پوری دنیا میں حکمران طبقہ محنت کش عوام پر اپنا جبر مسلسل بڑھاتا جا رہا ہے، اس کے لیے نئے ہتھکنڈوں کو آزمایا جا رہا ہے اور ظلم کا شکنجہ مزید کسا جا رہا ہے۔ واضح نظر آرہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بدترین زوال میں حکمران طبقہ اب دنیا بھر میں پرانے طریقوں سے اپنا کنٹرول قائم نہیں رکھ پا رہا اور ہر طرف اسے عوام کی نفرت اور انتقام کا سامنا ہے۔ کرونا وبا نے اس نظام اور اس کے رکھوالوں کے خون آلود چہرے سے نقاب ہٹا دیا ہے اور واضح ہو چکا ہے کہ یہ حکمران اپنے منافعوں کی ہوس کے لیے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔ ویکسین بنانے والی کمپنیاں سینکڑوں ارب ڈالر کے منافع کمانے کے باوجود اس ویکسین کی ملکیت کے حقوق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور نہ ہی کسی بھی ملک کا حکمران طبقہ ایسی کسی قانون سازی کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایک ایسی ہی کمپنی کے مالک نے کہا تھا کہ اگر ہم نے یہ جدید ترین فارمولاسب کے لیے کھول دیا تو پھر کینسر سے لے کر دل کی بیماریوں تک کا علاج ہرکسی کو انتہائی سستا اور بآسانی دستیاب ہوگا اور وہ کمپنی ان امراض سے منافع نہیں کما سکے گی۔ صرف اسی بیان سے واضح ہے کہ نجی ملکیت پر مبنی اس نظام کو ختم کرنے کے علاوہ ان خون آشام بھیڑیوں سے نجات کا کوئی رستہ نہیں۔ ان بھیڑیوں کے محافظ تمام سرمایہ دارانہ ممالک کے حکمران ہیں جو اس منافع خور سرمایہ دار طبقے کے ملازم کے طور پر کام کرتے ہیں اور مزدور دشمن پالیسیوں کو پولیس اور فوج کے جبر کے ذریعے عوام پر مسلط کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ یہاں بھی حکمران طبقے کا جبر بھی بڑھتا جا رہا ہے اور لوٹ ماربھی۔ ایک طرف سرکاری ہسپتالوں کو بیچا جا رہا ہے، ادویات کی قیمتوں میں 500 فیصد تک اضافہ بغیر کسی روک ٹوک کے کر دیا جاتا ہے اور وزیر اس میں پیسہ کھاتے ہیں، کرونا فنڈ میں ایک جرنیل بارہ سو ارب روپے کھا کر فرار ہوجاتا ہے اور کوئی حساب لینے والا نہیں جبکہ لاکھوں لوگ بغیر علاج کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف کم تنخواہوں اور غیر ضروری طور پر طویل اوقات کار کا گلہ کرتے ہیں اور مشکل ترین حالات میں کام کرنے کے باوجود سڑکوں پر پولیس کے جبر اور تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ لیکن حکمران طبقات کی ترجیحات اس تمام تر عرصے میں سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس کو پورا کرنا ہے جس کے لیے سینکڑوں ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو عوام کے ٹیکسوں کاسینکڑوں ارب روپیہ مال مفت سمجھ کر دیا جاتا ہے جبکہ وہ کمپنیاں اس سماج پر ایک بوجھ بن چکی ہیں جنہیں فوری طور پر نیشنلائز کر کے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح علاج اور تعلیم سمیت بنیادی ضرورت کے تمام شعبوں سے پیسے کاٹ کر نام نہاد دفاعی بجٹ میں ہر سال بڑا اضافہ کر دیا جاتا ہے جو اب کم از کم 1800 ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ سپلیمنٹری گرانٹس اور دیگر طریقوں سے بھی اس مد میں بڑے پیمانے پر اخراجات کیے جاتے ہیں جن میں ایک بڑا حصہ اسلحے کی خریداری کے دوران کرپشن، کک بیکس اور کمیشنوں کی نذر بھی ہوجاتا ہے۔ عالمی سود خور مالیاتی اداروں کو سالانہ بجٹ کا تقریباً نصف ادا کرنے کے بعد سب سے زیادہ اخراجات انہیں غیر پیداواری شعبوں پر کیے جاتے ہیں جبکہ عوام کو بھوک، بیماری اور جہالت کے اندھیروں میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ترقیاتی اخراجات بھی وزیروں اور ٹھیکیداروں کو نوازنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور ان کا عوام کی ترقی و خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں۔
