فلسطین پر مسلط کی گئی حالیہ اسرائیلی بربریت میں پندرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ 7 اکتوبر سے شروع ہونے والے اس حملے میں غزہ کی پٹی میں رہنے والے پچیس لاکھ کے قریب فلسطینیوں کے لیے زندگی جہنم بنا دی گئی ہے۔ ہزاروں کے قریب عمارتیں تباہ کر دی گئی ہیں جس کے باعث لاکھوں افراد بے سر و سامانی کے عالم میں رہنے پر مجبور ہیں۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کا نام لینے والی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے اسرائیلی حملے میں ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ہسپتال میں موجود زخمیوں اور ڈاکٹروں کو بھی بمباری کے ذریعے شہید کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی صیہونی ریاست کی بربریت کی امریکی سامراج سمیت تمام مغربی ممالک نے کھل کر حمایت کی ہے اور فلسطینیوں کو اس بربریت کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ بچ جانے والوں کو بھوک اور بیماری کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ اب انہیں ان کی زمین سے بھی بے دخل کر کے مصر کے صحرائی علاقے میں زبردستی دھکیلا جا رہا ہے۔ غزہ کی پٹی کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں موجود فلسطینیوں کے گھروں پر بھی صیہونی آبادکاروں کے حملوں میں شدت آگئی ہے اور وہاں بھی بڑے پیمانے پر اسرائیلی فوج کی مدد سے یہ آباد کار قتل وغارت کر رہے ہیں اور مقامی افراد کو ان کے گھروں سے بیدخل کر رہے ہیں۔
مغربی سامراجی طاقتوں کی طرح مشرقِ وسطیٰ میں موجود ان کے گماشتہ حکمران بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور فلسطینیوں کی قتل و غارت روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کر رہے۔ اس ہولناکی اور سفاکی نے پوری دنیا کے حکمران طبقے کی انسانیت سوز حقیقت بے نقاب کر دی ہے اور واضح ہو چکا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس پر براجمان حکمرانوں کے لیے ہزاروں انسانوں بالخصوص معصوم بچوں کا خون بہنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ان کے لیے ان کا اقتدار، دولت کی ہوس اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات اہم ہیں اور اس کے لیے لاکھوں انسانوں کی بلی بھی چڑھانی پڑے تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن دوسری جانب اسرائیل کے حکمرانوں کے ان بہیمانہ مظالم کے خلاف پوری دنیا میں کروڑوں لوگ سراپا احتجاج ہیں اور ان سفاک حکمرانوں کے خلاف تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج کر رہے ہیں۔ امریکہ کے درجنوں شہروں میں لاکھوں افراد نے احتجاج کیا ہے جس میں دارالحکومت واشنگٹن میں ہونے والا لاکھوں کا احتجاج اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں لوگوں نے وائٹ ہاؤس میں گھسنے کی کوشش کی اور امریکی صدر بائیڈن کو اس بربریت کے جرم میں گھسیٹ کر باہر نکالنے اور سزا دینے کی کوششیں کی۔ اسی طرح لندن میں آٹھ لاکھ افراد کا احتجاج ہوا اس کے علاوہ بھی برطانیہ کے تمام شہروں میں لاکھوں افراد کے احتجاج ہوئے جو پورا مہینہ جاری رہے۔ فرانس، جرمنی، سپین، سویڈن سمیت یورپ کے تمام ممالک میں لاکھوں افراد نے فلسطین کی آزادی کے نعرے لگائے اور اپنے اپنے ملک کے حکمرانوں کی شدید مذمت کی۔ اس احتجاجی تحریک نے حکمرانوں کو خوفزدہ کر دیا اور انہوں نے ان احتجاجوں پر نہ صرف مختلف پابندیاں لگانے کی کوششیں کیں بلکہ مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اسی طرح ان مظاہرین کے خلاف غلاظت سے بھرپور میڈیا کمپین کی گئی اور انہیں دہشت گردی کے جرم میں چودہ سال قید کی سزا دینے تک کے مطالبات بھی کیے گئے۔ لیکن اس کے باوجود یہ تحریک بڑھتی ہی رہی۔ ان احتجاجوں میں ہر مذہب، رنگ، قوم اور زبان بولنے والوں نوجوانوں اور محنت کشوں نے حصہ لیا۔ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے بھی ان احتجاجوں میں حصہ لیا اور اسرائیل کے صیہونی حکمران طبقے کی بھرپور مذمت کی۔
عرب ممالک بشمول مصر اور اردن میں بھی لاکھوں افراد نے فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے اور اپنے اپنے ملک کے حکمران طبقے کی بھرپور مذمت کی۔ کچھ ممالک میں تو امریکی سفارت خانوں کو آگ لگا دی گئی یا ان پر حملے کیے گئے۔ انہی مظاہروں کی وجہ سے امریکی وفد کا ایک دورہ بھی منسوخ کرنا پڑا کیونکہ عرب حکمرانوں کو خوف تھا کہ مظاہرین اس وفد پر حملہ کر کے اس کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
