوانوں میں رہنے والوں کی بھی۔
متعلقہ:
مصر: اور نکلے ہیں عشاق کے قافلے