اس وقت پاکستانی سیاست اور صحافت میں سب سے زیادہ سپر ہٹ فلم ’’چھوٹو‘‘ ہے۔ اس فلم میں چھوٹو کو ولن بناتے بناتے کبھی کبھی ہیرو کے قریب پہنچا دیا جاتا ہے۔بیگانگی اور تشخص کے بحران کے شکار معاشرے میں نام و نمود اورسستی شہرت کو ہی کامیابی سمجھا جانے لگتا ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑ جائے۔ لکھاری و ہدایتکار سب چھوٹو سے محبت کرتے ہیں مگر ناٹک نفرت کا کر رہے ہیں۔اصل میں یہ محبت یا نفرت کے نہیں بلکہ ضرورت کے رشتے ہیں۔ میڈیا، حکومت اور اپوزیشن سب مل کر یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ چھوٹو گینگ ہے تاکہ اس کے خاتمے کے ساتھ ہی لاغر اور مفلوج ریاست کی رِٹ کی بحالی اور بیمار ومردار نظام کی ممکنہ صحت یابی پر دوبارہ بھاشن دیئے جا سکیں۔
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے خوش لباس اور خوش گمان دانشور، صحافی اور سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل سے کبھی بھی اور کسی بھی طرح توجہ ہٹائی جا سکتی ہے۔ عوام کو بیوقوف اور جاہل سمجھنا ہی آجکل کی دانش و سیاست کا طرہ امتیاز ہے۔ اس کی بڑی وجہ پیلے آسمان کی چمک دمک اور حقیقی زندگی سے ان کی لاتعلقی اور تفاوت ہے۔ یہ سادہ سی حقیقت یہ لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ دن بھر کے بھوکے بچے غباروں سے نہیں کھیلا کرتے۔ناسور بنتے ہوئے بے مرہم زخم دلاسوں اور امیدوں سے نہیں بہلتے۔ کئی مہینوں کا کرایہ قابلِ ادا ہو اور بال بچوں سمیت سڑک پر آنے کا ڈر ہو تو کھیل تماشے کسے اچھے لگتے ہیں۔راشن ختم ہو جائے اور دکاندار ادھار بند کر دے تو دھیان بھلا ادھر اُدھر کیسے جائے۔ بیروز گاری کی دلدل میں دھنسے نوجوانوں کو میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں سے کیا غرض۔ جن کے پاس بچوں کے سکول کی فیسیں نہ ہوں ان کو کوئی کیسے سمجھائے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ کیا چھوٹو کے پکڑے یا مارے جانے سے سٹیل مل، KMC، محکمہ تعلیم اور دیگر اداروں کے محنت کشوں کی کئی مہینوں کی تنخواہیں ادا ہو جائیں گی۔ کیا فوجی آپریشنوں کے ذریعے مہنگائی کے جِن کو دوبارہ بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے۔ آبادی کی اکثریت کے پاس ان تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں اور انہیں ان تمام ٹوپی ڈراموں سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ حکمرانوں کے اس سیاسی تھیٹر کے قریب سے بھی اسی طرح لاتعلق گزر جاتے ہیں جیسے زرق برق اور لدی سجی دکانوں کے سامنے سے خالی جیب چپ چاپ سر جھکائے گزر جاتے ہیں۔
جب زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیئے ایڑیاں رگڑنے والے لوگ کروڑوں اور اربوں کی کرپشن کے قصے سنتے ہیں تو انکے سامنے سماج کی طبقاتی بُنتراور بھی عریاں ہو جاتی ہے۔ حکمران طبقات جب لوٹ کے مال پر کتوں کی طرح لڑتے ہوئے ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہوتے ہیں تو عوام کو صاف صاف نظر آنا شروع ہو جاتا ہے کہ اس حمام میں تو سب ننگے ہیں۔ پاناما سکینڈل نے ایک دفعہ پھر چہرے نہیں سماج کو بدلنے کی ضرورت کے احساس کو اور گہرا کر دیا ہے۔ اس سکینڈل کے بعد بہت سے ممالک میں عوامی بغاوتوں کا ایک طوفان امڈ پڑا ہے۔ بہت سے سربراہانِ حکومت مستعفی ہو رہے ہیں اور مزید بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس ایشو پر اپوزیشن کوئی تحریک چلانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی تھی۔ کیونکہ تمام تر اپوزیشن پارٹیوں کی قیادتوں نے کرپشن کی اس گنگا سے نہ صرف ہاتھ دھوئے ہوئے ہیں بلکہ نہائے ہوئے ہیں۔ عوام کے خوف سے یہ تمام بھیڑیئے ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔
’’تحریکِ دفاعِ کرپشن‘‘ کے نئے مرحلے میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ اسمبلیاں پھر مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ نواز شریف کو پھر ’’تحریکِ دفاعِ کرپشن‘‘ کے چیمپین زرداری صاحب کی یاد ستا رہی ہے۔ موصوف بھی دوبارہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے بیتاب ہیں۔ عمران خان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور وزیرِ اعظم کی لرزتی ہوئی کرسی کی طرف دیکھ کر اس کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔ بنیاد پرست قیادتیں بھی دوبارہ ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں کہ اس نان ایشو سے مسلسل گرتی ہوئی مقبولیت کو شاید کوئی سہارا دیا جا سکے۔ حقیقت میں ایم کیو ایم سمیت باقی تمام پارٹیوں میں بھی اندر سے شدید ٹوٹ پھوٹ جاری ہے اور محنت کش طبقے کا خوف اس ٹوٹ پھوٹ کو اور بھی تیز کرتا چلا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ چھوٹوکے پیچھے جو بڑے بڑے مگرمچھ ہیں ان کو اس نظام میں کبھی وہ سزا نہیں دی جا سکتی جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ معمہ بھی اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا کہ دہشت گرد چاہے کوئی مذہبی انتہا پسند ہو، علیحدگی پسند ہو یا پیشہ ور مجرم سب پاک فوج کے سامنے ہی ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں۔ بہرحال عوام بخوبی آگاہ ہیں کہ ملک کے تمام سیاسی گھرانے جن کی اکثریت نوابوں، وڈیروں اور رسہ گیروں پر مشتمل ہے؛ ایک نہیں ہزاروں چھوٹووں کی پرورش کرتے ہیں تاکہ اپنی نجی جیلوں اور سیاسی زندانوں میں محبوس رعایا کو اپنا مطیع اور غلام رکھا جا سکے۔ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیاں اور خود اسٹیبلشمنٹ انہی جلادوں کی سیاسی وفاداریوں کی خریدو فروخت کے ذریعے ہی جمہوریت کو مستحکم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی بھی ہیرو یا ولن کے مرنے سے یہ فلم ختم نہیں ہو گی بلکہ اس کے خاتمے کے لیے اس ذلت آمیز نظام کو ہی نیست و نابود کرنا ہو گا۔جلد یا بدیر عوامی برداشت اپنی انتہاؤں کو پہنچ کر ایک بغاوت کو جنم دے سکتی ہے۔اور اب کی بار یہ بغاوت نظام کے خاتمے سے پہلے کہیں رکنے والی نہیں۔