فلسطین کا مسئلہ گزشتہ سات دہائیوں سے سلگ رہا ہے اور عالمی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے نہ صرف اسرائیل کی سامراجی و صیہونی ریاست کو مصنوعی طور پر 1948ء میں اس خطے میں نہ صرف مسلط کیا گیا بلکہ اس کی بھرپور مالیاتی اور عسکری امداد کے ذریعے اس کو پروان بھی چڑھایا گیا۔ اس دوران فلسطین کی آزادی کے لیے بھی جدوجہد جاری رہی اور سامراجی طاقتوں اور عرب ممالک کے حکمرانوں کی مخالفت کے باوجود یہ کسی نہ کسی شکل میں آگے بڑھتی رہی۔ ماضی میں فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی قیادت بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے افراد کر رہے تھے اور فلسطینی عوام کی اکثریت بھی انہی کمیونسٹ یا سیکولر عرب قوم پرست قیادتوں کی حمایت کرتی تھی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بائیں بازو کی یہ قیادتیں سٹالنسٹ نظریات کے زیر اثر فلسطین کی قومی آزادی کی جدوجہد کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل کے ساتھ جوڑنے میں ناکام رہیں۔1987ء میں پہلے انتفادہ کے دوران انہیں بھرپور موقع ملا تھا کہ وہ فلسطینی عوام کی اس انقلابی تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل کی جانب لے جا سکتے تھے۔ لیکن درست نظریات اور لائحہ عمل نہ ہونے کے باعث انہوں نے اس تاریخی موقع کو ضائع کر دیا اور اوسلو معاہدے کے فریب کا شکار ہو کر امریکی سامراج اور اسرائیلی حکمران طبقے سے دو ریاستی حل کامعاہدہ کر بیٹھے۔ پچھلی تین دہائیوں سے عالمی سطح پر فلسطین کے دو ریاستی حل کا ڈھنڈورا پوری شدت کے ساتھ پیٹا گیا لیکن آج فلسطین کے عوام جان چکے ہیں کہ یہ ایک دھوکے اور فراڈ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسرائیل کی سامراجی ریاست کی موجودگی میں فلسطین کی الگ اور آزاد مستحکم ریاست کا وجود ہی ممکن نہیں۔ دو ریاستی حل کی حقیقت وہی ہے جو آج غزہ میں رہنے والے لاکھوں لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسری جانب حماس اور دیگر مذہبی بنیاد پرست تنظیموں کی مسلح کاروائیوں سے بھی آزادی کی منزل قریب آنے کی بجائے دور ہی جا رہی ہے۔ حماس اور دیگر مذہبی تنظیمیں بھی سرمایہ دارانہ نظام پر ہی پختہ یقین رکھتی ہیں اور اسی کی حدود میں رہ کر ہی حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس کے لیے پھر سرمایہ دار طبقے کی چوکھٹ پر ہی سجدہ کرنا پڑتا ہے۔ سرمایہ داروں اور ان کی ریاستوں کے لیے مذہبی، قومی اور لسانی تنازعات نہ صرف منافع بخش ہوتے ہیں بلکہ محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کے لیے بھی کارآمد اوزار کا کام کرتے ہیں۔ اس لیے وہ کبھی بھی ایسے تنازعات کو حل نہیں ہونے دیتے اور جلتی پر تیل ڈالتے رہتے ہیں اور اپنے منافع نچوڑتے رہتے ہیں۔
فلسطین کی آزادی کا حصول سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ممکن نہیں۔ اس کے لیے فلسطین میں ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہدکو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس جدوجہد میں پورے خطے کے محنت کش طبقے کو ساتھ جوڑتے ہوئے تمام ممالک کے حکمرانوں کے خلاف ایک منظم قوت تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے مظلوم عوام کو عرب ممالک کے انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کو ساتھ جوڑتے ہوئے ان ممالک میں موجود سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جانب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں رہنے والے ایسے لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کو ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے جو اپنے حکمرانوں سے تنگ ہیں اور ان کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ تمام جدوجہد منظم کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک درست انقلابی نظریے پر عبور حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے خطے کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے ذریعے ہی اسرائیل کی سرمایہ دارانہ ریاست کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس سوشلسٹ فیڈریشن میں ہی مذہبی اور قومی جبر کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگ مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ اس سوشلسٹ فیڈریشن میں نہ صرف امیر اور غریب کی تقسیم کا خاتمہ ہوگا بلکہ ہر قسم کے مذہبی اور قومی جبر کا بھی خاتمہ ہوگا اور مقامی افراد کو زمینوں سے بیدخل کر کے ان کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے عمل کا بھی مکمل خاتمہ ہوگا۔ دوسرے ممالک میں ہجرت کرنے والے تمام فلسطینی واپس آ سکیں گے اور اس خطے میں امریکی سامراج کے مفادات کی خاطر جنگیں اور خونریزی برپا کرنے والے گماشتوں کی حکمرانی کا خاتمہ کر کے محنت کش خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کر سکیں گے۔ فلسطین کا سوشلسٹ انقلاب پورے خطے کے محنت کشوں کو انقلاب کا پیغام دے گا اور پورے مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی جدوجہد تیز ہو گی جو پھر عالمی سوشلسٹ انقلاب کا پیش خیمہ بنے گی۔ دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!