سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت پاکستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری سے لے کر پانی اور بجلی کے بحران تک زندگی کا ہر شعبہ بد ترین زوال پذیری کا شکار ہے اور تیزی سے انہدام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اضافے ہو چکے ہیں جبکہ یہ طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور اس سے بہت زیادہ بڑے اضافے متوقع ہیں۔ روپے کی قدر بھی گر رہی ہے اور یہ کسی وقت بے قابو بھی ہو سکتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والی گرمی کی شدید لہر نے پہلے سے تباہ حال عوام کو مزید تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ایک طرف درجہ حرارت تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ رہا ہے جبکہ دوسری جانب بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث عوام کی اکثریت پنکھے کی سہولت سے بھی محروم ہے جبکہ پینے اور استعمال کا پانی حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے جہاں صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں وہاں پانی کی کمی اور درجہ حرارت میں اضافہ زراعت کو بھی تباہی کے کنارے لا چکا ہے۔ گرمی کی شدت کے باعث پہلے گندم کی فصل متاثر ہوئی اور اب کپاس کی فصل ہو رہی ہے اور پاکستان پہلے ہی گندم امپورٹ کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر اس سال گند م سمیت دیگر اجناس کی شدید قلت کی پیش گوئی ہے جس کی وجہ یوکرائین اور روس کی جنگ کے باعث یہ اجناس ایکسپورٹ کرنے والے سب سے بڑے ممالک پر پابندیاں ہیں۔ اس قلت سے پاکستان بھی شدید متاثر ہو سکتا ہے اور انتہائی ضروری خوراک کی اشیا کی قیمتیں عوام کی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہو سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر اس سال بھوک سے لاکھوں اموات ہونے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ زراعت کے لیے دستیاب پانی میں اس سال 60 فیصد تک کی کمی کے باعث کپاس اور چاول کی فصل کے لیے پانی کی شدید قلت ہے جس کے باعث یہ پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ رجحان بھی شدت اختیار کرے گا اور عالمی سطح پر موجود مختلف تحقیقی رپورٹس کے مطابق آئندہ تین سالوں میں پاکستان مکمل طور پر خشک سالی کا شکار ہو جائے گا۔ اس دوران علاج اور تعلیم کی دستیاب سہولیات بھی بتدریج ختم کی جا رہی ہیں اور ان انتہائی بنیادی نوعیت کے شعبوں کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ملک میں روزگار کی فراہمی میں یہ شعبے اولین نمبروں پر ہیں اور ان میں کٹوتیوں سے لاکھوں افراد کا روزگار داؤ پر لگے گا جبکہ ان شعبوں سے مستفید ہونے والے افراد بھی ان بنیادی سہولیات سے محروم ہو جائیں گے۔
دوسری جانب دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ ملک بھر میں جرنیلوں کے کاروبار تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ امیر ترین افراد کے لیے قائم ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹیاں او ر دیگر کاروبارتاریخ کے سب سے بڑے منافع بٹور رہے ہیں۔ زرعی زمینوں کو روندتے ہوئے تباہ کرنا ہو یا بے سہارا اور کسمپرسی کا شکار افراد کی زمینوں پر قبضہ کرنا ہو یہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں کسی قانون کی پرواہ نہیں کرتیں۔ سرمایہ داروں کے لیے رعایتی پیکج، ٹیکسوں میں چھوٹ اور دیگر مراعات بھی جاری و ساری ہیں اور 2700 ارب روپے سالانہ سے زائد کی سبسڈی بھی اس شدید ترین بحران کے دور میں دی جا رہی ہیں۔ حکومتی اخراجات میں بھی کوئی کمی نہیں کی گئی اور سرکاری افسران سے لے کر وزیروں، مشیروں، جرنیلوں اور ججوں کے لیے مہنگی ترین لگژری گاڑیاں اور دیگر مراعات بھوک سے مرتے ہوئے عوام کے پیٹ کاٹ کر ابھی بھی دی جا رہی ہیں۔ ایک جانب عوام کے لیے موت کا ننگا رقص ہے اور انہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ ”مشکل فیصلے“ کرنے ضروری ہیں تاکہ ملکی معیشت کو ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔ لیکن اسی ڈوبتی ہوئی معیشت میں حکمرانوں کی لوٹ مار تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور وہ عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ رہے ہیں اور ان زندگی کی ہر سانس پر ٹیکس لگا رہے ہیں۔”مشکل فیصلے“ کا اصل مطلب عوام پر مزید معاشی حملے کرنا اور اس دوران اپنی پرُ تعیش زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔
