گزشتہ سال فروری کے آغاز پر اس ملک کی مزدور تحریک کی تاریخ کا ایک اہم باب رقم ہوا تھا۔ پی آئی اے کے محنت کشوں نے آٹھ دن تک اندرون اور بیرون ملک تمام پروازیں معطل کر دیں تھیں اور ریاست کے ایک بڑے حصے کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ ہڑتال کا آغاز پی آئی اے کے دو محنت کشوں کے ریاستی اداروں کی جانب سے قتل کے بعد ہوا تھا۔ اس ہڑتال نے بہت سے نئے سوالات کو جنم دیا جو ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی بھی جواب طلب ہیں۔ سب سے پہلا سوال مزدور تحریک کی قیادت پر ہے۔ حکمران طبقہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دباؤ پر نجکاری کے شدید ترین حملے کررہا ہے اور محنت کش طبقے کی کئی دہائیوں کی جدوجہد سے ملنے والی حاصلات ختم کرتا جا رہا ہے لیکن مزدور تحریک کے قائدین مسلسل پسپائی اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور مزاحمت کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے خوف سے پوری تحریک کو قربان کرد یا جاتا ہے۔ جبکہ محنت کش اس کیخلاف لڑائی کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے وقت بھی ایک عظیم الشان ہڑتال دیکھی گئی تھی لیکن قیادت کی غداری کے باعث اسے کامیابی سے ہمکنا ر نہیں کیا جا سکا۔ آج صورتحال بڑے پیمانے پر تبدیل ہو چکی ہے اور واپڈا سمیت تمام اداروں میں شدید مزاحمت موجود ہے لیکن قیادت مختلف حیلے بہانوں سے تحریک کو زائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور فیصلہ کن لڑائی سے خود خوفزدہ ہے۔ پنجاب کے سکول ٹیچرز کی جدوجہد بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ پنجاب کے 52ہزار سکولوں کی نجکاری کیخلاف دو فروری کو پرائمری اور مڈل کے شروع ہونے والے امتحانات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا جس کے لیے اساتذہ جوش و جذبے سے تیاری کر رہے تھے لیکن آخری وقت پر قیادت نے حکومت سے مذاکرات کے بعد جھوٹی یقین دہانیوں پر بائیکاٹ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ جبکہ حقیقت واضح ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی مکمل نجکاری کا منصوبہ تیار کر چکی ہے اور تیزی سے اس پر عملدرآمد کرتی جا رہی ہے۔ حکمران ان بنیادی سہولیات پر عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے ہونے والے اخراجات کو بھی اپنی جیبوں میں ڈالنا چاہتے ہیں اور محنت کش عوام کو لاعلاجی اور ناخواندگی کی کھائی میں دھکیل رہے ہیں۔ پی آئی اے کی ہڑتال میں بھی جرات مند قیادت کا فقدان واضح ہو کر سامنے آیا اور ابھی تک اس ادارے کی جاری نجکاری کیخلاف منظم لڑائی کا دوبارہ آغاز نہیں کیا جا سکا گو کہ محنت کشوں میں شدید غم و غصہ موجود ہے۔
مزدور قیادت کے ساتھ ساتھ اس صورتحال نے سیاسی پارٹیوں کے کردار پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ یہ حقیقت مکمل طور واضح ہو چکی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی نجکاری اور بیروزگاری سمیت کسی بھی بنیادی مسئلے پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں اور معاشی و اقتصادی پالیسیوں پرتمام پارٹیاں متفق ہو چکی ہیں۔ اسی لیے پی آئی اے کے قتل ہونے والے محنت کشوں کے لیے کسی سیاسی پارٹی اور مزدور تنظیم نے آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی ذمہ داروں کیخلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے میں سیاسی کارکنان، انقلابی طلبہ اور محنت کشوں کے سامنے اہم سوالات ابھر رہے ہیں جن کا جواب دینے والا سیاسی افق پرکوئی نہیں۔ آنے والے عرصے میں حکمرانوں کی جانب سے محنت کش عوام پر حملوں میں شدت آئے گی۔ عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے سود کی ادائیگی کا بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے جبکہ اس میں چین سے آنے والے 57ارب ڈالر کے قرضوں اور سود کا بوجھ بھی شامل ہو چکا ہے۔ سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں معاشی بحران کے باعث تارکین وطن کی ترسیلات زر میں کمی آتی جا رہی ہے جبکہ برآمدات میں بھی کمی ہوئی ہے۔ چین سے درآمدات میں اضافے کے باعث جو رہی سہی مقامی صنعت تھی وہ بھی بند ہونے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ چینی کمپنیاں ٹیلی کام سے لے کر اسٹیل مل اوربجلی کی پیداوار تک ہر شعبے پر اجارہ داری قائم کر نے کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج کے چالیس فیصد حصص بھی شنگھائی کی ایک کمپنی نے خرید لیے ہیں۔ اس تمام تر سرمایہ کاری سے روزگار پیدا ہونے کی بجائے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ صرف لوہے کی صنعت پر ہی چین کی اجارہ داری قائم ہونے سے تمام مقامی لوہے کی صنعتیں ختم ہو نے کی جانب بڑھیں گی ۔ ٹیکسٹائل، سیمنٹ اور دیگر صنعتوں کا مستقبل بھی مختلف نہیں ہو گا۔ چین کے سرمایہ دارمزدوروں پر بدترین مظالم اور استحصا ل کے لیے دنیا بھر میں پہلے ہی بدنام ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ وفاق اور صوبوں میں بر سر اقتدار مقامی حکمرانوں کی لوٹ مار میں بھی کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ریاست ایک ڈوبتی ہوئی کشتی ہے اور وہ تیزی سے اس میں سے لوٹ مار کر کے بیرون ملک اپنی تجوریوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ چین سمیت آنے والے تمام سرمایہ کاروں سے کمیشن وصول کر کے مقامی حکمران پورے ملک کے انفر ااسٹرکچر اور قدرتی وسائل کو اونے پونے داموں فروخت کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کی وسیع تر اکثریت غربت کی دلدل میں مزیدتیزی سے دھنس رہی ہے۔
لیکن اس تمام تر لوٹ مار کیخلاف مزاحمت بھی موجود ہے۔ ابھی تک یہ بکھری ہوئی شکل میں اور غیر منظم انداز میں موجود ہے لیکن وقت اور حالات کا جبر انہیں جوڑنے کی جانب بڑھے گا۔ یہ بکھری ہوئی تحریکیں ناگزیر طور پر اپنا سیاسی اظہار بھی کریں گی جبکہ خطے اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے اہم اثرات بھی ان پر مرتب ہوں گے۔ طبقاتی کشمکش میں شدت اس ملک میں نئے سیاسی طوفانوں کو جنم دے گی جو ماضی کی تمام سیاست کو دفن کرتے ہوئے نئی عوامی تحریکوں کو جنم دے گی۔ دائیں اور بائیں بازو کی از سر نوصف بندی ہو گی اور طبقاتی جنگ کا نیا میدان لگے گا۔ ایسے میں درست سائنسی نظریات پر مبنی کوئی قوت موجود ہوئی تو وہ جنگ کا پانسہ محنت کش طبقے کی جانب فیصلہ کن انداز میں پلٹ سکتی ہے۔ یہی اس ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا آغاز ہو گا جو صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