محنت کش طبقہ آج جس اذیت اور تکلیف سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی حکمرانوں کے لیے ناممکن ہے۔ ان کی زندگیاں انتہائی عیش اور آرام سے بسر ہو رہی ہیں۔ ہر گزرتا دن ان کے لیے دولت کے نئے انبار لے کر آتا ہے اور وہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ ہر کوئی حکمران طبقے کی آپسی لڑائیوں اور ان کی ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کی تفصیلات ہی بیان کر رہا ہے جبکہ غربت اور ذلت کی خونی دلدل میں دھنستے عوام کی جانب توجہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر طرف عمران خان، پی ڈی ایم اور آرمی چیف کے بیانات اور ان کے ایک دوسرے پر حملوں کا ذکر ہو رہا ہے، تحریک انصاف کے کارکنان پر ریاستی جبرکی مذمت ہو رہی ہے اور ریاستی اداروں بالخصوص فوج کے تقدس کا واویلا کیا جارہا ہے لیکن محنت کش طبقہ جس بے دردی اور بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اس کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا، اور نہ ہی کسی دانشور، صحافی یا سیاستدان کو فرصت ہے کہ وہ محنت کشوں کے مسائل پر گفتگو کرے۔
اس ملک کی سیاست گزشتہ چند دہائیوں سے مکمل طور پر اشرافیہ کے مفادات کے گرد ہی گھوم رہی ہے اور محنت کش طبقے کو اس تمام تر سیاست سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا گیا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں، جرنیل، جج اور بیوروکریٹ اس عوام دشمن سیاست کے ذریعے لوٹ مار میں مصروف ہیں اور اسی لوٹ مار کے دوران ان کے آپسی تضادات پکتے پکتے اب پھٹ کر سامنے آ چکے ہیں۔ کچھ جرنیلوں نے مل کر تحریک انصاف کو پروان چڑھایا اور اسے سیاست پر مسلط کیا جبکہ اب کچھ جرنیل اس کا سائز کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے دور حکومت میں جو کچھ عمران خان اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ کر رہا تھا اب وہی کچھ اس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آنے والے عرصے میں دوبارہ بازی پلٹ سکتی ہے اور جو لوگ اب اقتدار میں ہیں وہ دوبارہ عدالتوں اور جیلوں کے چکر لگاتے ہوئے نظر آ سکتے ہیں اور جو لوگ ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں وہ یہی جبر اپنے مخالفین پر مسلط کرتے نظرآئیں گے۔ عمران خان کے دورحکومت میں بھی آرمی چیف قمر باجوہ نے اپنی وفاداریاں مخصوص مفادات کے تحت تبدیل کر لیں تھیں اور شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کو اقتدار دلانے کی راہ ہموار کی تھی۔ درحقیقت خود عمران خان بھی اسی موقع کے انتظار میں ہے اور اس کی تمام تر عیاری اور مکاری کا مقصد کسی طرح آرمی چیف کی نظر کرم کا حصول ہے یا پھر اس کو کسی بھی طریقے سے تبدیل کر کے اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا ہے۔ وہ مقتدر حلقوں کی بیساکھیوں کے ذریعے ہی اقتدار میں آنا چاہتا ہے اور اس کے حواری بھی اس کاسہ لیسی کوہی سیاست کا اعلیٰ ترین مقام سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں جن کی نہ تو کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی ان کی رائے یا سیاسی وابستگی کوئی معنی رکھتی ہے۔ جرنیلوں، ججوں سے لے کر موجودہ حکومت کے تمام وزیروں اور مشیروں کی بھی یہی عوام دشمن سوچ ہے۔
لیکن اس تمام تر کھلواڑ میں یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ سیاسی قیادتیں کیسے شطرنج کی اس بساط پر صرف مہروں کا ہی کردار ادا کرتی ہیں اور وقت پڑنے پر انہیں تذلیل آمیز انداز میں وفاداریاں بدلنے کا حکم صادر کر دیا جاتا ہے۔ضمیر، سچائی، وفاداری، ایمان اور نظریاتی بنیاد جیسی کوئی بھی چڑیا اس اشرافیہ کی سیاست میں وجود نہیں رکھتی اور ہر طرف مفاد پرستی کا ننگا رقص جاری ہے جس میں تمام فریق اربوں، کھربوں روپے لوٹ رہے ہیں جبکہ محنت کش عوام کو مزید قربانیوں کا درس دیا جاتا ہے۔ اپنے منافقانہ بیانات،وفاداری تبدیل کرنے اور یو ٹرن پر شرمندہ ہونا بیوقوفی اور وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے اور زیرک سیاستدان اسے ہی کہا جاتا ہے جو اقتدار کے لیے زیادہ سے زیادہ گری ہوئی حرکت کر سکے اور تمام ترغلاظت منہ پر مل کر بھی اعتماد کے ساتھ لوگوں کونیکی کا سبق دے سکے۔ تمام تر صحافی، دانشور، اینکر پرسن اور تجزیہ نگار بھی اسی طریقہ کار پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ کاربند ہیں۔ اس سیاست میں ایک ہی اصول ہے کہ جو جتنا زیادہ بے غیرت، بے ضمیر، مکار، دھوکے باز اور منافق ہوگا وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہوگا اور اسے اتنا ہی بڑا عہدہ ملے گا۔
