مزدور طبقے کی اپنی سیاسی پارٹی نہ ہونے کے باعث اس ملک کی تمام تر سیاست اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے کنٹرول میں ہے۔ اس میں سب سے مضبوط اور طاقتور دھڑا ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کا ہے جنہوں نے اس ملک کی نصف تاریخ میں براہ راست آمریت کے ذریعے حکمرانی کی ہے جبکہ باقی عرصے میں بالواسطہ حکمرانی کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح دیگر تمام سیاسی پارٹیاں بھی عوام دشمن قوتوں کے کنٹرول میں ہی ہیں اور تمام سیاسی پارٹیوں کا ایجنڈا، سیاسی اور معاشی پروگرام ایک ہی ہے۔ ان سب کا مقصد اس ملک کے سرمایہ دارطبقے کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور اس کے لیے سامراجی طاقتوں کی کاسہ لیسی اور غلامی کرنا ان کا اولین مقصد حیات ہے۔ سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہر سیاسی پارٹی اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتی رہی ہے جبکہ اس ملک کے جرنیلوں نے بھی ہمیشہ سامراجی طاقتوں کی غلامی کے طوق کو پہن کر عوام دشمن اقدامات کے تسلسل کو جاری رکھا ہے۔
اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ محنت کش طبقے نے سیاست میں کبھی اپنا کردار ادا نہیں کیا یا سرمایہ دارطبقے کی پروردہ اس ریاست اور سیاست کو چیلنج نہیں کیا۔ اس ملک میں محنت کش طبقے کی انقلابی تحریکوں کی ایک لمبی تاریخ ہے جنہوں نے نہ صرف سامراجی طاقتوں کی غلامی کا طوق اتار کر پھینکا بلکہ یہاں پر قابض حکمران طبقے کی حاکمیت کو بھی متعدد بار للکارا۔ آج یہاں پر موجود محنت کش طبقے کے لیے جو چند قوانین، ضابطے یا کاغذوں کی حد تک محدود حقوق اگر ہیں تو وہ انہی عوامی تحریکوں کا نتیجہ ہیں جنہوں نے حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا دیا تھا۔ لیکن اپنی سیاسی پارٹی نہ ہونے کے باعث ان تحریکوں کو حتمی طور پرسرمایہ دارانہ پارٹیوں کے اندر ہی گمراہ کر کے زائل کر دیا گیا جہاں پر موجود حکمران طبقے کے افراد نے ان تحریکوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ہی مقید رکھا اور سماج کی مکمل سوشلسٹ تبدیلی ممکن نہ ہو سکی جہاں مزدور طبقہ اپنی حکومت قائم کر سکتا۔ لیکن آج سرمایہ دارانہ نظام کا تاریخی بحران اس کے تمام اداروں کی عوام دشمن غلیظ حقیقت کو منظر پر لا رہا ہے جو محنت کشوں کی اپنی سیاست کی ضرورت کوا بھار رہی ہے۔ ریاستی ادارے ہوں یا سیاسی پارٹیاں، ان کی وہ تمام تر اصلیت اور حقیقت جو ماضی میں منافقت کے پردوں کے پیچھے ڈھکی چھپی ہوتی تھی آج پوری قوت کے ساتھ عوام کے سامنے واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔
حکمران طبقے کی آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور دیگر سامراجی اداروں کے سامنے بد ترین غلامی آج کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی اور یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ یہاں کے حکمران صرف ان سامراجی طاقتوں کی دلالی کا کردار ادا کرتے ہیں اور حقیقی پالیسیاں یہاں سے بہت دور سرمایہ دارانہ طاقت کے مراکز میں ترتیب دی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے قومی حمیت، خودمختاری اور اس جیسی دیگر منافقانہ لفاظی بھی اب سیاست میں کم و بیش ہی نظر آتی ہے۔ دانشوروں، سیاست دانوں اور دیگر نام نہاد اکابرین کی اکثریت کی جانب سے یہی مشور ہ انتہائی سنجیدہ شکل بنا کر دیا جاتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کے سامنے سر خم کر لینا ہی عقلمندانہ فیصلہ ہے اور سر اٹھانا حماقت۔
