کرپشن کے بغیر سرمایہ داری کا تصور نا ممکن ہے۔ دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی مثالیں دینے والے وہاں کرپشن اور سرمایہ داروں کی ٹیکس چوری کے واقعات کی پردہ پوشی کر تے ہیں ۔ وہ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ایک ایسا سماج اور فلاحی ریاست تخلیق کی جا سکتی ہے جس میں کرپشن اور بد عنوانی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ سراسر نا ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ تصور بھی جوڑا جاتا ہے کہ ایسے امیر افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے یا جن کے آباؤ اجداد نے بہت زیادہ محنت کی تھی اور کرپشن کے کسی سہارے کے بغیر امیر ہوئے ہیں۔ جبکہ جو لوگ غریب ہیں وہ اور ان کے آباؤ اجداد نکمے اور کام چور تھے۔ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ امیر لوگ خواہ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں ہوں یا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں وہ تمام محنت کشوں کااستحصال اور ان کی پیدا کی ہوئی دولت کو لوٹ کر امیر ہوئے ہیں۔ کارل مارکس نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’سرمایہ‘‘ کے باب ’ارتکاز سرمایہ‘ میں اس کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ جس کے مطابق دولت کے ارتکاز کے لیے ہر قسم کی چوری، ڈکیتی، راہزنی، غداری اور بدعنوانی استعمال کی گئی۔ مشہور فرانسیسی ادیب بالزاک نے کہا تھا کہ ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک بڑا جرم ہوتا ہے‘‘۔ دنیا کے امیر ترین افراد اور کمپنیاں ٹیکس چوری سے لے کرجنگوں، خانہ جنگیوں، فسادات اور دیگر بہت سے جرائم میں ملوث ہیں اور سرمایہ داری کی تاریخ میں ہمیشہ رہی ہیں۔ اسلحے کی فروخت کی غرض سے جنگوں کو برپا کرنے کے لیے سیاستدانوں کی خرید و فروخت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ عام طور پر ان جرائم کو میڈیا کی نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے لیکن سرمایہ داروں اور ریاستوں کی باہمی چپقلش اور زوال کے باعث کچھ جرائم منظر عام پر بھی آ جاتے ہیں۔ دنیا کی ایک بہت بڑی کمپنی ایپل کو گزشتہ ماہ ٹیکس چوری کرنے کے باعث ایک عدالت نے 13ارب یورو کا جرمانہ عائد کیا۔ اسی طرح امریکہ کی ایک عدالت نے گزشتہ ہفتے جرمنی کے سب سے بڑے بینک ڈیوٹشے کو 2008ء سے پہلے کی جانے والی ہیرا پھیریوں پر 14ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔ چین اور دیگر ممالک میں ہونے والی مالیاتی بد عنوانیوں کا حجم اس سے بھی زیادہ ہے۔ چین کے سابقہ صدر ہو جن تاؤ پر اربوں ڈالر کرپشن کے الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ پانامہ لیکس میں جہاں نواز شریف اور اس کے خاندان کی کرپشن منظر عام پر آئی وہاں چین کے موجودہ صدر کے ساتھ ساتھ یورپ کے بہت سے حکمرانوں کے نام بھی سامنے آئے جو ان ممالک میں ہونے والی کرپشن اور بدعنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اس خطے میں سرمایہ داری ایک انقلاب کے ذریعے نہیں آئی بلکہ برطانوی سامراج نے اس خطے میں سامراجی لوٹ مارکے لیے یہاں سرمایہ داری اور اس کے مختلف اداروں کو متعارف کرایا۔ اس کے علاوہ یہاں سرمایہ داری یورپ کے مقابلے میں کئی صدیاں تاخیر سے آئی اس لیے یہاں یورپ کے برعکس کبھی بھی ترقی پسندانہ کردار ادا نہیں کر سکی۔ اسی تاخیر زدہ اور سامراجی تسلط کے تحت پنپنے والے سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بھی ریاستی ادارہ صحت مند انداز میں نہیں پنپ سکا۔ حکمرانوں کی لوٹ مار اور سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل میں پھنسے عوام مسلسل اس استحصالی نظام اور خستہ حال ریاستی اداروں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اسی نظام کے زوال اور بوسیدگی نے کرپشن کو پورے سماج کا ایک لازمی حصہ بنا دیا ہے۔ اس وقت سماج کے ہر حصے میں کرپشن ایسے سرایت کر چکی ہے جیسے انسانی جسم میں خون۔ ایسے میں سرمایہ داروں کی لوٹ ماراور عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو برقرار رکھتے ہوئے کرپشن کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ سرمایہ داروں کی محنت کشوں کے استحصال، ٹیکس چوری اور بجلی و گیس چوری وغیرہ سے لوٹی ہوئی تمام دولت ضبط کرنی ہوگی، تمام سامراجی قرضے ضبط کرنے ہوں گے، معیشت کے تمام کلیدی شعبوں، تمام صنعتوں اور جاگیروں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہو گا۔ اور سب سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار اس ریاست کامکمل خاتمہ کر کے اور اس کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک مزدور ریاست قائم کرنا ہو گی۔ صرف ایک مزدور ریاست اور اس کے قائم کردہ ادارے ہی نہ صرف ملک سے لوٹی ہوئی تمام دولت واپس لا سکتے ہیں بلکہ آئندہ محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت لوٹنے کے تمام رستے بند کر سکتے ہیں۔ اسی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جو لوگ کرپشن کے خاتمے کی آواز بلند کرتے ہیں وہ درحقیقت کرپشن میں اپنا مطلوبہ حصہ نہ ملنے کا رونا روتے ہیں۔ وہ حکمران طبقات کے عوامی وسائل کی لوٹ مار پر بننے والے مختلف دھڑوں میں سے کسی ایک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عوام ان تمام دھڑوں اور ان کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کو رد کر چکے ہیں۔ سیاسی افق پر موجود یہ تمام جماعتیں اتنی خصی ہو چکی ہیں کہ اب عوام کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان یا بیروزگاری کے مکمل خاتمے جیسے بنیادی اہمیت کے نعرے بھی نہیں دے سکتیں۔ جبکہ عوام کی وسیع اکثریت ان بنیادی ضروریات کے لیے تڑپ رہی ہے ۔ کرپشن کے خاتمے سے لے کر روٹی اور روزگارکی فراہمی تک تمام بنیادی ضروریات صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے وقت کی فوری ضروت ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تعمیر ہے جو محنت کشو ں کی ابھرنے والی انقلابی تحریکوں کو یکجا کرتے ہوئے انہیں سرمایہ داری اور اس کی تمام غلاظتوں کے خاتمے تک لے جا سکے اوراس ملک میں ایک سرخ سویرا طلوع کرے!