اس تمام عمل میں سرمایہ دارانہ نظام کو حتمی اور آخری بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور آئی ایم ایف یا دیگر بیرونی طاقتوں سے قرضوں کے حصول کے علاوہ کسی آپشن کو رد کر دیا جاتا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس نکتے پر متفق ہیں اور کوئی بھی تجزیہ نگار یا تبصرہ متبادل معاشی سماجی نظام کا تذکرہ نہیں کرتا۔ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں آئی ایم ایف سمیت تمام سامراجی مالیاتی اداروں کے خونی شکنجے کو توڑا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ملک میں موجود تمام بینکوں، صنعت کے کلیدی شعبوں اور بڑی جاگیروں کو عوامی ملکیت میں لینا ہو گا۔ اس ملک میں پیدا کی جانے والی تمام دولت کی منصفانہ تقسیم کے عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔ امیر اور غریب کی تفریق کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ تمام تر انتظامی امور حکمران طبقے کے مسلط کردہ نمائندوں سے چھین کر عوام کو اپنے ہاتھ میں لینا ہونگے۔ اس ملک کی سیاست کو سرمایہ داروں اور ان کے گماشتوں سے چھین کر عوام کے ہاتھ میں دینا ہوگا۔ اس ملک کی معیشت کے فیصلے اگر آئی ایم ایف اور سامراجی طاقتوں کے گماشتوں کے ہاتھوں میں رہے تو یہ محنت کش طبقے کو بھوک اور ذلت کی دلدل میں ہی دھکیلتے رہیں گے۔ یہ تمام فیصلے عوام کو اپنے کنٹرول میں لینے ہوں گے اور سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی منڈی کی معیشت کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت قائم کرنی ہو گی۔
سوشلسٹ معیشت کے تحت تمام سامراجی قرضے ادا کرنے سے انکار کر دیا جائے گا اورعوام دشمن قوتوں کے کیے گئے تمام معاہدوں کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیا جائے گا۔ تمام صنعتوں، معدنیات اور کلیدی شعبوں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے چلایا جائے گا اور تمام تر پیداوار منافع خوری سے آزاد ہوگی اور اس کا مقصد عوام کی ضروریات کی تکمیل ہوگا۔ نجی بجلی گھروں کو عوامی تحویل میں لیا جائے گا اور ان کی لوٹ مار اور سرکلر قرضہ ختم ہو گا۔ اسی طرز پیداوار کے تحت ملک میں موجود بجلی پیدا کرنے کے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بجلی سہولت چوبیس گھنٹے بلا تعطل مفت فراہم کی جا سکے گی۔ زرعی ادویات، کھاد اور مشینری سمیت تمام سہولیات کی سرکاری سطح پر مفت فراہمی کے ذریعے زرعی پیداوار کو کئی گنا بڑھایا جا سکتاہے اور ملک کی خوراک کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ ملک میں موجود وسائل استعمال کر کے ہر شخص کو روٹی کے ساتھ ساتھ کپڑا اور مکان بھی ریاست کی جانب سے فراہم کیا جا سکتا ہے جبکہ علاج اور تعلیم سے بھی منافع خوری اور نجی شعبے کا تسلط ختم کر کے ہر شخص کو سوشلسٹ ریاست کی جانب سے یہ سہولیات مفت فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں اور پارلیمنٹ میں بیٹھے سرمایہ داروں کے گماشتوں کی حاکمیت ختم کرکے مزدور طبقے کی حاکمیت پر مبنی نیا سیاسی، انتظامی نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اس ملک کے محنت کشوں کو ایک منظم سیاسی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے اور خود کو منظم کرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کے خلاف طبقاتی جنگ کا آغاز کرنا ہوگا۔ سوشلسٹ نظریات سے لیس کارکنان پر مشتمل ایک انقلابی پارٹی ان کی راہنمائی کر سکتی ہے اور سماجی بربادی کے اس عذاب سے انہیں ہمیشہ کے لیے نجات دلا سکتی ہے۔