ملک کی تمام تر سیاست سرمایہ دار طبقے اور اس کے نمائندوں کی لونڈی بن چکی ہے۔ اب اسی طبقے کے ایک اور نمائندے جہانگیر ترین کو ابھارنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ موصوف اپنی سیٹ بھی جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن چینی کی لوٹ مار کی گنگا میں نہانے کے بعد اپنی کالی کمائی کے سر پر اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے ممبران پارلیمنٹ کا ایک پورا گروپ چلا رہے ہیں۔ اس سے پہلے عمران خان اور اس کی پارٹی کو بھی اپنی کالی کمائی سے فیض یاب کروا چکے ہیں اور شوگر مافیا کے سرغنہ کی حیثیت سے تحریک انصاف کو اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار بھی ادا کر چکے ہیں۔ مزدور دشمن قوتوں کے نمائندے کی حیثیت سے مشرف دور میں بھی وزارت سے لطف اندوز ہو چکے ہیں اور ان کی دولت گزشتہ تمام سالوں میں اربوں سے کھربوں میں پہنچ چکی ہے۔ محنت کش جانتے ہیں کہ اس نظام میں رہتے ہوئے اس پر بننے والے کسی بھی مقدمے میں اسے سزا نہیں ہو گی اور نہ ہی چینی کی فروخت میں کھربوں روپے لوٹنے والے دیگرسرمایہ دار اور وزیر کیفر کردار تک کبھی پہنچ سکیں گے۔ عدالتیں، پولیس اور دیگر ریاستی ادارے تو سرمایہ د ار طبقے کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ہیں جبکہ سزائیں تو صرف مزدور طبقے کے حصے میں آتی ہیں۔ موجودہ بحران میں تو محنت کشوں کے لیے زندگی کی ہر سانس ایک سزا بنا دی گئی ہے جبکہ دوسری طرف دولت مندوں کے لیے ان کی عدالتی کاروائیاں، مقدمے اور جیلیں محض تفریح کا سامان ہیں جن میں انہیں شہرت کے مواقع ملتے ہیں اور اپنی سیاست کو پروان چڑھانے کے رستے نکلتے ہیں۔
اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار کی ہڈی کے پیچھے بھاگ رہی ہیں اورمحنت کشوں کی جہنم زدہ زندگیوں سے انہیں کوئی بھی دلچسپی نہیں۔ ان کے تمام تر اختلافات کی بنیاد لوٹ مارمیں حصے کی لڑائی ہے۔ تحریک انصاف میں پڑنے والی حالیہ دراڑوں کی بنیاد بھی یہی لوٹ مار کی لڑائی ہے جس میں ایک دھڑا اقتدار کی ہڈی میں زیادہ حصہ مانگ رہا ہے جبکہ بر سر اقتدار دھڑا اس ہڈی کاچھوٹا سا ٹکرا بھی کسی دوسرے کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی کی خواہش کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال میں جس ٹولے نے کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے اربوں روپے لوٹے ہیں اب اس کو تبدیل کرنے کا مطالبہ زورپکڑ رہا ہے اور دوسرا ٹولہ اپنی باری کا خواہش مند ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ بھی تحریک انصاف کا بلبلہ پھٹنے کے بعد اگلی باری کے لیے کوئی نیا خچر تیار کرنا چاہتی ہے۔ پی ڈی ایم کو اسی مقصد کے لیے تیار کیا گیا تھا اور اس کو ملک گیر سطح پر جلسوں اور میڈیا میں ان کی کوریج کی اجازت بھی اسی لیے دی گئی تھی تاکہ اگلے اقتدار میں عوام پر مسلط کرنے والے مہرے تیار کیے جا سکیں۔ ان جلسوں میں بھی محنت کش عوام کو درپیش کسی مسئلے کا حل پیش نہیں کیا گیا۔ اسی دوران لاکھوں محنت کشوں کی مختلف تحریکیں پورے ملک میں جاری رہیں اور ریاستی جبر کا شکار ہوتی رہیں لیکن پی ڈی ایم ان سب سے لا تعلق رہی۔ اس دوران جہانگیر ترین سمیت سرمایہ دار طبقہ آٹے اور چینی کی تاریخی لوٹ مار میں ملوث رہاجبکہ پی ڈی ایم میں شامل سیاست دان اور سرمایہ دار ان کا ساتھ دیتے رہے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل تیز ترین سطح پر پہنچ گیا اور ہزاروں ملازمین کی جبری برطرفیاں کی گئیں لیکن اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ محنت کشوں کی کم ازکم اجرت میں اضافے کا سوال ہو، مزدوروں کی یونین سازی کا مطالبہ ہو، اوقات کار میں کمی کی لڑائی ہو یا روزگار کی فراہمی کی جدوجہد، حکومت کی طرح اپوزیشن بھی ان تمام تر سوالوں پرمزدوروں کی دشمن ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کی طرح پیپلز پارٹی بھی سندھ میں بلاول اور زرداری کی قیادت میں بد ترین کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہے اور اس کی لڑائی کا مقصد اس لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے تک محدود ہے۔ ن لیگ ماضی میں جس طرح عوام پر کوڑے برساتی رہی ہے اب دوبارہ اسی مقصد کے لیے واپس اقتدار میں آنا چاہتی ہے۔ کبھی شہباز شریف جیسے مزدور دشمن شخص کو مسیحا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کبھی مریم نواز جیسی ارب پتی خاتون کو غربت کی دلدل میں دھنسے کروڑوں لوگوں پر بطور لیڈر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اربوں اور کھربوں روپے کی جائیدادوں کے ان مالکان کا محنت کشوں کی زندگیوں سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ ان کا لباس، ان کی خوراک، رہن سہن اور نظریات و سوچیں محنت کشوں کے حالات زندگی سے اتنی ہی دور ہیں جتنا آسمان زمین سے دور ہے۔ ان کی زندگی کی تمام آسائشیں اور مراعات موجود ہی عوام کی لوٹ مارکے بل بوتے پر ہیں۔ اگر عوام اپنا حق لینے کے لیے باہر نکل آئیں تو ان کے محلوں کی بنیادیں لرزنے لگ جاتی ہیں۔ جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کی زندگیاں بھی ان حکمرانوں سے مختلف نہیں۔ غریب عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی یہ جونکیں صرف محنت کشوں کا خون پی کر ہی زندہ رہ سکتی ہیں۔ اسی لیے اس نظام کے یہ رکھوالے عوام دشمن سیاست کو مسلط رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور شطرنج کی اس بازی کے دوران دونوں اطراف سے اپنے ہی مہرے آمنے سامنے لاتے ہیں۔
اس بازی کو پلٹنے کے لیے محنت کش طبقے کو خود سیاست کے میدان میں اترنے کی ضرورت ہے اور اپنی پارٹی کی تشکیل کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ پارٹی کسی عالیشان محل نما گھر میں ترتیب نہیں پائے گی اور نہ ہی میڈیا کے ذریعے اعلان کر کے ریاستی سرپرستی میں اس کی تشہیر کا آغاز کیا جائے گا۔ دیگر پارٹیوں کی طرح ہر علاقے کے قبضہ گروپ، بھتہ خور، غنڈے، بدمعاش، منشیات فروش، رسہ گیر، پولیس کے ٹاؤٹ اور ظالم ترین افراد کو الیکٹیبل کا نام دے کر اس پارٹی میں بھرتی نہیں کروایا جا سکتا بلکہ یہ پارٹی ان الیکٹیبلز کے خلاف بنے گی۔ اس کے سب سے بڑے دشمنوں میں خود میڈیا بھی شامل ہو گا جو حکمران طبقے کا ہی گماشتہ ہے اور اسی نظام کے ساتھ اس کے مفادات وابستہ ہیں۔
درحقیقت ایسی پارٹی بننے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور ملک بھر کے لاکھوں محنت کشوں کی مختلف تحریکوں نے اس پارٹی کے بیج بو دیے ہیں۔ ان تحریکوں کو بد ترین ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے جو ریاستی لے پالک پارٹیوں کے جلسوں اور دھرنوں سے اس کا فرق واضح کرتا ہے۔ ایک طرف پی ڈی ایم کے جلسوں کو تمام تر سکیورٹی فراہم کی جا رہی تھی اور یہاں تک کہ قوم پرست لیڈروں کو بھی ملک بھر میں تقریروں کے لیے اسٹیج فراہم کیے جا رہے تھے جبکہ دوسری جانب محنت کشوں پر بد ترین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور حقیقی سیاسی کارکنوں کو جبری گمشدگیوں کا سامنا ہے۔ حکمرانوں کی سیاسی پارٹیاں میڈیا میں ہر وقت بحث کا موضوع رہتی ہیں اور ان کے کسی لیڈر کو چھینک بھی آ جائے تو تمام ٹی وی چینل اور اخبارات متحرک ہو جاتے ہیں لیکن محنت کش تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہے ہیں لیکن ان کی کبھی کوئی خبر سامنے نہیں آتی۔ کسی نے ایک دن مزدور کے ساتھ گزارنے میں دلچسپی محسوس نہیں کی اور نہ ہی اسے پرواہ ہے کہ ان کی زندگی کی تلخیاں کتنی بڑھ چکی ہیں۔ کسانوں اور زراعت سے جڑے محنت کشوں کو جس بربادی اور دیوالیہ پن کا سامنا ہے اس پر کسی پارٹی نے کوئی مذمت نہیں کی اور نہ ہی ایک کسان لیڈر کے لاہور میں ریاستی جبر کے بعد ہونے والے قتل پر احتجاج کیا۔
مزدور طبقے کی اپنی پارٹی کی تعمیرکے لیے یہی تما م خام مال ہے جو اب اس سماج میں وسیع پیمانے پرموجود ہے۔ حکمران طبقہ اپنے مسلط کر دہ لیڈروں، دانشوروں اور ٹریڈیونین اشرافیہ کے ذریعے اس عمل کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے گا اور اس کو پوری ریاستی طاقت سے کچلنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن تاریخ کا اصول ہے کہ ہر عہد کا حکمران طبقہ وقت کی پیش قدمی کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔ پورے ملک میں جس سماجی و سیاسی عمل کا آغاز ہو چکا ہے اسے اب واپس نہیں دھکیلا جا سکتا۔ یہ عروج و زوال سے گزرتا ہوا مسلسل آگے بڑھے گا اور محنت کش طبقہ ایک دفعہ پھر سیاست کے میدان میں بھرپور انداز میں اپنا اظہار کرے گا۔ اس عمل کومنطقی انجام تک لے جانے کے لیے سوشلزم کے حقیقی نظریات اور اس پر مبنی سیاسی پروگرام کی ضرورت پیش آئے گی۔ مزدور طبقے کے لیے ان نظریات اور پروگرام سے لیس ہونا اشد ضروری ہے تاکہ وہ حکمران طبقے کے حملوں کا مؤثر جواب دے سکے۔ یہ نظریات اور پروگرام مزدور طبقے تک پہنچانا ایک انقلابی تنظیم کے کیڈروں کی اولین ذمہ داری ہے اور یہی فریضہ اس ملک میں سوشلسٹ انقلاب کی حتمی منزل کوحاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