اس ملک کی رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں سے عوام کو اسی قسم کی بدبو اور تعفن محسوس ہوتا ہے جیسے ایک گلی سڑی نعش سے۔ تحریک انصاف کو جس مصنوعی انداز میں عوام پر مسلط کیا گیا اس کی قلعی آج ہر خاص و عام کے سامنے کھل چکی ہے۔ عمران خان جیسے مزدور دشمن شخص کی قیادت میں یہ پارٹی تمام تر ریاستی آشیر باد کے باوجود کبھی بھی وسیع عوامی بنیادیں حاصل نہیں کر پائی تھی اور درمیانے طبقے کے ایک چھوٹے سے مخصوص حصے کو ہی اپنی جانب متوجہ کر سکی تھی لیکن آج وہ حمایت بھی موجود نہیں اور اس کے لیڈر ملک کے سب سے قابل نفرت افراد کا گروہ بن چکے ہیں۔ اتنی شدید نفرت اور غم و غصے کے باوجود موجودہ حکومت کے جاری رہنے کا سب سے زیادہ کریڈٹ اس ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کو جاتا ہے جو موجودہ حکمرانوں کو مکارانہ انداز میں سہارا دیے ہوئے ہیں اور اس عوام دشمن نظام کو مسلط رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی لوٹ مار کو جاری رکھے ہوئے ہے اور کروڑوں لوگوں کو بھوک، بیماری اور بیروزگاری کے ذریعے موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ اس پارٹی کے تمام قائدین کی دولت میں دن رات اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور وہ ہر گزرتے دن سینکڑوں ارب روپے کے مالک بنتے جارہے ہیں جبکہ ان کی حاکمیت میں زندگی گزارنے والے بھوک اور ننگ میں مبتلا ہیں اور خود کشیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
نون لیگ کو گزشتہ چند سالوں میں لنڈے کے دانشوروں نے مزاحمت کا استعارہ بنانے کی بھرپور کوششیں کی اور اس کے ماضی کے تمام تر مظالم، عوام دشمن اقدامات اور مزدور دشمنی کی تاریخ پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہیں تاکہ اسے نیا رنگ و روغن کر کے دوبارہ عوام کے زخموں کو نوچنے کے لیے کھلا چھوڑا جا سکے۔ لیکن اس پارٹی کی قیادت بھی ہر موقع پر اپنا عوام دشمن کردار واضح کرنے سے نہیں کترائی اور نہ ہی اس نے سرمایہ دارطبقے یا سامراجی مفادات کے خلاف کبھی کوئی بیان دیا۔ حال ہی میں مریم نواز اور ا س کی پارٹی کے قائدین کی ایک گھریلو شادی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں جہاں یہ ارب پتی افراد کروڑوں روپے کے لباس اور زیورات زیب تن کیے ہوئے اس ملک کے بھوک کے مارے غریب افراد کے منہ پر طمانچے رسید کر رہے تھے جبکہ ان کے تنخواہ دار دانشور انہیں عوام کا ہمدرد ثابت کرنے اور متبادل حکمران قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔
موجودہ حکومت کی تاریخی ناکامی کے بعد حکمران طبقے کی سیاست میں ایک دفعہ پھر نئی ٹیم کی تلاش اور اسے عوام پر مسلط کرنے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے فضل الرحمان سے لے کر ایم کیو ایم تک سب آزمودہ ہتھکنڈوں کو بھی دوبارہ تیز کیا جا رہا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کے مردار گھوڑے میں چابک مار مار کر اسے زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح تحریک لبیک سے لے کر طالبان تک ریاستی پشت پناہی سے چلنے والی عوام دشمن قوتوں کو بھی دہشت پھیلانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کا استعمال بھی دوبارہ شروع ہوگیا ہے اور پھر سے پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات ہوں یا کسی ایک حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہوں انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اوراسی تناظر میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی حمایت ماپنے کی ایک دھوکے بازی کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ ان ووٹوں کے اعداد و شمار میں کس قدر جھوٹ اور فراڈ شامل ہے اور یہ انتخابی عمل کس قدر کنٹرولڈہوتا ہے اس سے اس ملک کے محنت کش بخوبی آگاہ ہیں۔ اسی طرح کس طرح سیاسی پارٹیوں کے لیڈر روپے پیسے کے اثر و رسوخ یا تھانے کچہری کی ٹاؤٹی کی طاقت پر انتخابات میں شریک ہوتے ہیں وہ بھی مخفی نہیں رہا۔ ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان کن طاقتوں کے اشاروں پر ہوتا ہے یہ بھی عام معلومات کا حصہ ہے۔ لیکن اس بوسیدہ سماج کے رگ و پے میں منافقت اور جھوٹ کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے نا سمجھ بنے رہنا ایک معمول بن چکا ہے۔ جس طرح کرکٹ کے پہلے سے فکسڈ میچوں اور جوئے کے کاروبار کو نظر انداز کرتے ہوئے مصنوعی جیت پر جشن منانا ایک عام رویہ بن چکا ہے اسی طرح ان فراڈ زدہ انتخابات کو حقیقی بنا کر پیش کرنا معمول بن چکا ہے۔
