پاکستان کی معیشت تکنیکی طور پر دیوالیہ ہوچکی ہے صرف اس کا اعلان باقی ہے۔ اس ملک کا عوام دشمن حکمران طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کا تمام ملبہ عوام پر ڈالتا جا رہا ہے جبکہ ان کی پر تعیش زندگیاں جاری و ساری ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور اب ڈالر انٹر بینک میں 300 روپے کی حد سے تجاوز کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس دوران افراطِ زر بے قابو ہوتا جا رہا ہے اور فروری میں سرکاری طور پر یہ عدد 31.6 فیصد دیا گیا ہے جو جھوٹ پر مبنی ہے اور حقیقت میں یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
افراط زر کو قابو کرنے کے لیے سرکاری طور پر شرح سود بیس فیصد کر دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ افراطِ زر قابو ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ آنے والے عرصے میں تیل اور بجلی کی قیمتوں میں مزید بہت بڑے اضافے متوقع ہیں جبکہ دوسری جانب روزگار کے مواقع مسلسل ختم ہو رہے ہیں اور کروڑوں افراد بیروزگاری کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں۔
عالمی سطح پر موجود مالیاتی ادارے اور ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی نوید سنا رہی ہیں اور کہہ چکی ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے بعد 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی ادائیگی ہو بھی جاتی ہے تو بھی یہ ملک جون تک 7 ارب ڈالر کے قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ مارچ کے ہی مہینے میں چین کو دو ارب ڈالر کی قسط کی ادائیگی کی جانی ہے اس کے علاوہ دیگر مختلف اداروں کو قرضوں کی ادائیگی کی تاریخ قریب آ رہی ہے جبکہ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ اس دوران امپورٹ پر بڑے پیمانے پر روک لگا دی گئی ہے اور بہت سی اشیا بندرگاہ پر صرف اس لیے کئی مہینوں سے پھنسی ہوئی ہیں کیونکہ سٹیٹ بینک کے پاس ان کی ادائیگی کرنے کے لیے ڈالر موجود نہیں۔
پاکستان اگر دیوالیہ ہوتا ہے تو اس ملک کے عوام دشمن حکمران اس ناکام نظام کے ڈیفالٹ کا تمام تر بوجھ بھی عوام پر منتقل کر دیں گے۔
کسی بھی لمحے افراطِ زر بے قابو ہو سکتا ہے جیسا کہ حالیہ عرصے میں لبنان میں نظر آیا۔ لبنان کی کرنسی کی قیمت چند ماہ میں 1500 فی ڈالر سے 15 ہزار فی ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ جبکہ آج وہ 93 ہزار ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ کرنسی کی قیمت میں گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے تبدیلی ہو رہی ہے۔ لبنان کے وزیر خزانہ نے اعلان کر دیا ہے کہ ملک کا مالیاتی نظام منہدم ہوچکا ہے۔ مارکیٹوں میں اشیائے صرف کی قیمتیں اب ڈالر میں مقرر کی جا رہی ہیں اور اسی کے مطابق خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ دوسری جانب لاکھوں لوگوں کے بینکوں میں موجود پیسے پڑے پڑے غائب ہو گئے ہیں۔بینک مالکان بینکوں کو تالے لگا کر فرار ہو گئے ہیں جبکہ مشتعل مظاہرین بینکوں کی عمارتوں کو احتجاجاً آگ لگا رہے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اے ٹی ایم مشینوں پر بھی حملے ہوئے ہیں اور ان میں بھی پیسے موجود نہیں۔ محنت کشوں کی زندگی بھر کی خون پسینے کی کمائی اس سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کے باعث دنوں میں ضائع ہو چکی ہے اور اب لوگ بھوک اور بیماری کے ہاتھوں ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آنے والے عرصے میں ایسی صورتحال یہاں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا جیسے حالات بھی بن سکتے ہیں۔وہاں بھی دیوالیہ ہونے کے بعد ملک میں تیل کی امپورٹ بند ہو گئی تھی جس کے باعث ملک بھر میں ٹرانسپورٹ اور بجلی سمیت تمام انفراسٹرکچر جام ہو گیا تھا۔ گھروں میں کھانا پکانے کے لیے بھی گیس دستیاب نہیں تھی اور پورے ملک میں لوگ لکڑیوں پر کھانا پکانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی طرح ہسپتالوں میں ادویات اور دیگر ضروری آلات کی قلت پیدا ہوگئی تھی جبکہ اناج کی عدم دستیابی کے باعث بہت سے لوگ کئی کئی دن تک بھوکے رہنے پر مجبور تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لاکھوں افراد حکمران طبقے کے مظالم کے خلاف سڑکوں پر آگئے تھے اور فوج اور پولیس کے تمام تر تشدد اور جبر کے باوجود صدارتی محل میں داخل ہو گئے تھے اور پورے ملک میں سرکاری تنصیبات پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس وقت اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی اور ایک درست انقلابی اور سیاسی پروگرام سے لیس ہوتی تو وہاں سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد تمام ذرائع پیداوار عوامی کنٹرول میں لے کر ملک کو ایک سوشلسٹ منصوبہ بندی کے تحت اس خونی دلدل سے نکالا جا سکتا تھا۔ لیکن انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث ایسا نہ کیا جاسکا۔ اب حکمران طبقہ دوبارہ اقتدار حاصل کر چکا ہے اور عوام پر مزید کئی گنا زیادہ ٹیکس اور عوام دشمن فیصلے مسلط کر رہا ہے۔ آنے والے عرصے میں سری لنکا میں دوبارہ ایسی تحریک بن سکتی ہے۔
پاکستان کے حکمران عوام کو یہ باور کروا رہے تھے کہ پاکستان لبنان اور سری لنکا کی طرح چھوٹا ملک نہیں اس لیے دنیا اسے دیوالیہ ہونے نہیں دے گی۔ ان بھیک منگوں کو یہ لگتا تھا کہ دنیا بھر کے لوگ ان حکمرانوں کی جھولیاں ڈالروں سے بھرتے رہیں گے تاکہ یہ یہاں کی پچیس کروڑ سے زائد آبادی پر ظلم و ستم کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھیں اور دنیا کو ان کے غیض و غضب سے بچا کے رکھیں۔
ماضی میں اس ملک کے حکمران خود اس قسم کا پراپیگنڈہ بھی کرتے رہے ہیں جس میں ملک کے حالات خراب کرنے اور دہشت گردی کے پھیلاؤ کو ڈالروں کے حصول کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسی طرح ملک کی جوہری طاقت کو بھی بلیک میلنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور سامراجی طاقتوں سے پیسے بٹورنے کا ذریعہ بنایا۔ لیکن اب یہ ہتھکنڈے کارآمد نہیں رہے اور ابھی تک پاکستان کی دیوالیہ معیشت کو بچانے کے لیے کسی بھی سامراجی قوت کی جانب سے کوئی امداد آتی نظر نہیں آ رہی۔ چین اور سعودی عرب کی طرف سے ماضی میں کی جانے والی داد رسی اب نظر نہیں آ رہی اور وہ بھی اس دیوالیہ معیشت کے اندھے کنویں میں مزید اربوں ڈالر پھینکنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
پاکستان نے گزشتہ طویل عرصے میں جو شے سب سے زیادہ فروخت کی ہے وہ سامراجی طاقتوں کے لیے ایک فوجی اڈے کی خدمات تھیں اور اس نے خطے میں سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کرنے کے عوض اربوں ڈالر وصول کئے۔ اس دوران یہاں کی صنعتیں اور زراعت بحران زدہ ہو کر انہدام کی جانب بڑھتی رہیں اور گماشتگی کے عوض حاصل ہونے والے ڈالروں سے رئیل اسٹیٹ، سٹہ بازی اور بلیک اکانومی فروغ پاتی رہی۔ آج یہ تمام عمل اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس دیوالیہ معیشت کو بچایا نہیں جا سکتا۔ دیوالیہ پن کے بعد بھی قرضوں کی ری شیڈولنگ کا عمل بھی عوام کی ہڈیاں اور گوشت نوچ کر ان کے جسم گروی رکھ کر ہی مکمل ہو سکے گا۔ دوسری جانب حکمران طبقہ سامراجی طاقتوں کے لیے مقامی تھانیدار کا کردار ادا کر کے معاوضہ وصول کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اور مظالم ڈھاتا رہے گا۔
ان حالات میں بہت سے دانشور انارکی اور خونریزی کی پیش گوئی کرتے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت اس سب خونی گھن چکر کو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال کسی بھی وقت تیزی سے ایک انقلابی صورتحال کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ یہ تناظر مارکس وادیوں کے علاوہ کوئی بھی دوسرا رجحان پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس صورتحال میں مزدور طبقے کو اپنا انقلابی کردارادا کرنا ہوگا۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ملک میں موجود تمام دولت اور ذرائع پیداوار مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لینے ہوں گے اور منڈی کی معیشت کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں پر ایک منصوبہ بند معیشت کا آغاز کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت امریکی اور چینی سامراج کی غلامی سے چھٹکارا بھی صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام سیاست اور دانشوری صرف ایک فراڈ اور دھوکہ ہے۔