غلاظت سے اٹی اس دلدل میں جہاں حکمران طبقے کے تمام دھڑے اور مہروں کی حقیقت عیاں ہو رہی ہے وہاں پر یہ پوری مزدور دشمن ریاست ہی گہری دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ موجودہ ریاست جس قدر بحران کا شکار ہے اتنا شدید بحران شاید ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ عدلیہ، پارلیمنٹ اور بیوروکریسی سے لے کر تمام اداروں کا مزدور دشمن کردار محنت کشوں پر واضح ہو رہا ہے۔ پولیس ہو یا عدلیہ، محنت کش طبقہ کبھی بھی انہیں اپنا مسیحا نہیں سمجھتا تھا اور نہ ہی مڈل کلاس کی طرح کبھی ان اداروں سے بہتری کی امید لگاتا تھا۔ مزدور طبقہ واضح طور پر جانتا ہے کہ یہ ادارے اس پر ظلم اور جبر کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور ان سے مزدور طبقہ کبھی بھی خیر کی توقع نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب مڈل کلاس کو اکثر یہ خیال ستانے لگتا ہے کہ ریاستی اداروں میں بیٹھے اعلیٰ ترین عہدیدار دراصل ان کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں اس لیے ان کے ملازم ہیں۔ یہ تمام تر ابہام تھانے یا عدالت کے چکر لگانے کے بعد ہی ٹھیک ہو پاتے ہیں جیسے آج کل تحریک انصاف کے بہت سے نازک اندام کارکنان بھگت رہے ہیں۔ ان افراد کو یہ بھی خبط سوار تھا کہ چونکہ وہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے خود ساختہ ”انقلابی“ اقدام اٹھانے لگے ہیں اس لیے پولیس اور فوج کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف کے ایک مشہور نظریاتی کارکن کے بقول اگر پولیس انہیں مارے گی تو وہ انقلاب کیسے لائیں گے۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں واضح ہوگیا کہ ریاستی اداروں نے ان کے نازک جذبات کا احترام نہیں کیا اور انہیں شدید ٹھیس پہنچائی۔
لیکن مزدور طبقے میں کسی بھی ریاستی ادارے اور سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی کے بارے میں کوئی ابہام موجود نہیں۔اگر کہیں کوئی ابہام تھا بھی تووہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ درحقیقت اس پورے ریاستی ڈھانچے کی سماج میں موجود بنیادیں منہدم ہو رہی ہیں جو درحقیقت اس سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ موجودہ ریاست اور اس کے تمام اداروں کا حتمی مقصد سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ اور ان کی حکمرانی کو قائم رکھناہے اور وہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب تک مزدور طبقے کے استحصال پر مبنی یہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست قائم رہے۔
مزدور طبقے کی بقا اور نجات کا واحد رستہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہے۔ مزدور طبقہ جب انقلابی تحریک میں باہر نکلے گا تو اسے حکمران طبقے کے کسی دھڑے کی مدد درکار نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس نظام اور ان تمام حکمرانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے باہر نکلے گا۔ مزدور طبقہ جب اپنے لیے ایک طبقہ بنتا ہے تو وہ پورے سماج کو بند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی عظیم طاقت کے سامنے بڑی سے بڑی سامراجی طاقت اور ریاستی قوت بھی تنکوں کا ڈھیر ثابت ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں صرف حکومت کی تبدیلی کے لیے ساز باز نہیں ہوتی بلکہ تاریخ کا دھارا بدلنے کے لیے قدم اٹھائے جاتے ہیں۔ ایسے ہی انقلابی ادوار میں سرمایہ دارانہ نظام ختم کرنے کے فیصلے لیے جا سکتے ہیں۔ صرف اس نظام کے خاتمے سے ہی مزدور کی محنت کی لوٹ ختم ہو سکتی ہے اور مزدور طبقہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی اشیا کی ملکیت حاصل کر سکتا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کو ختم کر کے ہی ترقی و خوشحالی پر مبنی سماج قائم کیا جا سکتا ہے جس میں ہر قسم کے ظلم و جبر کا خاتمہ ہو اور ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، رہائش، علاج اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا مزدور ریاست کی اولین ذمہ داری ہو۔