محنت کشوں کی اجرتوں میں افراط ِزر کے تناسب سے اضافہ نہ ہونے کے باعث ان کی حقیقی اجرتوں میں گزشتہ چند ماہ میں بڑے پیمانے پر کمی ہو چکی ہے۔ ایک طرف ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیز ترین گراوٹ ہو چکی ہے جبکہ دوسری جانب اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے۔ لیکن اس تناسب سے اجرتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا جس کا واضح مطلب ہے کہ محنت کش کے کام کے اوقات کار پہلے جیسے ہی ہیں لیکن اس کا معیار زندگی تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ آٹھ سے سولہ گھنٹے روزانہ کام کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ بجلی، پانی، صحت اور دیگر انتہائی بنیادی نوعیت کی ضروریات کی تکمیل اس وقت کروڑوں افراد کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ انسان دشمن حکمرانوں نے دواؤں اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں بھی تیز ترین اضافہ کر دیا ہے جس کے باعث بہت سے لوگ انتہائی کسمپرسی اور غربت کی حالت میں موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب اس معاشی بربریت کے ثمرات حکمران طبقات اٹھا رہے ہیں اور ان کی دولت کے ذخائر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر اجرتوں میں اضافہ نہیں کیا جا رہا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ مہنگائی کی حالیہ لہروں کے بعد سرمایہ دار پہلے کی نسبت کم اجرت پر مزدور سے کام لے رہا ہے جبکہ تیار اشیا کی منڈی میں فروخت نئے نرخوں کے مطابق ہو گی جس کی قیمت میں مہنگائی اور افراطِ زر کے تناسب سے اضافہ کر دیا جائے گا۔ یعنی سرمایہ دارپہلے کی نسبت زیادہ سستی لیبر حاصل کر رہا ہے اوراب پہلے سے کئی گنا زیادہ قدر زائد نچوڑ کر اپنے منافعوں میں مزید اضافہ کر رہا ہے لیکن محنت کشوں کی زندگیاں کئی گنا زیادہ بدتر ہو چکی ہیں۔ مزدور کے بچوں سے تعلیم کی سہولت چھین لی گئی ہے اور بیماری کی صورت میں علاج نا ممکن ہو چکا ہے اور وہ صرف سسک سسک کر موت کا انتظار ہی کر سکتا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی یہی حقیقت ہے جس میں محنت کشوں کی محنت نچوڑ کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھری جاتی ہیں جبکہ مزدوروں کے جسموں سے زندگی نچوڑ کر انہیں بدبودار تعفن زدہ علاقوں میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایک طرف حکمران طبقے کے پر تعیش محلات ہیں، ان میں جگمگاتی روشنیاں ہیں، لگژری گاڑیاں، انواع و اقسام کی خالص خوراکیں اور قیمتی لباس ہیں جبکہ دوسری جانب ان محنت کشوں کے غلاظت سے اٹے ہوئے گھر ہیں جو اس سماج کی تمام تر دولت پیدا کرتے ہیں۔ ان غریبوں کے علاقوں میں گٹر اُبل رہے ہیں، بیماریاں ہر جگہ اپنے پھن پھیلائے بیٹھی ہیں، کھانے پر مکھیاں اور مچھر بھی اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے بھنبھنا رہے ہیں، گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا دھوپ، ہر موسم یہاں پرانے امراض کو زندہ کر دیتا ہے اور ادویات اور سائنسی علاج کی بجائے ٹھنڈی آہوں اور سسکیوں کومرہم سمجھا جاتا ہے۔ ان گندگی سے بھرے ہوئے تاریک علاقوں میں حکمران طبقے کے خلاف کتنی نفرت اور غصہ ہے شاید اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ اس ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت انہی حالات میں زندگی گزار رہی ہے جہاں جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور پاؤں کے لیے جوتی بھی ایک آسائش تصور کی جاتی ہے۔