آنے والا سال بھی مختلف نہیں ہوگا بلکہ اس میں بھی صحت اور تعلیم کے پہلے ہی انتہائی کم ترین بجٹ میں مزید کٹوتیاں لگائی جا رہی ہیں، پنشنوں پر حملہ کیا جا رہا ہے جس سے لاکھوں بوڑھے افراد اور خاندان شدید متاثر ہوں گے، تنخواہوں میں افراط زر کی مناسبت سے اضافہ نہیں کیا جائے گا جبکہ بڑے پیمانے پر مزید چھانٹیوں اور نجکاری کا آغاز کیا جا رہا ہے جس سے لاکھوں مزید افراد بیروزگار ہوں گے۔ مزدوروں کی حقیقی اجرتوں میں مہنگائی کے تناسب سے پہلے ہی کئی دہائیوں سے مسلسل کمی ہو رہی ہے اور آنے والے عرصے میں مزید کمی ہو گی جبکہ امیر ترین افراد کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ پہلے ہی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ملک کی چالیس فیصد آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے جبکہ حقیقت میں یہ تناسب اس سے دو گنا کے قریب بنتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کروڑوں لوگ بھوک اور بیماری کے باعث موت کے منہ میں جا رہے ہیں لیکن حکمران طبقے کی عیاشیاں پہلے کی طرح جاری ہیں۔
اس سارے عمل میں حکمرانوں کے خلاف ابھرنے والی نفرت کو کچلنے کے لیے مسلسل نئے ہتھکنڈے اور قوانین تیار کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پابندی کے سخت قوانین منظور کیے جا رہے ہیں جبکہ سرمایہ دار طبقے کے کنٹرولڈ اور نمائندہ میڈیا پر پہلے ہی مزیدسخت پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں اور اب بھوک اور بیماری سے مرنے والوں کی خبر نشر کرنا ان حکمرانوں کے مطابق ملکی سا لمیت کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح حکمرانوں، خصوصاً جرنیلوں کی کرپشن، لوٹ مار، زمینوں پر قبضوں اور دیگر ایسے ہی جرائم کی خبروں کو چھپایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مزدوروں کی تحریکوں کی خبروں کو بھی بری طرح کچلا جاتا ہے اور ان کی اجرتوں میں اضافے اور دوسرے حقوق کی جدوجہد کو منظر عام پر لاناسرمایہ داروں کے گماشتہ میڈیا کے لیے گناہ کبیرہ ہے۔ اسی طرح سیاسی کارکنوں اور جمہوری حقوق کی جدوجہد کرنے والوں پر ہونے والے جبر کو منظر عام پر لانے سے بھی ملک کی نظریاتی بنیادیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ طلبہ کا امتحانات سے متعلق کوئی احتجاج ہو یا خود کو منظم کرنے کی کوئی کوشش، اس کو بھی ریاستی ادارے ایسے کچلنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کسی دشمن ملک کی چوکی پر حملہ کر رہے ہوں۔ سب سے بد ترین جبر اور تشدد صنعتی مزدوروں کے احتجاجوں پر ہوتا ہے جنہیں معمولی پولیس اہلکار سے لے کر جرنیل تک سب زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے سے زیادہ اہم نہیں سمجھتے اور ان کی زندگیاں حکمرانوں کے لیے مکھی اور مچھر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرین میں آگ لگنے سے جل کر مر جائیں یا فیکٹری میں آتشزدگی یا چھت گرنے سے، حکمرانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی لیکن مریم نواز یا بلاول کو چھینک بھی آ جائے تو سارا میڈیا لرز اٹھتا ہے۔
حکمرانوں کا بڑھتا ہوا جبردوسری جانب یہ بھی واضح کر رہا ہے کہ ان کا نظام آخری سانسیں لے رہا ہے اور وہ اب بد ترین جبر اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ نہیں سکتے۔ مذہبی، قومی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو بھی بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے جو برطانوی سامراج کی بنائی ہوئی اس سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیادہیں تاکہ محنت کش عوام کی نفرت حکمران طبقے سے موڑ کر باہمی چپقلشوں اور نان ایشوزکی جانب مبذول کروائی جائے، لیکن اس میں بھی انہیں پہلے جیسی کامیابی نہیں مل رہی اور امیر اور غریب کی کشمکش سطح پر ابھر رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں حکمران اس جڑت کو توڑنے کے لئے مزید حملے کریں گے اور اپنے آزمودہ ہتھیاروں سے لیس رجعتی قوتوں کو پوری ریاستی طاقت کے ساتھ ابھارا جائے گا۔
رات کا آخری پہر سب سے تاریک بھی ہوتا ہے لیکن اس کے بعد ایک سحر نمودار ہوتی ہے جو اس گھنی تاریکی کو چیرتے ہوئے ایک نئی صبح کا پیغام دیتی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے مزدوروں، کسانوں اور طلبہ پر ہونے والے بد ترین مظالم بھی اسی سحر کی نوید دے رہے ہیں۔ محنت کش طبقہ ان مظالم کا فیصلہ کن جواب سوشلسٹ انقلاب سے ہی دے سکتا ہے جس کے لیے حالات تیزی سے تیار ہو رہے ہیں۔