درحقیقت ایک عوامی تحریک کی عدم موجودگی میں سیاست سے متعلق تمام تر بحث انتہائی غیر سیاسی انداز میں مسلط کی جاتی ہے۔ اس الٹی گنگا میں لوٹ مار کی لڑائی میں ملوث مختلف پارٹیوں کے جوڑ توڑ اور لیڈروں کے باہمی تعلقات اور چپقلشوں کو سیاست کہہ کر بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے جبکہ مہنگائی، بیروزگاری اوران کے خلاف ہونے والے چھوٹے بڑے احتجاجوں کو غیر سیاسی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہر روز بڑھتی خود کشیوں اور جرائم کاسیاست سے بظاہر کہیں بھی تعلق نظر نہیں آتا۔ گزشتہ تین سالوں میں جو چار کروڑ کے قریب افراد بیروزگار ہوئے ہیں ان کے حالات سیاست کا موضوع کہیں بھی نہیں اور نہ ہی کم از کم اجرت پر سپریم کورٹ کا عوام دشمن فیصلہ کسی اخباری کالم یا ٹی وی کے ٹاک شو میں سیاسی بحث کا موضوع ہوتا ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کی تقریر میں خواتین پر بڑھتے ہوئے جبر، ریپ کی پھیلتی وبا، مظلوم قومیتوں پر ہونے والے قومی جبر اور اس کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کا ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی بڑھتے معاشی جبر کاعوامی تحریکوں سے حل کرنے کالائحہ عمل پیش کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی لیڈراور تجزیہ نگار امیر اور غریب کی بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج پررائے زنی کرتا دکھائی نہیں دیتا اور نہ سرمایہ دار طبقے کی کھلی لوٹ مار اور منافع خوری کے خلاف محنت کش طبقے کی ابھرتی بغاوتوں کا ذکر کہیں ملتا ہے۔ ووٹ کو عزت دینے کا تقاضا کرنے والے نوٹ کی عزت کرتے پائے جاتے ہیں۔ درحقیقت سماج کے اُفق پر جس عمل کو سیاست بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ حکمران طبقے کے باہمی تضادات اور لڑائیوں کا اظہار ہوتا ہے اوراس بیانیے کو مسلط کرنے کا مقصد عوام کی حقیقی سیاسی امنگوں، جذبات اور تحریکوں کو کچلنا ہوتا ہے۔ گوادر کے محنت کشوں نے اپنی حالیہ تحریک کے ذریعے جس بلند سیاسی شعور کا اظہار کیا ہے اسے کسی بھی انتخابی عمل کے ذریعے نہیں ماپا جا سکتا اور نہ ہی اس کا اظہار کسی بھی موجودہ سیاسی ڈھانچے میں کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ تعفن زدہ پرانی پارٹیوں کی باقیات ابھی بھی کہیں نہ کہیں دکھائی دیتی ہیں لیکن ان کے ذریعے اس نئے عمل کو سمجھنے کی کوشش بیوقوفی ہوگی۔ یہی صورتحال اس وقت ملک کے تمام علاقوں کی ہے جہاں عوام ایک انقلابی تحریک کے لیے تڑپ رہے ہیں۔
اسی لیے اب یہ موجودہ غلیظ سیاسی اُفق زیادہ عرصے قائم نہیں رہ سکتا اور وہ وقت دور نہیں جب مصنوعی اور سماج کی حقیقتوں سے کٹی ہوئی سیاہ ست کو عوام اپنی پیش قدمی سے نوچ ڈالیں گے اور اپنی تکلیفوں کو، اپنے بے حرمتیوں اور بے توقیری کو سر بازار لا کر اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ یہاں ایک بہت بڑی انقلابی تحریک کے ابھرنے میں تاخیر ضرور ہورہی ہے لیکن یہ اتنی ہی ناگزیر بھی ہوتی جا رہی ہے اور سماج کے تمام تر تضادات تیزی سے پھٹنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس دیو ہیکل سماجی عمل میں اتار چڑھاؤ بھی آتے رہتے ہیں اورمحنت کش طبقہ کبھی تیز رفتاری سے اور کبھی سست روی سے اس حتمی نکتے کی جانب بڑھتا رہتا ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ تضادات مزید شدت اختیار کریں گے اور حکمران طبقے کی سیاست، اس کے نظام کی طرح ناکامی کی جانب بڑھتی چلی جائے گی۔ آمریت اور جمہوریت کے جعلی تضاد کا ناٹک پہلے ہی عیاں ہو چکا ہے، انصاف اورابلاغ کے اداروں کی آزادی کی مصنوعی تحریکوں کا بھانڈا پہلے ہی پھوٹ چکا ہے۔ اب امیر اور غریب کی جنگ کاطبل بجنے والا ہے جس میں واضح صف بندی ہوگی اور صدیوں سے مظلوم و محکوم چلے آرہے لوگ اپنے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کریں گے۔ اس جنگ میں سوشلسٹ نظریات سے لیس سپاہی محنت کشوں کے ہراول کا کردار ادا کریں گے اور ان کی ایک منظم انقلابی پارٹی اس جنگ کا پانسہ پلٹتے ہوئے ظلم اور جبر کے اس نظام کی حتمی شکست کا باعث بن سکتی ہے۔