دنیا بھر کے مزدوروں کے عظیم لیڈر ولادیمیر لینن کو ہم سے بچھڑے ایک صدی بیت چکی ہے۔1917ء میں روس میں مزدوروں کا انقلاب برپا کرنے والے اور مزدور ریاست کے پہلے سربراہ منتخب ہونے والے لینن آج سے ایک سو برس پہلے 1924ء میں جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے لیکن ان کے نظریات اور ان کی جدوجہد آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ مزدور وں سے ان کے لیڈر کے نظریات کو دور رکھا گیا ہے اور آج لینن کا نظریہ اور اس کا نام اس کے اپنے ہی ساتھیوں کے لیے اجنبی بنا دیا گیا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ جہاں محنت کش طبقے کا بد ترین استحصال کرتا ہے، اسے غربت، محرومی اور جبر کا نشانہ بناتا ہے وہیں اس سے اس کے حقیقی لیڈر اور اس کے نظریات بھی چھین لیتا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ مزدوروں سے ان کی جدوجہد کی تاریخ اور ان کی حاصلات کی یادداشت بھی چھیننے کی کوشش کرتا ہے اور انپر ایسے نظریات اور خیالات کی بوچھاڑ کر دیتا ہے جس سے مزدور اس نظام کیخلاف بغاوت کا سوچ بھی نہ سکیں۔
یہی کچھ لینن اور اس کے عظیم نظریات کے ساتھ کیا گیا اور آج اس ملک کے مزدوروں میں لینن کی شخصیت کو جاننے والے یا اس کے نظریات کو سمجھنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا اور خود سوویت یونین کی موجودگی کی صورت میں مسخ شدہ شکل میں ہی سہی لیکن لینن کا نام اور کام مزدوروں تک کسی نہ کسی طرح پہنچتا رہتا تھا۔ فیکٹریوں، دفاتر اور عوامی اداروں میں کام کرنے والے بہت سے سرگرم مزدور لینن کی جدوجہد سے نہ صرف واقفیت رکھتے تھے بلکہ لینن کے نظریات کے گرد سٹڈی سرکل منعقد کرنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔ یہی وہ دور تھا جب اس ملک کی مزدور تحریک اپنے عروج پر بھی نظر آتی ہے، جب مزدوروں نے جنرل ایوب کی آمریت کیخلاف 1968-69ء میں ایک انقلابی تحریک برپا کی تھی اور اسے دم دبا کر بھاگنے پر مجبو ر کر دیا تھا۔ اسی عرصے میں مزدوروں نے بہت سی جگہوں پر فیکٹریوں پر قبضے کیے تھے اور انہیں جمہوری انداز میں چلا کر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اسی دوران کسانوں نے جاگیروں پر قبضوں کا بھی آغاز کر دیا تھا اور طلبہ تحریک ملک کے مشرقی و مغربی حصے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ اس انقلابی تحریک کے بعد ہی مزدور طبقے کو اس ملک کی سب سے بڑی حاصلات ملی تھیں۔ علاج اور تعلیم تقریباً مفت ہو گئے تھے، ٹریڈ یونین کی ممبر شپ اپنے عروج پر تھی اور مزدوروں کی اجرتیں مہنگائی کے تناسب سے اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھیں۔
اس وقت اگر لینن کے نظریات اگر مسخ شدہ سٹالنسٹ شکل کی بجائے اپنی درست حالت میں مزدور طبقے میں موجود ہوتے اور ان کے گرد لینن کی بالشویک پارٹی کی طرز کی پارٹی موجود ہوتی تو سرمایہ دارانہ نظام کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا تھا اور ایک سوشلسٹ انقلاب کو مکمل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ سب نہ ہوسکا اور سرمایہ دار طبقے کو واپس قدم جمانے کا موقع مل گیا جس کے بعد اس نے بتدریج مزدور طبقے پر اپنے حملوں کا دوبارہ سے آغاز کر دیا۔ سوویت یونین کے سٹالنزم کے مسخ شدہ نظریات کی بدولت انہدام کے بعد مزدور تحریک پر حملوں کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آج تک وہ حملے جاری ہیں۔