لیکن دوسری جانب ہم پر میڈیا اور سیاست کے ذریعے جو نجات دہندے مسلط کیے جاتے ہیں وہ کسی دوسرے سیارے کے باسی معلوم ہوتے ہیں۔ وہ مہنگائی کے لیے موٹی موٹی دلیلیں پیش کرتے ہیں اور ایسی فرضی کہانیاں سناتے ہیں جن کا کسی محنت کش کی زندگی سے دور کا تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن اتنی لمبی لمبی تقریریں کرنے کے بعد یہ نہیں بتاتے کے اجرتوں میں اضافہ کیوں نہیں کیا جارہا۔ سرکاری طور پر ابھی بھی کم از کم تنخواہ بائیس سے پچیس ہزار روپے ماہانہ ہی کیوں مختص ہے، مہنگائی کے تناسب سے تو اس وقت یہ پچاس ہزار سے بھی بڑھ جانی چاہیے تھی اور اگر ایک تولہ سونے کی قیمت سے منسلک ہو تو سوا لاکھ روپے ماہانہ ہونی چاہیے تھی۔ چند دہائیاں قبل تک کم از کم اجرت اور ایک تولہ سونا کی قیمت تقریباًایک جتنی تھی۔ اس وقت فرق مزدور تحریک کی طاقت کا تھا جو آج کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط تھی اور ملک گیر سطح پر نظریاتی بحثوں کا گڑھ تھی۔ مزدور تحریک پر حکمرانوں کے مسلسل حملوں کے نتیجے میں آج حقیقی اجرتیں کم ترین سطح تک پہنچ چکی ہیں جس کا موازنہ ایک تولہ سونے کی قیمت سے کیا جا سکتا ہے۔ مزدوروں کی انہی غیر ادا شدہ اجرتوں کو لوٹ کر سرمایہ دار تاریخ کے سب سے بڑے منافع کما رہے ہیں۔
آج اگر پوری دنیا میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہاں سے ایکسپورٹ کرنے والے سرمایہ دار تو پھر پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ قیمتوں پر اپنا مال فروخت کر رہے ہیں۔ اسی طرح مقامی صنعت کار اور خدمات کے شعبے سے وابستہ کمپنیوں نے بھی اپنے ریٹ بڑھا دیے ہیں اور دیگر خام مال بھی پہلے کی نسبت زیادہ قیمت پر خرید رہے ہیں تو پھر محنت کشوں کی اجرت میں کیوں اضافہ نہیں کیا جا رہا اور انہیں تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے کیوں چھوڑ اجا رہا ہے۔ اس کا جواب واضح ہے کہ یہ ریاست اور اس کے تمام ادارے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے موجود ہے اور ان اداروں کا مقصد محنت کش طبقے کو خونی جبر کے ذریعے محکوم اور زیر دست رکھنا ہے۔ اس نظام کی بنیاد محنت کش کے استحصال پر رکھی گئی ہے اور سرمایہ داروں کی شرحِ منافع میں مسلسل اضافے کے لیے ضروری ہے کہ مزدور کم ترین اجرت پر مزدوری کریں اور اگر وہ مر جائیں تو ان کی جگہ نئے مزدوروں کا ایک جم غفیر موجود ہو جو اس منافع خوری کے نظام کو جاری رکھ سکے۔
اس خونی چکر کا خاتمہ محنت کشوں کی ایک متحد قوت سے کیا جاسکتا ہے۔ اجرتوں میں اضافے کی لڑائی کو آگے بڑھانے کے لیے ملک گیر سطح پر محنت کشوں کو یکجا ہو کر اپنے حقوق کے لیے باہر نکلنا ہو گا۔ اس کے علاوہ مستقل روزگار، اوورٹائم کی ادائیگی، ہفتہ وار چھٹی، پنشن، علاج اور تعلیم کے حصول جیسے بنیادی مطالبات کو لے کر آگے بڑھنا ہو گا۔ ہڑتالوں اور احتجاجی تحریکوں کو منظم کرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کے منہ سے اپنا اور اپنے خاندان کا نوالہ چھیننا ہو گا۔
لیکن اب محنت کشوں کو اس لڑائی کو صرف اجرتوں میں اضافے کی لڑائی تک محدود نہیں رکھنا ہوگا بلکہ اسے وسیع تر کرتے ہوئے سیاسی مطالبات کی جانب بھی بڑھنا ہوگا۔ محنت کش دیکھ چکے ہیں کہ شدید ترین ریاستی جبر، آنسو گیس کی بوچھاڑ اور گولیوں کا سامنا کرتے ہوئے اگر وہ اجرتوں میں تھوڑا بہت اضافہ کروا بھی لیتے ہیں تو مہنگائی کی ایک نئی لہر ان تمام حاصلات پر پانی پھیر دیتی ہے۔ اس لیے اب اس اجرتی مزدوری کے نظام کے خلاف بھی اعلان بغاوت کرنا ہو گا جس میں محنت کشوں کی پیدا کردہ تمام دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جائے اور صرف چند خاندان عیاشی کریں جبکہ کروڑوں افراد بھوک اور بیماری کی ذلت میں گرتے چلے جائیں۔ اس دفعہ سرمایہ دارانہ نظام کو للکارنا ہوگا اور اس کو ختم کرنے کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے محنت کش طبقے کو ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جس کی تعمیر کرنا آج تمام با شعور افراد کا اولین فریضہ ہے۔