نئے سال کے آغاز پر مزدور طبقہ بحرانوں کے طوفان میں گھرا ہوا ہے اور مشکلات بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ مہنگائی کا طوفان ہر روز نئے حملے کر رہا ہے جبکہ بیروزگاری کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جا رہا ہے۔ پورے ملک میں صنعتیں بڑے پیمانے پر بند ہو رہی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مزدور اپنی آمدن کے تھوڑے بہت ذرائع سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشی بحران اور دیوالیہ پن کے باعث حکمران نجکاری کے حملوں میں بھی اضافے کرتے چلے جا رہے ہیں، جس کے باعث سرکاری ملازمین کی بھی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو رہی ہے۔ دوسری جانب جو لوگ کسی نہ کسی طرح روزگار کے سلسلے کوقائم رکھے ہوئے ہیں ان کی بڑی تعداد بھی کئی کئی مہینے تنخواہوں کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہے اور اس کے بعد بھی چھ مہینے سے ایک سال کی تنخواہوں کی ادائیگی کئے بغیر انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی انتہائی مشکل ہو چکی ہے اور مزدور طبقہ مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔
ان سلگتے ہوئے مسائل پر کوئی بھی سیاسی پارٹی اور قیادت گفتگو تک کرنے کے لیے تیار نہیں اور درحقیقت تمام سیاسی پارٹیاں مزدور دشمن اقدامات کو ہی جاری رکھنے پر یقین رکھتی ہیں۔ اس لیے مزدور وں کے لیے ان مسائل کے حل کے لیے خود آگے بڑھ کر جدوجہد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ابھی تک مختلف شہروں میں ایک فیکٹری یا ادارے سے نکالے جانے والے مزدور اپنی بحالی یا تنخواہوں کی جدوجہد کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ نجکاری کے خلاف جدوجہد بھی محکمے یا ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر ایک دوسرے سے الگ الگ ہی جاری رہی ہیں۔ گزشتہ سالوں میں اگیگا اور دیگر پلیٹ فارمز سے کچھ عرصے کے لیے مشترکہ جدوجہدیں دیکھنے میں آئیں جنہیں کامیابیاں بھی ملیں اور اس لڑائی میں سرکاری ملازمین اپنی تنخواہیں بڑھانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن تنخواہوں میں ان اضافوں کے بعد پھر مہنگائی کے طوفان نے صورتحال پہلے سے بھی بدتر کر دی ہے اور افراط ِ زر کے تناسب سے حقیقی اجرتیں پہلے سے بھی کم ہو گئیں۔اس دوران مزدور دشمن قوتیں مزدور تنظیموں کی جڑت میں بھی رکاوٹیں ڈالنے میں کامیاب ہوئیں یا پھر عدالتوں اور دیگر اداروں سے جعلی امیدیں بندھوا کر تحریکوں کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی۔
لیکن اب ان تمام تر تجربات سے سیکھتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور ملک گیر سطح پر مزدور تحریک کو اپنے مطالبات کے حصول کی جدوجہد کو از سر نو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ عرصے کے تجربات سے یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ صرف اجرتوں میں اضافے، سکیل اپ گریڈیشن اور دیگر معاشی مطالبات تک محدود رہنے کی بجائے حکمران طبقے کی مزدور دشمن سیاست و معیشت کے خلاف بھی لڑائی کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح ہو چکا ہے کہ حکمران طبقے کی تمام سیاسی پارٹیاں اگر ایک ہاتھ سے تنخواہوں میں معمولی اضافہ کرتی ہیں تودوسرے سے ٹیکسوں میں اضافے اور دیگر ذرائع سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہیں۔ دوسری جانب سرمایہ دار طبقے پر نہ صرف ٹیکسوں میں کٹوتیاں کی جاتی ہیں بلکہ سبسڈیوں کے کھربوں روپے کے پیکجز کے اعلانات بھی کیے جاتے ہیں۔ یہ اعلانات کرتے وقت بھی مزدوروں کی ہمدردی کا چورن بیچا جاتا ہے لیکن درحقیقت ایک طویل عرصے سے مزدوروں کی حقیقی اجرتیں مہنگائی کے تناسب سے مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ اگر پچھلے بیس سال میں سونے کی قیمت اور کم از کم اجرت کے تناسب کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ حقیقی اجرت میں کتنے بڑے پیمانے پر کمی ہو چکی ہے یا دوسرے الفاظ میں سرمایہ دارطبقے کا منافع کتنے بڑے پیمانے پر بڑھ چکا ہے۔ سرمایہ دار کی دولت جتنی بڑھتی جاتی ہے وہ اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے اور پوری قوت کے ساتھ مزدور طبقے پر مزید حملے کر کے اس کے استحصال میں اضافہ کرتا ہے۔ یہی کچھ ہم یہاں کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں، جس میں نہ صرف مزدور یونینیں بتدریج ختم کر دی گئی ہیں بلکہ ہفتہ وار چھٹی، آٹھ گھنٹے کام، پنشن، سوشل سکیورٹی اور دیگر بنیادی حاصلات جو مزدور طبقے نے ایک لمبی لڑائی کے بعد حاصل کی تھیں آج ختم ہو چکی ہیں۔