ٹریڈ یونین کا حق تقریباً ختم کیا جا چکا ہے، افراط زر کے مقابلے میں اجرتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں، علاج اور تعلیم محنت کشوں کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں، بیروزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور نجکاری کے بد ترین حملے کر کے مستقل روزگار اور پنشن کا بچا کھچا حق بھی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس تمام صورتحال میں اگر کہیں مزدور کوئی احتجاج کرتے بھی ہیں یا جرا ت کر کے ہڑتال کا رستہ اختیار کرتے ہیں تو مختلف طریقوں سے ان کی تحریکوں کو زائل کر دیا جاتا ہے۔ کبھی محکمانہ کاروائیاں اور عدالتی حربے اور کبھی لیڈروں کی بزدلی اور مفاہمت ان تحریکوں کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ گزشتہ تین سے چار دہائیوں کی یہی کہانی ہے اور مزدور تحریک کا عمومی رجحان زوال کی جانب ہی نظر آتا ہے۔ یہ اس مقام تک پہنچ چکا ہے کہ ہفتہ وار چھٹی تقریباً ختم ہو چکی ہے اور آٹھ گھنٹے کام کا دن ایک خواب بن چکا ہے۔ یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جو آج سے ڈیڑھ صدی قبل شکاگو کے شہیدوں نے بڑی قربانی دے کر حاصل کیے تھے۔ یعنی مزدور تحریک پسپائی کرتے کرتے پاتال تک پہنچ چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داروں کے منافع آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور وہ تاریخ کی سب سے زیادہ شرح منافع بٹور رہے ہیں اور پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقتور بھی ہو چکے ہیں۔اس طاقت کا اظہار سیاست کے میدان میں بھی نظر آتا ہے جہاں مزدوروں کی نمائندہ کوئی ایک بھی سیاسی پارٹی یا لیڈر موجود نہیں۔
اس تمام صورتحال سے نجات کا واحد رستہ لینن ازم کے نظریات کا احیا ہے۔لینن نے مزدور نظریات کے حوالے سے اہم نتائج اخذکیے تھے اورمزدور طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنے والی پارٹی تعمیر کرنے کا بنیادی خاکہ تشکیل دیا تھا۔ لینن نے سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیادوں کو واضح کیا تھا اور کہا تھا کہ اس ریاست کو اکھاڑ کر ہی ایک نئی مزدور ریاست تشکیل دی جا سکتی ہے جو مزدور طبقے کی حاکمیت اور ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت پر مبنی ہو گی۔ اس نے سامراجی طاقتوں کے عوام دشمن کردار کے حوالے سے بھی اہم نظریات مرتب کیے تھے۔ اس نے نہ صرف ان نظریات کی ترویج کی بلکہ ٹراٹسکی کے ساتھ مل کرعملی طور پر ایک مزدور انقلاب کی قیادت بھی کی تھی اور روس میں سرمایہ دار طبقے کی حاکمیت اور امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ نظام قائم کیا تھا۔اس نے نہ صرف انقلاب برپا کیا بلکہ سامراجی جنگوں، خانہ جنگی، قحط سالی اور دیگر مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کرۂ ارض پر مزدور ریاست کو عملی طور پر تعمیر کر کے بھی دکھایا تھا۔ اسی طرح اس نے پوری دنیا سے سرمایہ داری کو ختم کرنے کے لیے ٹراٹسکی کے ساتھ مل کر عالمی تنظیم کمیونسٹ انٹرنیشنل کا قیام بھی عمل میں لایاتاکہ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ“ کے نعرے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اور پوری دنیا سے امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کیا جا سکے اور جنگ، بھوک، لاعلاجی اور غربت صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں اور پوری دنیا امن اور خوشحالی کا گہوارہ بن جائے۔ آج ایک صدی بعد لینن کے اسی ادھورے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہر مزدور اور ہر انقلابی کا سب سے اہم فریضہ ہے۔