ایک تحریک وہ ہے جس کی قیادت عمران خان کر رہا ہے۔ جسے میڈیا میں بہت زیادہ وقت دیا جا رہا ہے۔ چوبیس گھنٹے الیکٹرانک میڈیا میں اس کے متعلق گفتگو سننے کو ملتی ہے جبکہ پرنٹ میڈیا کی زیادہ تر سرخیاں اسی کے متعلق ہوتی ہیں۔اس تحریک کی معمولی ترین تفصیلات سے بھی عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔سیاسی افق پر موجود مختلف دیگر پارٹیاں بھی اس میں شمولیت کرنے یا نہ کرنے کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔پولیس کے کارکنان پر تشدد کو بھی اس تحریک کی تشہیر کے لیے بخوبی استعمال کیا گیا۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ملک میں بہت سے تحریکیں موجود ہیں جن کے متعلق میڈیا میں گفتگو کرنا تو درکنار ان کی خبر بھی نہیں آتی۔بلوچستان میں قومی آزادی کی تحریک کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں سامراجی تسلط برقرار رکھنے کے لیے ہزاروں بے گناہوں کو فوجی آپریشن کے دوران قتل کر دیا گیا لیکن کسی نے ان کی ایک سطر کی خبر دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔اسی طرح ملک کے تمام بڑے اداروں میں نجکاری کیخلاف محنت کشوں کی تحریکیں جاری ہیں جن کی بہت کم خبریں سننے کو ملتی ہیں۔اسی طرح نجی صنعتوں میں مختلف تحریکیں موجود ہیں جن میں پیپسی، کوکاکولا ، نیسلے اور یونی لیور جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کیخلاف محنت کش سراپا احتجاج ہیں اور اپنے حقوق کے لیے پولیس کے تشدد سے لے کر عدالتوں کے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی کبھی کوئی خبر سننے کو نہیں ملتی اور نہ ہی رائج الوقت کسی سیاسی پارٹی نے کبھی ان تحریکوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ ایک اور تحریک اس وقت کشمیر میں موجود ہے جہاں ہندوستانی افواج نے مظالم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں تاکہ کشمیر پر اپنا سامراجی تسلط برقرار رکھا جائے۔اس تحریک کے حوالے سے ایک مخصوص پراپیگنڈہ کے تحت خبریں سننے کو ملتی ہیں جس کے مطابق پاکستانی ریاست کشمیریوں کی خیر خواہ ہے۔ یہ پراپیگنڈہ گزشتہ تین دہائیوں سے سن کر بہت سے لوگوں کے کان پک چکے ہیں۔اس تحریک کو زائل کرنے کے لیے انفرادی دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کو پروان چڑھانے والی کاروائیوں کے متعلق کوئی خبر اور کوئی تبصرہ پڑھنے یا سننے کو نہیں ملتا۔ہر جانب سے ایک مخصوص نقطہ نظر کی یلغار ہے جس میں عوام کے ذہنوں کو حکمرانوں کے تابع رکھنے کے لیے کچھ تحریکوں کو مسخ کیا جاتا ہے، کچھ کو دبایا جاتا ہے اور کچھ کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
مارکسیوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ کسی بھی تحریک کے حقیقی کردار کو پہچانتے ہوئے اس کا درست تجزیہ کریں۔وہ تحریک جسے ریاست کا گماشتہ رجعتی میڈیا بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے درحقیقت ریاست کے مختلف دھڑوں کی لڑائی کا شاخسانہ ہے جس کا محنت کش عوام کی امنگوں اور خواہشات سے کوئی تعلق نہیں۔ایسا نہیں کہ محنت کش حکمرانوں کا احتساب نہیں کرنا چاہتے یا ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس حاصل نہیں کرنا چاہتے، وہ بڑی شدت سے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جس دن وہ اپنے اوپر کیے گئے تمام مظالم کا انتقام لیں گے اور ان کے خون اور پسینے سے پیدا کردہ دولت کو لوٹنے والے کو کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔ لیکن آج جن لوگوں کو لیڈر بنا کر پیش کیا جارہا ہے وہ کسی بھی صورت اس اہم ترین مقصد کے لیے ان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔وہ جانتے ہیں کہ یہ چوروں اور ڈاکوؤں کے مختلف ٹولے ہیں جو ایک دوسرے پر الزام لگا کر لوٹ مار میں اپنی باری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں چوروں اور ڈاکوؤں کے مختلف ٹولوں کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ صوبائی سطح پر تقریباً تمام ہی لوٹ مار میں مصروف ہیں اور جو مرکز میں نہیں وہ مرکز میں بھی حصہ لینا چاہتی ہیں، جبکہ جو موجود ہیں وہ یہ منصب چھوڑنا نہیں چاہتے۔