نواز شریف اورعدالتوں کی لڑائی کو جمہوریت کی لڑائی قرار دینے والے بیوقوفوں کی یہاں کمی نہیں۔ دو ڈاکو اور لٹیرے اگر آپس میں لڑنا شروع کر دیں، ایک دوسرے کو گالیاں دیں، گریبان پھاڑ دیں یا ایک دوسرے کو زخمی کر دیں تو یہ لوٹے جانے والوں کے لیے محض ایک تماشا ہی ہو سکتا ہے۔ یہ تماشا ٹی وی کی سکرینوں اور اخباروں کی سرخیوں میں آج کل روز دیکھا جا سکتا ہے۔ عدالتوں کے عوام دشمن کردار سے اس ملک کے محنت کش اچھی طرح واقف ہیں۔ ان عدالتوں نے ہمیشہ رسہ گیروں، چوروں، بدمعاشوں، جاگیر داروں اور مزدوروں کا خون چوسنے والے سرمایہ داروں کو تحفظ دیا ہے جبکہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے والے محنت کشوں کو دہشت گردی کے مقدمات کے تحت سخت سزائیں سنائی ہیں۔ ان عدالتوں کی تاریخ اس دھرتی پر ہونے والے ہر ظلم کی پشت پناہی اور اس کو آئینی اور قانونی تحفظ دینے کی تاریخ ہے۔ بدعنوانی اور لوٹ مار کی غلاظت میں ڈوبا ہوا یہ ریاستی ادارہ آج اپنے ہی پالتو سیاستدانوں سے گتھم گتھا ہے اوراس لڑائی میں بہت سے راز افشا ہو رہے ہیں۔
نواز شریف کی سیاست کا آغاز بھی ضیاالباطل کی گود سے ہوا تھا اور آج بھی وہ فوج اور ریاست کے اہم ترین دھڑوں کی پشت پناہی سے سیاست پر مسلط ہے۔ بکاؤ میڈیا کی جانب سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ نواز شریف اور فوج کے درمیان کوئی تناؤ موجود ہے اور اسی بنیاد پر نواز شریف کو جمہوریت کا علمبردار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ راگ عوام کے لیے پرانا ہو چکا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جھوٹ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت اور آمریت کا کوئی تضاد آج موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے عوام کے لیے فوجی اور غیر فوجی حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں اور نہ ہی دونوں کے مظالم میں کوئی فرق ہے۔
اس وقت حکمران طبقے کے افراد خواہ وہ کسی سیاسی پارٹی میں ہوں یا جرنیل، جج اور بیوروکریٹ ہوں وہ اپنی لوٹ مار اور ڈکیتی میں دن رات مصروف ہیں۔ کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں موجود نہ ہو اور دیگر ریاستی اداروں پر براجمان افراد بھی پراپرٹی مافیا سے لے کر ہر منافع بخش دھندے میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں۔ اسی تمام تر لوٹ مار میں ان کے ایک دوسرے سے اختلافات ابھرتے ہیں اور اسی کو پالیسی یا ’’بیانیہ‘‘ جیسی خصی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے میڈیا میں بیٹھے ان کے ٹاؤٹ عوام کو بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک فریق دوسرے پر چوری اور ڈکیتی کے الزام عائد کرتا ہے جبکہ دوسرا کہتا ہے کہ ’’ثابت کر کے دکھاؤ‘‘۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جس حمام میں سب ننگے ہوں وہاں کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس ننگی بد عنوانی میں ایک دھڑا مختلف پارٹیوں اور ریاستی اداروں کے افراد پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ مخالف دھڑے میں اسی پارٹی اور ریاستی ادارے کے دیگر افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ دھڑے ٹوٹتے بھی ہیں اور نئے بن جاتے ہیں لیکن اس کی بنیاد کوئی نظریہ نہیں بلکہ مالی مفادات ہیں جو کسی بھی نئے ٹھیکے سے وابستہ ہو سکتے ہیں۔
اس تمام صورتحال کو سمجھنے کے لیے تجزیہ نگاروں کے پاس جو پیمانے موجود ہیں وہ ماضی کے واقعات ہیں۔ ضیا الباطل کے دور میں مسلط کی جانے والی رجعت کے خلاف ہونے والی مزاحمت کو جمہوریت کی بحالی کی تحریک بنا کر پیش کیا گیا اور آج اسی سے موازنہ بھی کیا جاتا ہے۔ آج کی نہ تو سیاست اس جیسی ہے اور نہ فوج اور نہ ہی ان کے سامراجی آقا۔ اسی طرح نوے کی دہائی میں نواز شریف اور بینظیر کے درمیان حکمرانی کی لڑائی سے بھی موازنہ کیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کے بحران کا موازنہ بھی نوے کی دہائی میں اس کے خلاف ہونے والے آپریشن سے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مشرف کی آمریت کے وقت ابھرنے والی صورتحال سے بھی موازنے کیے جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تجزیہ کرنے والوں کے ذہن پر ماضی کے واقعات کابوجھ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور وہ اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہے۔ وہ آج کی صورتحال پر بھی آمریت اور جمہوریت والا پرانا فارمولا لاگو کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا۔
