اس وقت اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے یا پھر یہ فکر ہے کہ آئندہ عام انتخابات کون جیتے گا۔ ان تمام پارٹیوں کے نعرے بھی اسی مطالبے کے گرد گھومتے ہیں اور میڈیا، عدلیہ، افواج اور بیوروکریسی میں موجود حکمران طبقے کے تمام افراد کے آنے والے بیانات میں بھی سب سے بڑی دھمکی یہی لگائی جاتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کروڑوں محنت کشوں کی زندگیاں جہنم بن چکی ہیں اور لوگ اپنے معصوم بچوں کو غربت کے باعث قتل کر کے خود کشیاں کر رہے ہیں یہ تمام تر حکمران اور میڈیا میں بیٹھے ان کے گماشتے نان ایشوز کے گرد ہونے والی تمام تر بیہودگی کو سیاست کا نام دے رہے ہیں۔ کبھی اس ملک کی تعفن زدہ بدعنوان عدلیہ کو مسیحا بنانے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں اور کبھی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بد عنوان ٹھیکیدارجرنیلوں سے امیدیں بندھوانے کی سعی ہوتی ہے۔ کبھی میڈیا کی آزادی کا ڈھول پیٹا جاتا ہے اور کبھی مختلف سیاسی پارٹیوں کی پارلیمانی سرکس سے محظوظ کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی پر تعیش زندگیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگ بھوک اور قابل علاج بیماریوں سے مر رہے ہیں اور حکمران طبقے کے افراد ان کی لاشوں کے گرد رقص کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو اس رقص سے فرصت ملتی ہے تو وہ گدھ کی طرح لاشوں کو بھی نوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ گرمی کی شدت میں لوڈ شیدنگ کا عذاب سہنے والے اور غربت و ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گزارنے والے محنت کشوں کے زخموں کے لیے ان حکمرانوں کے پاس کوئی مرہم نہیں، صرف نمک ہے جو وہ ان پر مسلسل چھڑکتے رہتے ہیں۔
محنت کش طبقے کے جسموں پر ہی نہیں ان کے شعور اور احساس پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں۔ ان حکمرانوں نے محنت کشوں کے خوابوں پر بھی حملے کیے ہیں اور ان سے ان کے سہانے سپنے تک چھین لیے ہیں۔ایک وقت تھا کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں ’ایشیا سرخ ہے‘ کا نعرہ ابھرتا تھا۔ مزدور تحریک میں سرگرم ہر کارکن دنیا بھر کے محنت کشوں کو یکجا کرنے کا عزم رکھتا تھا اور پوری دنیا میں ہونے والے مظالم اور جنگوں کیخلاف آواز اتنی زور سے بلند کی جاتی تھی کہ دنیا کے دوسرے کونے تک سنائی دے۔محنت کش طبقہ ایک ایسے مستقبل کا خواب دیکھتا تھا جس میں ہر شخص کو تمام بنیادی سہولیات مفت فراہم کی جائیں۔ امیر اور غریب پر مبنی اس طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ ہو جائے اور پوری دنیا سے ظلم اور استحصال کی جڑیں بھی اکھاڑ پھینکی جائیں۔ یہ صرف خواب ہی نہیں تھے بلکہ ان کی تعبیر کے لیے عملی جدوجہد بھی کی جاتی تھی اور کسی قسم کی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔ بد ترین آمریت کے مظالم بھی انقلابی کارواں کے مسافر ہنس کر سہہ لیتے تھے مگر اپنا رستہ تبدیل کرنے سے انکار کر دیتے تھے۔ اس تمام تر جدوجہد کا اظہار شاعری ، موسیقی مصوری، ادب سمیت فن کے ہر شعبے میں بھی ہوتا تھا۔
لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں محنت کشوں سے وہ خواب بھی چھین لیے گئے۔ اس عرصے میں تمام تر سیاسی پارٹیاں اپنے نظریات سے غداریاں کر چکی ہیں اور اس موت کے رقص میں شامل ہو چکی ہیں۔ قوم پرستوں سے لے کر مذہبی بنیاد پرستوں تک سب اس سرمایہ دارانہ غلاظت کو ہی چاٹ رہے ہیں۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ نام نہاد بائیں بازو کے این جی او زدہ قائدین بھی انقلاب کے نام سے خوفزدہ ہو چکے ہیں۔ انقلاب کا نام سنتے ہی ان کے ہاتھ پیر کانپنے لگتے ہیں، رگیں پھول جاتی ہیں، زبان لڑکھڑانے لگتی ہے اور وہ تیزی سے رجعت رجعت کا ورد کرنے لگتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر یہ ورد نہ کیا تو ان کی دولت اور جائیداد ان سے چھن جائے گی اور انہیں محنت کشوں جیسی زندگی گزارنی پڑے گی۔ بچی کھچی ٹریڈ یونین اشرافیہ اور اکا دکا طلبہ تنظیموں کے خود ساختہ سربراہان کی صورتحال بھی مختلف نہیں اور وہ بھی انتہائی فوری نوعیت کے معمولی ترین مطالبات سے آگے کا سوچنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، انہیں حل کرنا اور اس کے لیے جدوجہد کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ آج پھر سے اس خواب کی تجدید کریں اور طلبہ، مزدور اور کسان مل کر پھر سے یہ خواب دیکھیں۔ ایک ایسے سماج کا خواب جس میں حکمران طبقے کے تمام افراد کو ان کے انجام تک پہنچاتے ہوئے یہاں سے امیر اور غریب کے طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے۔ ایک ایسا حسین سماج جس میں بھوک، بیماری اور ناخواندگی کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔ ہر طرح کا ظلم اوراستحصال ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ محنت کشوں کے چہروں پر بھی خوشی ہو، تازگی ہو۔ ان کے گھروں میں بھی ماتم کی بجائے زندگی سے بھرپور نغمے گونجیں۔ایک ایسے سماج کا خواب جس میں جنگیں، خونریزی ، دہشت اور جبر ماضی کا قصہ بن جائیں۔
لیکن آج یہ خواب دیکھنے کے لیے بھی جرات اور حوصلہ درکار ہے۔اس کے لیے مارکسزم کے انقلابی نظریات پر غیر متزلزل اعتماد کی ضرورت ہے۔ محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیت پر پختہ سائنسی یقین درکارہے۔مایوس اور بد گمان لوگوں کی جگہ ماضی کے مزاروں میں ہے۔جبکہ مستقبل انہی کا ہے جو نہ صرف آج یہ خواب دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ اس کی تعبیرکے لیے انتھک جدوجہد بھی کرتے ہیں۔
معروض ایک نئی کروٹ لے رہا ہے۔ طلبہ اور محنت کشوں کی نئی تحریکیں طلوع ہو رہی ہیں۔ یہ تحریکیں وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ شدت اختیار کرتی چلی جائیں گی۔ ان کی مقدار اور معیار مسلسل بڑھتا چلا جائے گا۔ فوری مطالبات سے آگے بڑھ کر یہ سیاسی میدان میں قدم رکھیں گی اور حتمی طور پر سماج کی مکمل تبدیلی کی جانب بڑھیں گی۔ تاکہ سرمایہ داری کی اس لاش کو دفن کیا جا سکے جس کے پور پور سے محنت کشوں کا خون ٹپک رہا ہے۔وہی اس خواب کی تعبیر کا وقت بھی ہوگا۔ وہی خواب جو ہم سے چھین لیا گیا تھا لیکن اسے یہاں بسنے والے کروڑوں محنت کش ایک دن اپنی سلگتی ہوئی آنکھوں سے دوبارہ مل کر دیکھیں گے!