یہی حال دیگر ریاستی ادارے میں بیٹھے افراد کا ہے جن سے جھوٹی امیدیں بندھوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔وہ بھی اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر کرپشن اور بد عنوانی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ان کا ’’اصولی ‘‘ اختلاف یہی ہے کہ ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی یا کسی سودے میں انہیں کتنا حصہ ملے گا۔اس لیے وہ ایسی سیاسی قوتوں کو پروان چڑھا کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ان نام نہاد تحریکوں میں عوام کی شمولیت بھی انتہائی کم ہے اور جو آتے ہیں ان میں سے بہت کم کسی امید ‘کسی نجات کی تلاش میں ہوتے ہیں زیادہ اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو کسی وقتی مفاد کی خاطر وہاں موجود ہوتے ہیں۔
ایسے میں مارکسیوں کو جعلی تحریکوں کا پردہ چاک کر کے ان تحریکوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں محنت کش عوام کے کسی بھی حصے کی بڑی اکثریت نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کے ذریعے اپنے حالات تبدیلی کرنے کی حقیقی جدوجہد کر رہی ہے۔کشمیر میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ نوجوان ریاستی جبر سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا چکے ہیں اور کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔نجکاری کیخلاف جاری تحریک میں ہمیں فروری میں نظر آیا کہ محنت کشوں نے کراچی ائیر پورٹ پرریاست کی اس مزدور دشمن پالیسی کو چیلنج کیا تو انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا جس میں دو محنت کش ہلاک ہو گئے۔لیکن دوسری جانب کرپشن کیخلاف نام نہاد تحریک ریاست اور اس کے تمام بوسیدہ اداروں پر اعتماد دلانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔اگر وہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو احتساب کیسے کریں گے؟ عدالتوں کے ذریعے، پارلیمنٹ کے ذریعے‘ فوج کے ذریعے یا نیب جیسے کسی ادارے سے۔ ان میں سے کوئی ادارہ بھی کرپشن سے پاک نہیں اوران اداروں میں کرپشن ایسے موجود ہے جیسے انسانی جسم میں خون۔ 2007ء میں بھی ہمیں ایسی ہی صورتحال نظر آئی تھی جب عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلائی گئی اور کہا گیا کہ ریاست ماں جیسی ہو جائے گی۔ ہم نے دیکھا کہ بالآخر وہ تحریک کامیاب ہو گئی اور چیف جسٹس بحال ہو گیا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؛ عوام کی مزید بربادی۔عدلیہ کے تمام تر تحرک کے نتیجے میں انصاف کے ریٹ میں اضافہ ہو گیا۔ یہی کچھ اس جعلی تحریک کا بھی مستقبل ہے اگرحکمران طبقے کے دھڑوں کی کشمکش میں ایک دھڑے کا پلڑا بھاری ہو بھی جاتا ہے اور یہ نام نہاد تحریک کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو صرف کرپشن کے ریٹ میں اضافہ ہی ہو گا۔حقیقی تحریکیں وہ ہیں جو اس ریاست اور اس کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو چیلنج کرتی ہیں۔یہ تحریکیں آج بکھری ہوئی شکل میں موجود ہیں ۔ معروضی حالات ان حقیقی تحریکوں کو وسعت اور گہرائی دینے کی جانب بڑھیں گے جس کے باعث یہ محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے اس گلی سڑی ریاست اور اس کے تمام اداروں کو چیلنج کریں گی ۔ ان تحریکوں کی کامیابی صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ جس میں اس ظالم ریاست اور عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ سمیت سب اداروں کو اکھاڑ کر ان کی جگہ مزدور ریاست کے ادارے قائم ہوں گے۔ صرف تب ہی کرپشن کا بھی خاتمہ ممکن ہے اورحکمران طبقے کے تمام افراد سے لوٹی ہوئی رقم بھی واپس لی جاسکے گی!