آج پاکستان کی ریاست کا داخلی انتشار اور عالمی سطح پر سامراجی طاقتوں کی لڑائی بالکل ایک نئی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے اور ماضی میں اس سے ملتی جلتی صورتحال کبھی بھی موجود نہیں رہی۔ مشرقِ وسطیٰ کا گہرا ہوتا ہوا بحران ہو یا چین کی سامراجی طاقت کا ابھار، امریکی سامراج کا خصی پن ہو یا سعودی عرب میں مذہبی ترمیم پسندی، تمام کے تمام عوامل نئے ہیں۔ پاکستان کا معاشی بحران اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ اس کا تعلق بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اسی لیے آج کی سیاست اور رائج الوقت سیاسی پارٹیوں کا خود ان کے ماضی کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ خواہ وہ پیپلز پارٹی ہو جس کے ساتھ آج اس ملک کے مزدوروں اور کسانوں کی کوئی حمایت موجود نہیں یا پھر قوم پرست پارٹیاں جو اپنی بچی کھچی سماجی حمایت مکمل طور پر کھو چکی ہیں۔ تحریک انصاف سماج کے کسی بھی وسیع حصے کو متاثر نہیں کر سکی اور صرف میڈیا کی حد تک موجود ہے۔ زمین پرتمام پارٹیوں کی حمایت ہر علاقے میں صرف جرائم پیشہ افراد کے مختلف گروہوں تک محدود ہے۔ سماج کے وسیع ترین حصوں میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت موجود نہیں۔ 80ء کی دہائی میں سیاسی زوال پذیری کا شروع ہونے والا عمل اب اپنی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔ ضیا الباطل نے جب انقلابی تحریک کی پسپائی کے عہد میں غیر جماعتی انتخابات کروائے اس وقت پہلی دفعہ سیاست کو نظریات اور سیاسی پروگرام کی بجائے قوم، برادری، ذاتی اثرو رسوخ اور تھانے کچہری سے پناہ دینے کی بنیاد پر استوار کیا گیا۔ یہ عمل بتدریج آگے بڑھتا گیا اور سیاسی پروگرام اور نظریات غیر اہم ہوتے چلے گئے اور ذاتی تعلق، قوم، برادری اور تھانہ کچہری اہم ہوتے چلے گئے۔ اسی باعث ماضی کی بائیں بازو کی سیاست دم توڑتی گئی اور دائیں بازوکی سیاست حاوی ہو گئی۔ اس کی انتہا پر صرف پیسہ ہی رہ گیا جس سے ووٹ خریدے اور بیچے جا سکتے ہیں۔ عوام کے لیے اس سیاست میں کچھ بھی نہیں تھا اور نہ ہی انہیں کسی بھی امیدوار یا پارٹی سے امید تھی کہ وہ ان کی حالت بدلے گی۔ آغاز میں ماضی کی سیاسی وابستگیاں کسی حد تک موجود رہیں لیکن آج وہ بھی ختم ہو چکی ہیں۔ خاص طور پر نئی نسل ان پرانی سیاسی وابستگیوں کو پہچانتی تک نہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ انتخابات میں کسی پارٹی کے پاس کوئی سیاسی نعرہ تک نہیں ہوتا بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ ہمارے انتخابی نشان پر ٹھپہ لگاؤ۔ روزگار کی فراہمی سے لے کر مہنگائی کے خاتمے تک کی کوئی بات بھی دور دور تک سنائی نہیں دیتی۔ ہر سیاسی پارٹی انتخاب سے چند دن پہلے ووٹ خریدنے کی اہلیت کے تحت امیدوار اتارتی ہے۔ ویسے بھی پارٹی قیادتوں کے لیے انتخابات کا مطلب پارٹی کی ٹکٹو ں کے ذریعے کمائی ہوتا ہے۔ سینٹ کے انتخابات میں تو یہ غلیظ کاروبار سر عام ہو رہا ہے اور ایک جگہ پر تو اس کاروبار میں خاندان کے افراد اور رشتوں کی بھی خرید و فروخت ہوئی ہے۔
لیکن جہاں پرانی غلیظ سیاست اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے وہاں عوام بھی سیاسی میدان میں دوبارہ قدم رکھ رہے ہیں۔ گو کہ اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی یا پلیٹ فارم ایسا نہیں جو ان کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کر سکے یا ان کوسیاسی پروگرام دے سکے۔ اسی لیے آج اس ملک میں ہونے والے عوام کے تمام احتجاج، ہڑتالیں اور مظاہرے سیاسی پارٹیوں سے آزادانہ طور پر ہو رہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے بوسیدہ اور گلی سڑی سیاسی پارٹیوں اور ان کے غلیظ لیڈروں کو مسلط کرنے کی جتنی کوشش کی جاتی ہے عوام میں ان کے خلاف نفرت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ یہی عمل اس ریاست کے سنجیدہ حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور وہ نئے چہروں کے ذریعے اپنا مکروہ دھندہ دوبارہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ صرف فوج، پولیس اور عدالتوں کے ذریعے سماج کو نہیں چلایا جا سکتا اس کے لیے سیاسی پارٹیاں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اور اس وقت پاکستان میں کوئی بھی حقیقی سیاسی پارٹی موجود نہیں جو سماج کے کسی ایک حصے کی بھی نمائندگی کرتی ہو۔ ایسے میں حقیقی ایشوز کے گرد ہونے والی نئی سیاست کے لیے ایک بہت بڑا خلا موجود ہے۔ چھوٹے چھوٹے احتجاجوں اور مظاہروں سے بڑھ کر محنت کش طبقہ جب ایک وسیع عوامی تحریک میں ابھرے گا تو وہ اپنا سیاسی پلیٹ فارم بھی خود تراشے گا۔ ایسے وقت میں درست مارکسی نظریات سے لیس اگر ایک انقلابی تنظیم موجود ہوئی تو وہ ان طوفانی واقعات میں مداخلت کرتے ہوئے اس انقلابی تحریک کو اپنے منطقی انجام کی جانب لے کر جا سکتی ہے اور یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ یہی انقلاب اس عوام دشمن ریاست اور اس کے تمام غلیظ اداروں کا خاتمہ کرے گا اور یہاں مزدور جمہوریت کے ذریعے غیر طبقاتی نظام اور حقیقی عدل و انصاف قائم کرے گا۔