اس لیے آج مزدور طبقے کو حکمران طبقے کے خلاف اجرتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دیگر ریڈیکل سیاسی، معاشی و سماجی مطالبات رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور حکمران طبقے کی تمام تر سیاست کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامراجی اور معاشی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس نظام کے تحت بننے والی تمام تر معاشی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے جس میں عوام پر ٹیکسوں پر اضافے سمیت علاج اور تعلیم کی سہولیات پر حملے شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس مزدور دشمن ریاست کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے خلاف بھی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ ریاست سامراجی گماشتگی کے ذریعے کبھی دہشت گرد تنظیموں کو پروان چڑھاتی ہے اور کبھی ان کے خلاف آپریشن کے نام پر لوٹ مار کے نئے دور کا آغاز کرتی ہے۔ دہشت گردی سمیت مذہبی بنیاد پرستی اور دیگر عفریتوں کا خاتمہ صرف مزدور طبقے کی ایک منظم تحریک ہی کر سکتی ہے۔ بد عنوان حکمران اور ریاستی ادارے اتنے گل سڑ چکے ہیں کہ یہ سماج میں نیا زہر انڈیل تو سکتے ہیں اس کا تدارک نہیں کر سکتے۔ اسی طرح خواتین پر ہونے والے جبر کے خاتمے، فرسودہ رسومات اور سماجی گھٹن کے خلاف بھی مزدور تحریک کو منظم جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ محنت کش خواتین کا ایک بڑا حصہ اس سماجی جبر کا شکار ہے اور حکمران طبقے کے مرد اور خواتین کسی بھی طور مزدور طبقے کی خواتین کے ہمدرد نہیں۔ سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ کمزور کو نشانہ بناتا ہے اسی لئے اس سماج میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ ظلم اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کے حوالے سے بھی مزدور تحریک کو واضح پروگرام پیش کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ حکمران طبقے کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کا آغاز کیا جا سکے۔
اس وقت سیلاب اور معاشی بحران کی وجہ سے کسان بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی کا شکار ہیں اور پورے ملک کی خوراک کی ضروریات پیدا کرنے والے آج خود بھوک اور بیماری سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مزدور تحریک کا فریضہ ہے کہ نہ صرف ان کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے بلکہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم اور پروگرام تشکیل دیتے ہوئے جدوجہد کو منظم کیا جائے۔ اسی طرح ملک بھر میں مظلوم قومیتیں حکمران طبقے کے مظالم کے خلاف برسر پیکار ہیں اور وقتاً فوقتاً قومی جبر کے خلاف بہت بڑی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ مزدور تحریک انہیں ساتھ جوڑتے ہوئے ایک ملک گیر عوامی تحریک کی جانب پیش قدمی کرے۔ ان سب اقدامات کے لیے مزدور تحریک میں سوشلسٹ نظریات کا فروغ انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور انہی نظریات پر منظم ہو کر ان تمام مسائل کے خلاف ایک انقلابی جدوجہد آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ نظریات دوسرے ملکوں میں جاری انقلابی تحریکوں کے ساتھ یکجہتی کی بنیاد بھی بنتے ہیں اور پوری دنیا کے محنت کش طبقے کو یکجا کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔ انہی نظریات کے تحت ہی ایران میں جاری انقلابی تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا سکتا ہے اور افغانستان میں خواتین پر جاری طالبان کے مظالم کے خلاف مزاحمت بھی منظم کی جا سکتی ہے۔ یہی نظریات جہاں اس ملک کے حکمران طبقے کے اقتدار کے خاتمے کی بنیاد بنیں گے وہاں تمام سامراجی طاقتوں اور ان کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا آغاز بھی کریں گے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی مزدوروں کو تمام مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔ اس کے سوا تمام رستے مزید بربادی کا باعث ہی بنیں گے۔