ایک طرف ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں اس ملک کے حکمران طبقے کی لوٹ مار کو ننگا کر رہی ہیں جبکہ دوسری جانب حکمران طبقے کی آپس کی لڑائی ان کے عوام دشمن کردار کو عیاں کر رہی ہے۔ اس ملک کے عوام پر مسلط کردہ سیاسی قیادتیں ان کے حقوق کے حصول کے لیے کتنی سنجیدہ ہیں یہ عوام خود اپنے تجربے سے سیکھ چکے ہیں۔ جس وقت ملک میں سیلاب ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد کو برباد کر رہا ہے اس وقت بھی ان کی زندگیاں انتہائی پر تعیش انداز میں گزر رہی ہیں اور متاثرہ افراد کے لیے ان لیڈروں کے پاس سوائے ڈرامے بازیوں اور جھوٹے دعووں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ دفاعی بجٹ میں کوئی کٹوتی نہیں کی گئی اور نہ ہی حکمرانوں کے عالیشان محلوں اور لگژری گاڑیوں کے اربوں روپے کے اخراجات میں کوئی کمی کی گئی ہے۔ رائیونڈ محل ہو یا بنی گالہ اور بلاول ہاؤسز، تمام حکمران آج بھی اسی طرح عیش و آرام سے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ عوام بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ انہی حکمرانو ں نے عوام پر بجلی کے بلوں میں مہنگائی کا بم گرا دیا ہے جبکہ پٹرول اور گیس کی قیمتیں بھی آئے روز تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ معاشی بحران کا تمام بوجھ عوام کے کندھوں پر منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ سرمایہ داروں کے منافعوں اور جاگیرداروں کی جائیداداوں میں کمی ہونے کی بجائے ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک کنگال، دیوالیہ اور برباد ہو رہا ہے اس ملک کے حکمران اقتدار اور لوٹ مار میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے ایسے لڑ رہے ہیں جیسے کتے ہڈی کے لیے لڑتے ہیں۔ ایک دوسرے پر غداری کے مقدامات سے لے کر دوران قید انسانیت سوز جسمانی و ذہنی تشدد کی رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں جبکہ عدالتوں سے لے کر جرنیلوں تک ہر ریاستی ادارے کے افراد پر دونوں جانب سے بد ترین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ شہباز گِل پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے اے آر وائی ٹی وی چینل پر اپنے ایک بیان میں فوج کے اندر اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ اس کوشش میں عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر لیڈران بھی ملوث تھے جبکہ اے آر وائی کی انتظامیہ اور اینکر پرسن بھی شریک تھے اور ان سب کی ملی بھگت سے یہ بیان ٹی وی پر دلوایا گیا۔ تحریک انصاف کے بیانات نے اس حوالے سے صورتحال کو واضح کرنے کی بجائے مزید گمبھیر کر دیا۔ پہلے کچھ لیڈروں نے اس بیان کی مذمت کی اور کہا کہ شہباز گل کو گرفتار کر کے قانونی کاروائی کرنا درست ہے لیکن اس کے بعد کہا گیا کہ نون لیگ اور دیگر پارٹیاں بھی اس قسم کے بیانات ماضی میں دے چکی ہیں اورپہلے ان کے خلاف بھی ایسی ہی کاروائی ہونی چاہیے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز گل کا بیان درحقیقت ریاستی اداروں کے اندر موجودپھوٹ کی عکاسی کرتا ہے اور اسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ابھی تک یہ مقدمہ عدالت میں موجود ہے اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی شہباز گل کو ضمانت پر ابھی تک رہائی ملی ہے۔ ایسی خبریں بھی سامنے آئی تھیں جس میں کہا جا رہا تھا کہ عمران خان کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے اس پر اسلام آباد میں ایک مقدمہ بھی دائر کیا گیا تھا۔ عمران خان پرایک الزام یہ ہے کہ اس نے شہباز گل کے مقدمے کو سننے والی جج خاتون کوایک تقریر کے دوران سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں۔ اسی طرح کچھ مقدمات میں عمران خان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ لیکن عمران خان کی گرفتاری سے پہلے ہی تحریک انصاف نے اپنے مؤقف کو بہت زیادہ تبدیل کر لیااور عمران خان اور شہباز گل اب معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ تمام صورتحال حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے مفادات کی حقیقت کو عیاں کرتی ہے۔ جس وقت عمران خان کی حکومت کو ختم کیا گیا اس کے بعد کے عرصے میں اس کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جرنیلوں پر بد ترین تنقید نظر آئی اور وہ تمام حدیں پھلانگ کر اس حکومت کو گرائے جانے کی تمام ذمہ داری جرنیلوں پر عائد کر رہے تھے۔ اس سے قبل جب نواز شریف اپوزیشن میں تھا اس وقت وہ بھی جرنیلوں پر نام لے کر شدید تنقید کر رہا تھا اور اپنے حامیوں کو ایسے ہی بیانات کے ذریعے اُکسا رہا تھا۔ اس وقت نواز شریف اوراس کی پارٹی کے دیگر لیڈران کے خلاف بھی لاہور کے ایک تھانے میں غداری کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔ درحقیقت ان تمام پارٹیوں کی جرنیلوں پر تنقید کا مقصد یہی ہے کہ کسی طرح وہ ان لیڈران کی مدد کر کے ان کو اقتدار تک پہنچائیں۔ دوسری جانب جرنیلوں کا کردار بھی اس ملک کی پوری تاریخ سے واضح ہے کہ وہ سرمایہ داروں، بینکاروں، جاگیرداروں اور اس ملک کے اشرافیہ کے کبھی ایک حصے کی نمائندہ پارٹی کی سرپرستی کرتے ہیں اور کبھی دوسرے کی اور کبھی خود براہ راست اقتدار میں بھی آجاتے ہیں۔ عدلیہ کا کردار بھی واضح ہے اور اس نے بھی قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کرنے کی بجائے حکمران طبقے کے وقتی مفادات کے تابع فیصلے کیے ہیں جبکہ مزدوردشمنی میں بھی یہ عدالتیں سب سے آگے ہیں۔
اس تمام عمل میں مزدور طبقے کی نمائندگی کہیں بھی موجود نہیں اور کوئی سیاسی پارٹی یا ریاستی ادار ہ مزدور طبقے کے مفادات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں کہیں بھی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے خلاف بیانات اور تقریریں نظر نہیں آتیں۔ کوئی بھی لیڈر، جج یا جرنیل یہ نہیں کہتا کہ سرمایہ داروں اور بینکاروں کی تمام دولت ضبط کر کے مزدور طبقے کے کنٹرول میں دے دی جائے گی۔ اس اشرافیہ کی سیاست میں سینکڑوں ممبران اسمبلی اور وزیروں اور مشیروں میں سے کوئی بھی مزدور طبقے کی اجرتوں کو دگنا یا افراط زر کے تناسب کے ساتھ منسلک کرنے کا اعلان نہیں کرتا۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ ملک میں علاج اور تعلیم کو مفت کر دیا جائے اور تمام نجی ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو ریاستی تحویل میں لے لیا جائے۔ کوئی بھی یہ بیان نہیں دیتا کہ نجی بجلی گھروں کو ریاستی تحویل میں لے کر بجلی کے بلوں کو دس سال پرانی والی سطح تک لے آئے گا۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ سیلاب زدگان کے بجلی کے بلوں اور تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی فیسوں سمیت تمام ٹیکس معاف کر دیے جائیں گے۔ جبکہ سرمایہ داروں کے لیے ٹیکس چھوٹ سمیت دیگر تمام مراعات نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی ایک دوسرے کے خلاف بد ترین لڑائی میں بھی وہ اپنے طبقے کے مفادات کو کسی طرح بھی ٹھیس نہیں پہنچنے دیتے اور نہ ہی اپنی مراعات یافتہ زندگیوں سے ایک لمحے کے لیے بھی دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ دوسری جانب ہر وقت عوام کو قربانی دینے کا نہ صرف درس دیا جاتا ہے بلکہ مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس پر زبردستی عمل بھی کروایا جاتا ہے۔ اس وقت کی تمام رائج الوقت سیاست مزدوروں کی دشمن ہے اور کسی بھی دھڑے سے مزدوروں کو کوئی توقعات نہیں۔ اس وقت مزدوروں کو اپنی نمائندہ سیاسی پارٹی کی تشکیل کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے بنیادی فریضہ مزدور طبقے کے اپنے سوشلسٹ نظریات کا حصول اوربڑے پیمانے پر ترویج ہے۔ درست نظریات کے بغیر بننے والی کوئی بھی پارٹی یا تحریک آخر کارحکمران طبقے کے ہی کسی حصے کی آلہ کار بن جاتی ہے اور اسی سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں قید ہو جاتی ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی مزدور طبقہ اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے اور حکمران طبقے کی اس تمام غلیظ سیاست کا ہمیشہ کے لیے انت کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تبدیلی اور ترقی کے تمام نعرے جھوٹ اور دھوکہ ہیں۔