پاکستانی ریاست اور معیشت اپنے بد ترین بحران سے گزر رہی ہے۔ حکمران طبقے کے اپنے اندر تضادات شدت اختیار کرتے ہوئے پھٹتے چلے جا رہے ہیں۔ ریاست کے مختلف دھڑے اپنی طاقت، اثر و رسوخ اور دولت میں اضافے کے لیے دوسروں کو مکمل طور پر کچل دینا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں پہلے سے موجود حدود پھلانگی جا رہی ہیں اور قتل و غارت گری پھیلتی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کوششوں میں اس کی مرتی ہوئی ساکھ کو پھر سہارا دیا جا رہا ہے اور اسے کراچی میں رہنے والوں پر دوبارہ مسلط ہونے کے لیے محرومی کا جواز مہیا کیا جا رہا ہے۔ دفاتر مسمار کر کے یا تالہ بندی کر کے کبھی کسی پارٹی کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ جن نظریات پر و ہ پارٹیاں بنائی جاتی ہیں ان کو ختم کرنا پڑتا ہے اور ان کا متبادل دینا پڑتا ہے۔ اور اس وقت کوئی بھی رائج الوقت پارٹی یہ متبادل دینے میں ناکام ہے۔ کراچی کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے والے حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک طبقاتی موقف کی ضرورت ہے۔ ایسامؤقف جو کراچی میں رہنے والے محنت کش طبقے کے تمام افراد کو بلا تفریق رنگ ‘ نسل ‘ قوم اور زبان کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے اور حکمران طبقے کے تمام دھڑوں کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کی جانب گامزن کرے۔ لیکن حکمران طبقات اور تمام سیاسی پارٹیاں لسانی اور قومی تعصبات کو مزید گہرا کرکے انہیں محنت کش طبقے کی جڑت کو توڑنے کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کے لیے چہروں کی تبدیلی سے ایک نئی پہلے سے زیادہ وحشت پھیلانے والی ایم کیو ایم بنانے کی کاوشیں تیزی سے جاری ہیں۔ دوسری جانب رینجرز کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی رینجرز ہے جس پر اسی سال فروری میں پی آئی اے کے ملازمین پر فائرنگ کا الزا م ہے جس کے نتیجے میں دو محنت کش شہید جب کہ کئی زخمی ہوئے تھے۔ ایسے سنگین الزامات کے باوجود ابھی تک کسی ذمہ دار شخص کیخلاف کاروائی نہیں ہوئی۔
دوسری جانب ملک کے وزیر اعظم سڑکوں کے افتتاح کرنے میں مصروف ہیں اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے پستا چلا جا رہا ہے اور ان قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ تیزی سے بڑھایا جا رہا ہے۔ چین سے اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے لیے ملنے والے 46ارب ڈالرکے قرضے اس قرضوں اورسود کے بوجھ کو دگنا کرنے کی جانب جائیں گے جس کو اٹھاتے اٹھاتے لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ جبکہ حکمران ان سے کمیشن حاصل کر کے بیرون ملک اپنے اثاثوں میں کئی گنا اضافہ کریں گے۔ چین کی سامراجی مداخلت کے باعث پاکستان کی صنعتیں پہلے ہی بڑے پیمانے پر بند ہو چکی ہیں اور لاکھوں محنت کش بیروزگار ہوئے ہیں۔ بجلی کے بحران کے باعث بند ہونے والی ہزاروں صنعتیں اسکے علاوہ ہیں۔ اسی دوران پاکستان کی برآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے جو جولائی میں گزشتہ سال کی نسبت تیس فیصد کم ہوئی ہیں۔ اسی طرح براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری(FDI) میں گزشتہ دو سال میں 77فیصد کمی آئی ہے۔ بیرونی ممالک میں رہنے والے تارکین وطن محنت کشوں کی بھیجی گئی رقوم میں بھی کمی آنا شروع ہو گئی ہے جو پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ برطانیہ سے بھیجی جانے والی رقوم میں ’’بریگزٹ‘‘ کے بعد سے 38فیصد کمی آئی ہے جبکہ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے باعث وہاں سے بھیجی جانے رقوم میں بھی 2ارب ڈالر سالانہ کمی آنے کے قوی امکانات ہیں۔ دوسری جانب قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ انتہائی بلند شرح سود پر مزید قرضے لینے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ جون 2015ء میں پاکستان پر کل قرضہ 19.8کھرب روپے تھا جو اب 22.4کھرب روپے ہو چکا ہے۔ ایسے میں ترقی اور استحکام کا کوئی تناظر نہیں۔ حکمران صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں پر مزید حملے کریں گے اور نجکاری کے عمل میں شدت آئے گی۔ لاکھوں مزید افرادکو بیروزگار کیا جائے گا۔ صنعتیں مزید بند ہوں گی اور مزدور دشمن قوانین اور کاروائیوں میں شدت آئے گی۔ مہنگائی، بیماری اور غربت میں اضافہ ہو گا۔ حکمران بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ذریعے نان ایشوز کی سیاست کو فروغ دیں گے جنہیں عوام کی اکثریت رد کر چکی ہے۔ اسی دوران ہندوستان کے ساتھ دشمنی کی نعرے بازی کو ہوا دی جائے گی۔ کشمیر اور افغانستان میں سامراجی مداخلت جاری رہے گی جس کے باعث سرحدوں پر تناؤ مزید بڑھے گا۔ ایسے میں تمام تر جبر کیخلاف محنت کشوں کی تحریکیں بھی جاری رہیں گی اور حکمران طبقے کی پالیسیوں کو چیلنج کرتی رہیں گی۔ ضرورت اس وقت ایک ایسی سیاسی قوت کی ہے جو تمام تر فروعی ایشوز کو رد کر کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے ایک واضح پروگرام دے ۔ ماضی کی تمام سیاسی پارٹیوں سے ایسی توقع کرنا بیوقوفی ہو گی ۔ اس وقت صرف ایک واضح سوشلسٹ پروگرام کے ذریعے ہی محنت کشوں کی بکھری ہوئی تحریکوں کو جوڑا جا سکتا ہے اور انہیں یکجا کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ منزل کی جانب سفر کو تیز کیا جا سکتا ہے جو اس سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے یہاں سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور سامراجی ایجنٹوں کی حکمرانی ختم کر کے محنت کش طبقے کی حکمرانی کو قائم کرے۔