اس ملک میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو ایک سال کے دوران ہونے والے محنت کشوں اور طلبہ کے تمام احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کا ریکارڈ رکھ سکے۔ میڈیا شدید تعصب کا شکار ہے اور ایسی کسی حقیقی تحریک اور واقعہ کو منظر عام پر آنے سے روکا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر بھی ایسا کوئی ادارہ کبھی پنپنے ہی نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس ریکارڈ کو مرتب کرنے میں حکمرانوں کی دلچسپی ہے۔ لیکن اگر صورتحال کا عمومی جائزہ لیا جائے اور مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے تو نظر آتا ہے کہ 2016ء میں ماضی کی نسبت احتجاجی مظاہروں اور تحریکوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پی آئی اے کے محنت کشوں کی آٹھ روزہ ہڑتال کے علاوہ دیگر بہت سے اداروں میں احتجاجی مظاہرے ‘ ہڑتالیں اور تالہ بندیاں نظر آئیں۔ کسانوں اور طلبہ کے احتجاج ان کے علاوہ ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان تحریکوں اور احتجاجوں کی مقدار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سماج کی مختلف پرتیں احتجاجوں کی جانب مائل ہو رہی ہیں۔ لیکن مقدار معیار میں تبدیلی کا باعث بھی بن رہی ہے اور احتجاجی تحریکوں میں شامل افراد اپنے تجربات سے اہم نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ کچھ جگہوں پر مظاہرین کے شدید دباؤ پر وقتی طور پر مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں لیکن حتمی طور پر صورتحال جوں کی توں رہتی ہے اور احتجاج کرنے والوں کے حالات تبدیل نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ یہ سرگرمی سماج کی مختلف پرتوں کی سیاسی تربیت کا باعث بھی بن رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب رائج الوقت سیاست پراگندگی اور غلاظت سے اٹی ہوئی ہے اور جہاں چاپلوسی، خوشامد، لالچ اور منافقت کے سوا کچھ نہیں سیکھا جا سکتا وہاں سڑکیں اور اہم چوراہے احتجاج کرنے والوں کو بہت کچھ سکھا رہے ہیں۔ ایک طرف وہ ریاست کا گھناؤنا چہرہ دیکھتے ہیں جہاں پولیس، رینجرز اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے ذریعے ان پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس مشکل گھڑی میں ان پر واضح ہوتا ہے کہ بڑے بڑے سیاستدانوں یا افسران سے تعلقات نہیں بلکہ اپنے طبقے کے افراد سے حقیقی جڑت ہی ان کا واحد سہارا ہے۔ اس کے علاوہ جدوجہد کے رستے میں انہیں بہت سی غداریوں کے زخم بھی گھائل کرتے ہیں اور وہ تحریک کے دوران اپنے لیڈروں کے حقیقی کردارکو پرکھنے کاضروری تجربہ بھی حاصل کرتے ہیں۔
اس نئے سال میں اس تمام تر کیفیت میں شدت آئے گی جو طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کے پہلے سے موجود تجربات کو وسعت اور گہرائی دے گی۔ عالمی سطح پر ہونے والی اہم تبدیلیوں کے اثرات براہ راست پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس آمد کے بعد پوری دنیا میں سامراجی طاقتوں کے تضادات شدت اختیار کرنے کی جانب بڑھیں گے جس میں اس خطے کی صورتحال یقینی طور پر پہلے سے زیادہ عدم استحکام کا شکار ہو گی۔ چین کی سامراجی مداخلت پہلے ہی یہاں بڑے پیمانے پر اثرات مرتب کر رہی ہے۔ بلند ترین شرح سود پر حاصل کیے گئے بھاری قرضوں سے بڑے بڑے منصوبوں کا اجرا کیا جارہا ہے جن سے پورا سماجی توازن نئی کیفیات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان منصوبوں پر چین کی جیلوں سے ہزاروں قیدیوں کو لاکراور ان سے بغیر اجرت کے کام کروا کر قدر زائد کی پیداوار کے نئے ریکارڈ بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اس گھن چکر میں یہاں کے حکمران بھی کمیشنوں کے ذریعے لوٹ مار کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ لیکن یہ تمام تر دولت کی پیداوار سماج میں طبقاتی تقسیم کو کم کرنے کی بجائے مزید بڑھاتی چلی جا رہی ہے۔ دولت کم سے کم ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلی جا رہی ہے جبکہ محنت کش عوام کی وسیع تر پرتیں غربت کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی کا معاشی سماجی بحران بھی پاکستان پر اثرات مرتب کر رہا ہے لیکن آنے والے سال میں اس میں مزید شدت آئے گی۔ پاکستان کی نحیف ریاست سامراجی طاقتوں کی پراکسی لڑائیوں کا بوجھ زیادہ لمبے عرصے تک اٹھانے کے قابل نہیں اور اس تمام تر دباؤ کے نیچے آ کر مزید ٹوٹتی جا رہی ہے۔ خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال اور پاکستان کی معاشی و اقتصادی صورتحال میں ہونے والی بڑی تبدیلیاں اس نئے سال میں بڑے واقعات کو جنم دینے کا باعث بنیں گی۔
یہ تمام تر صورتحال سیاسی افق پر بھی یقینی طور پر اپنے اثرات مرتب کرے گی۔ ابھی تک پرانی سیاسی پارٹیوں کی بوسیدہ اور گلی سڑی زندہ لاشوں کے ذریعے ہی حکمران طبقہ سماج پر اپنی حکمرانی مسلط کیے ہوئے ہے۔ لیکن وہ خود بھی جانتے ہیں کہ زیادہ لمبے عرصے تک یہ کھیل جاری نہیں رہ سکتا۔ اس کے لیے پرانے گماشتوں کو نئے انداز میں متعارف کروایا جاتا ہے یا پھر ان کی اولادوں کے ذریعے حکمرانی کا تسلسل قائم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فوجی آمریت کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کا رستہ بھی گہری کھائی میں لے جا سکتا ہے اس لیے اس کے بارے میں حکمران زیادہ پر امید نہیں۔ دوسری جانب محنت کش عوام بھی اس ناٹک کی حقیقت کو جان چکے ہیں اور حکمرانوں کے مختلف کرتبوں میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اپنی تکلیفوں اور مصائب سے نجات کی راہ تلاش کر رہے لیکن ان کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں۔ اس حالت میں وہ دیوانہ وار مختلف طریقوں کو آزمائیں گے۔ پرانی مزدور قیادتیں، طلبہ سیاست اور سیاسی پارٹیاں ان کے نزدیک رستے کی رکاوٹ ہیں جو ماضی کے سمندر میں غرق ہونے کے لیے کسی نئی بے قرار موج کی آمد کے رحم و کرم پر ہیں۔
آنے والے عرصے میں گزشتہ سالوں کی نسبت ابھرنے والی تحریکوں کی مقدار اور معیار میں اضافہ ہو گا اور ملک کے سیاسی افق پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوں گے۔ سماج کی تمام تر کیفیت پرانی سیاسی پارٹیوں کے ٹوٹنے اور نئی سیاسی پارٹیوں کے بننے کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ لیکن یہ عمل سیدھی لکیر میں وقوع پذیر نہیں ہوگا بلکہ تضادات سے بھرپور ہو گا۔ رجعتی قوتیں ان نئی اور انجانی قوتوں کے خوف سے ان کو دبانے کی پوری کوشش کریں گی۔ ان پر شدید حملے کیے جائیں گے بلکہ اس عمل کو ہی روکنے اور اسقاط حمل کے لیے خوف و ہراس کی فضا پھیلانے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن جتنا زیادہ اس عمل کو روکا جائے گا یہ اتنی ہی شدت کے ساتھ آگے بڑھے گا۔
ایسی صورتحال میں مارکسی قوتوں کے لیے آگے بڑھنے کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ سب سے پہلے اپنی صفوں کو درست کرتے ہوئے عرق ریزی سے نظریات پر عبور حاصل کرنا ہوگا اور کیڈرز کی ایک ایسی پرت تیار کرنی ہوگی جو مشکل ترین حالات میں بھی نظریات پر ٹھوس طریقے سے کاربند رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ابھرنے والی نئی تحریکوں میں اپنے انقلابی نظریات کے ساتھ مداخلت کرنا ہو گی تا کہ یہ تحریکیں جب انقلابی کردار کی حامل ہو ں تو صرف چند اصلاحات یا مراعات کے حصول تک محدود نہ رہ جائیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس ظالمانہ ریاست کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کو یقینی بنائیں۔