حکمران طبقے کی بدبودار سیاست اور لوٹ مار کے لیے ہونے والی آپسی لڑائی اس وقت پورے سماج میں بحث کا موضوع ہے۔ اس لڑائی میں دونوں جانب عوام دشمن قوتیں ہی موجود ہیں جو اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر ہر طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کر رہی ہیں۔ دوسری جانب محنت کش طبقہ ہے جس پر زندگی کے دروازے بند کیے جارہے ہیں اوریہ پورا نظام اسے موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ اس وقت کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس عوام کے مسائل کا کوئی حل نہیں اور نہ ہی وہ یہ مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی تمام تر سیاست کا مقصد اپنی دولت اور جائیداد میں اضافہ کرنا اور اپنی پرتعیش زندگیوں کا تحفظ کرنا اور اس کے علاوہ اپنا اقتدار اور تمام تر جمع پونجی آنے والی نسلوں کو منتقل کرناہے جبکہ دوسری جانب محنت کش طبقے کو بھوک، بیماری اور ذلت بھی نسل در نسل منتقل کی جا رہی ہے۔ عمران خان ہو یا زرداری اورشریف خاندان، سیاسی پارٹیوں کی تمام قیادتیں اور ان کے ممبران اسمبلی عوام دشمن ایجنڈے کے تحت سیاست کر رہے ہیں اور ان کی سیاست کا مقصد صرف سامراجی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنا اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی رکھوالی کرنا ہے۔ محنت کش طبقے کا مفاد اس تمام تر سیاسی لڑائی میں دور تک بھی موجود نہیں۔ اس دوران کچھ سیاسی پارٹیاں عام انتخابات کروانے کا بھی پر زور مطالبہ کر رہی ہیں اور بظاہر عوام کا مینڈیٹ حاصل کر کے دوبارہ اسمبلیوں میں آنا چاہتی ہیں۔ جبکہ کچھ دوسری پارٹیاں اقتدار کے مزے لوٹ کر مقررہ وقت تک انتخابات کو مؤخر کروانا چاہتی ہیں تاکہ اس دوران لوٹ مار کی اپنی باری کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ انتخابات کی تیاری کرنے کا دعویٰ بھی کر رہی ہیں اور مخلوط حکومت میں شامل تمام فریقین اپنا سیاسی وزن بڑھانے اور دوسرے کا کم کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔ ایسے میں گماشتہ میڈیا اور تجزیہ کاروں کی جانب سے انتخابات کو غیر ضروری طور پر اہمیت دی جا رہی ہے اور اس کے ذریعے محنت کشوں کی آنکھوں میں یہ دھول جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ نمائندے کا انتخاب کرنے کے لیے انتظار کریں اور اپنے مخالف کوووٹ کے ذریعے شکست دے کر اپنے تمام تر معاشی اور سماجی مسائل کا نہ صرف بدلہ لیں بلکہ مستقبل کے لیے بہتری بھی تلاش کریں۔ دوسرے الفاظ میں انتخابات کو تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کیا جاتاہے جبکہ مختلف پارٹیوں کی غلیظ اور مزدور دشمن سیاست کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔
اس ملک کا مزدور طبقہ جمہوریت کے نام پر اس دھوکے سے بخوبی آگاہ ہے اور جانتا ہے کہ ان تمام پارٹیوں میں سے کوئی بھی بر سر اقتدار آ جائے اس کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ اس کے لیے روزگار اوربنیادی ضروریات کی فراہمی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جائے گی اور ہر آنے والی پارٹی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کو ہی لاگو کرتی رہے گی اور مہنگائی کا عذاب ایسے ہی مسلط رہے گا بلکہ اس میں شدت آتی جائے گی۔ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان بلند و بانگ دعوے کرتا تھا اور کرپشن ختم کرنے کے ساتھ ساتھ پٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں تیز ترین کمی کے جعلی منصوبے پیش کرتا رہتا تھا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس کی قلعی بہت جلد کھل گئی جب اس نے ملکی تاریخ کی بد ترین معاشی بربادی پھیلائی جس سے لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور محنت کش اپنے بچوں کو ہی بھوک کے باعث قتل کرنے لگے۔ شہباز شریف کی نئی حکومت کے عزائم بھی کچھ مختلف نہیں اور یہ بھی اپنے ماضی کے ادوار کی طرح بد ترین مہنگائی اور بیروزگاری پھیلائیں گے اور مزدور دشمن اقدامات کی پھر سے ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنے مزدور دشمن اقدامات گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے جاری رکھے ہوئے ہے اور کرپشن اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ مختلف قوم پرست پارٹیوں کا کردار بھی کچھ مختلف نہیں اور وہ بھی حکمران طبقے کا آلہ کار بن چکی ہیں۔ ایسے میں اگر عام انتخابات منعقد ہوتے بھی ہیں تو محنت کشوں کے پاس زیادہ سے زیادہ یہی آپشن ہوگا کہ مختلف چوروں اور ڈاکوؤں میں سے اپنے لیے کسی ایک کو منتخب کر لیں۔ اور یہ بھی اسی صورت ممکن ہے اگر انتخابات کے نتائج پہلے سے کسی جرنیل کے آرڈر پر مرتب نہ کر لیے جائیں اور ووٹ ڈالنے کی رسم ادا ہونے کے بعد پہلے سے طے شدہ نتائج زرخرید میڈیا کے ذریعے سنا دیے جائیں۔ لینن نے ایک صدی پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک طبقاتی نظام میں حقیقی جمہوریت دیوانے کا خواب ہے۔ آج بھی یہی صورتحال ہے جہاں ایک جانب ارب پتی موجود ہیں جنہیں انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب کروڑوں کی تعداد میں محنت کشوں موجود ہیں جنہیں سیاست میں براہ راست حصہ لینے یا منظم ہونے کی یہ نظام اجازت ہی نہیں دیتا۔
ایسے میں ہمارے سامنے یوم مئی کی مثال ابھر کر سامنے آتی ہے جب شکاگو کے شہیدوں نے لازوال قربانیوں اور احتجاج اور ہڑتال کے ذریعے اپنے انتہائی اہم حقوق حاصل کیے تھے۔ آٹھ گھنٹے کے اوقات کار، اجرتوں میں اضافے اور ہفتہ وار چھٹی سے لے کر پنشن، سوشل سیکورٹی اور دیگر بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں نے احتجاج اور ہڑتال کا ہی رستہ اپنا یا اور بہت سی کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں۔ اس ملک کے محنت کش طبقے کی بھی انتہائی شاندار روایات ہیں جس میں ایک زبردست انقلابی ابھار کے دوران ایک ملک گیرعام ہڑتال کے ذریعے یہاں کے انتہائی سرمایہ نواز ڈکٹیٹر جنرل ایوب کی آمریت کا 1969ء میں خاتمہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد ہی اس ملک کے عوام کو پہلی دفعہ الیکشن کا حق حاصل ہوا تھا۔ اس عام ہڑتال کے بعد ہی پہلی دفعہ لیبر قوانین کا نفاذ شروع ہوا تھا جس میں یونین سازی سمیت بہت سے دیگر حقوق مزدوروں کو ملے تھے جس میں سرکاری سطح پر تعلیم اور علاج تک باآسانی اور انتہائی سستی رسائی ممکن ہوئی تھی۔ لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں سے وہ حقوق مسلسل چھینے جا رہے ہیں اور آج آٹھ گھنٹے کے اوقات کار، ہفتہ وار چھٹی، سوشل سیکورٹی اور دیگر بنیادی حقوق مزدوروں کی اکثریت کی پہنچ سے دور ہوتے جا رہے ہیں جبکہ یونین سازی ایک جرم بنا دیا گیا ہے۔ آج بھی مزدوروں کے لیے آگے بڑھنے کا رستہ احتجاج، ہڑتال اور انقلابی جدوجہد ہی ہے جس میں حکمران طبقے کے مسلط کردہ تمام اداروں اورنظام کو اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پارلیمانی نظام کی بنیادیں سرمایہ دارانہ نظام پر استوار ہیں اور وہ ہر صورت میں مزدوروں کے دشمن کا کردار ہی ادا کرتا رہے گا۔ اسی طرح فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر تمام ادارے بشمول انتخابات کا جعلسازی، کرپشن، ضمیر فروشی سے بھرپور طریقہ کار بھی اسی مزدور دشمن نظام کی بنیاد پر کھڑے ہیں اور کسی طرح بھی مزدوروں کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے۔
جب مزدور طبقہ سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو وہ نہ صرف ایسی تمام عوام دشمن سیاسی قوتوں کو رد کرتا ہے بلکہ اس تمام تر نظام کی بنیادوں کو بھی للکارتا ہے جو اسے اجرتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑکر رکھتی ہیں۔ وہ صدیوں سے چلے آ رہے اس ملکیت کے نظام کو بھی اکھاڑنے کی طرف بڑھتا ہے جس میں مزدوروں کی پیدا کردہ دولت وراثتی قوانین کے تحت اس کے دشمن طبقے کو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ایک انقلابی تحریک میں کسان جاگیروں پر قبضے کی جانب بڑھتے ہیں جبکہ مزدور صنعتوں اور ذرائع پیداوار کے دیگر حصوں پر قبضہ کرتے ہوئے اجتماعی کنٹرول کی جانب بڑھتے ہیں۔ ایسے میں اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہو تو ایک عام ہڑتال اور مزدوروں کے انقلابی اقدامات کو منظم سیاسی اظہار دیتے ہوئے وہ اقتدار مزدور طبقے کے کنٹرول میں لینے کی جانب فیصلہ کن انداز میں بڑھتی ہے۔ یہیں سے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کے خاتمے کا آغاز ہوتا ہے اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدور ریاست کے قیام کی بنیاد ڈالی جاتی ہے۔ اسی نظام میں ہی حقیقی جمہوریت پنپتی ہے اور ہر شخص کو نہ صرف اس کے حقوق ملتے ہیں بلکہ اس سماج کے کنٹرول اور اس کے تمام فیصلوں میں ہر شخص کی شمولیت بھی یقینی ہو جاتی ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے علاوہ تبدیلی اور ترقی کے تمام نعرے جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