اسی طرح فوج کے ترجمان کی جانب سے متعدد بیانات دیے گئے ہیں کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور وہ منتخب اداروں میں مداخلت نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود کوئی بھی ذی شعورشخص یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور موجودہ حکومت کے لیے نیم آمریت کی اصطلاح روز مرہ کا حصہ بن چکی ہے جبکہ ضمنی انتخابات سے لے کر سینیٹ کے انتخابات میں کروڑوں روپے کے لین دین سے لے کر ووٹروں یا الیکشن کے عملے کی نقل و حمل، خرید وفروخت اور دھمکیوں تک کے تانے بانے مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے ملائے جاتے ہیں۔ ماضی میں آمریت اور جمہوریت کا ایک بہت بڑا تضادبنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے اور حال ہی میں بننے والے پی ڈی ایم الائنس نے بھی جمہوری آزادی کے نام پرمنافقت سے بھرپور کافی واویلا کیا لیکن اس کے باوجود وہ جعلی تضاد کو عوام پر مسلط نہیں کر سکے۔ آج یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں، فوجی جرنیلوں، سپریم کورٹ کے ججوں اور دیگر ریاستی عہدیداروں کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور وہ اس تمام تر کھیل میں پوری طرح شریک ہیں۔ عدلیہ کی آزادانہ حیثیت یہاں پر کبھی قائم ہو ہی نہیں سکی اور ایوب خان کی پہلی آمریت ہو یا بھٹو کا عدالتی قتل یہ عدلیہ ہمیشہ ہی حکمران طبقے کے مفادات کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ لیکن آج نظام کے بحران کے باعث انگریز سامراج کے بنائے گئے اس عدالتی نظام کے تمام تر پردے چاک ہو چکے ہیں اور عدلیہ کا عوام دشمن کردار خاص و عام پر واضح ہے۔
سب سے اہم پیش رفت تمام سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کی حقیقت کا عوام پر عیاں ہونا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں ایک بار پھر واضح ہوا کہ سبزی منڈی میں جس طرح آلو اور ٹینڈے بکتے ہیں اسی طرح ان منتخب نمائندوں اور نام نہاد لیڈروں کا بھی باقاعدہ ریٹ لگتا ہے اور بولی کے ذریعے ان کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ ماضی میں بھی لوٹے کی اصطلاح اکثر استعمال ہوتی تھی اور مختلف سیاسی پارٹیوں میں ایسے افرادکی موجودگی پر طنز بھی کیا جاتا تھا لیکن اب تو اس حمام میں سب ہی ننگے نظر آتے ہیں اور حمام میں کسی قسم کے پردے کا انتظام بھی کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ اس حمام میں تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر شامل ہیں۔ دراصل سب سے بڑی حقیقت یہ واضح ہوئی ہے کہ یہ مختلف پارٹیاں درحقیقت ایک ہی پارٹی کے مختلف دھڑے ہیں اور یہ دولت مندوں کی پارٹی ہے۔ اس دولت مندوں کی پارٹی کے کبھی کسی ایک دھڑے کو لوٹ مار کا موقع دیا جاتا ہے اور کبھی کسی دوسرے کولیکن ان کی عوام دشمن پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ آمریت ہویا نام نہاد جمہوریت دولت مندوں کی یہ پارٹی اسی طرح جاری و ساری رہتی ہے جبکہ محنت کش مسلسل غربت اور ذلت کی چکی میں پستے چلے جاتے ہیں۔
حکمرانوں کے اس تمام تر جشن کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محنت کش طبقہ اپنے مفادات کے لیے سوشلسٹ نظریات سے لیس ہو اورمنظم انداز میں اپنے حقوق کی سیاست کا آغاز کرے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں حکمران طبقے کے کا کوئی دوسرا دھڑا ان پر دوبارہ مسلط کر دیا جائے گا جو ان کی چمڑی اتارنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اب درمیانے طبقے کے بہت سے موقع پرست افراداور نام نہاد دانشور نواز شریف اور زرداری کے گن گا رہے ہیں جو ماضی میں عوام کی چمڑی ادھیڑنے کا فریضہ سر انجام دے چکے ہیں۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ کے انتخابی معرکے کا واویلا کیا جا رہا ہے جس میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان میں سے کون عوام کا زیادہ بڑا دشمن اور سامراجی گماشتہ ہے۔ محنت کشوں کے لیے اشرافیہ کی اس غلیظ سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں جو ان کے بلند سیاسی شعور کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن دوسری جانب ان کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنی پارٹی کی تخلیق کی جانب بھی بڑھنا ہوگا جس کی بنیاد صرف سوشلزم کے انقلابی نظریات پر ہی رکھی جا سکتی ہے۔ آنے والے عرصے میں ابھرنے والی عوامی تحریکیں اور سماجی تبدیلیاں اس اہم ترین سیاسی پیش رفت کو عملی جامہ پہنانے کی جانب بڑھیں گی اور مزدور طبقے کا وہ اوزار تخلیق ہو گا جو اس غلاظت بھرے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ایک سوشلسٹ انقلاب سے کرے گا۔