عالمی سطح پر مالیاتی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور دنیا کی تمام معیشتیں بد ترین بحرانوں کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ پوری دنیا میں موجود سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے بد ترین زوال سے گزر رہا ہے اور اس نظام کے رکھوالے ہر طرف بوکھلائے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سماجی معاشی نظام کو انسانیت کا حتمی اور آخری نظام قرار دینے والے آج خود اس نظام کی تباہی اور بربادی کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ہر ملک کے حکمران طبقے کے خلاف محنت کش عوام کی ابھرتی تحریکیں ان کو خوفزدہ کر رہی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام انسانی تاریخ کے ہزاروں سال کے سفر میں صرف چند سو سال کی تاریخ کا حامل ہے اور اس سے پہلے مختلف سماجی معاشی نظام دنیا میں ابھر کر ختم ہو چکے ہیں۔ دو ہزار سال قبل سلطنت روم کی بنیاد غلام دارانہ نظام پرتھی اور اس نظام کے زوال اور انہدام کے باعث یہ سلطنت اور اس کا بنایا ہوا پورا ورلڈ آرڈر تباہی اور بربادی کا شکار ہو گیا تھا۔ جاگیر دارانہ نظام نے بھی قرون وسطیٰ میں بہت سی سلطنتوں اور سامراجی طاقتوں کو جنم دیا تھا لیکن ایک مخصوص وقت پر جب یہ نظام انسانیت کی ترقی کے رستے میں رکاوٹ بنا تو انقلابات کے ایک طویل سلسلے کے بعد اس کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لی۔ تین سے چارصدی قبل اپنے آغاز میں سرمایہ د ارانہ نظام نے سماجی ترقی کی بہت سی منازل طے کیں اور ذرائع پیداوار کو ان دیکھی ترقی دی لیکن آج یہ نظام اپنے زوال کے عہد میں داخل ہو چکا ہے اور انسانیت کو ترقی اور فلاح و بہبود کی جانب لے جانے کے بجائے بربادی، موت، جنگیں، بھوک اور بیماری دے رہا ہے۔ اس نظام کو صرف ایک سوشلسٹ نظام کے ذریعے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے جس میں تمام تر ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں لے کر ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے دنیا سے تمام تر بھوک، بیماری، غربت، لاعلاجی اور محرومی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری کے خاتمے سے ہی انسانیت امیر اور غریب کی تفریق پر مبنی طبقاتی نظام سے بھی نجات حاصل کر ے گی اور انسان کا مقصد تسخیر کائنات میں تمام توانائیوں کو صرف کرنا ہی ہو گا۔
ایک صدی قبل بھی سرمایہ دارنہ نظام انسانیت کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر لے آیا تھا جب پہلی عالمی جنگ میں لاکھوں افراد حکمرانوں کے منافعوں کی ہوس کی لالچ میں مارے گئے تھے۔ اس وقت بھی روس سے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب نے ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کا حتمی طور پر خاتمہ بھی اسی انقلاب کے بعد بننے والی مزدور ریاست کے باعث ممکن ہوا تھا جس نے ا س وقت کی قیادت کے غلط فیصلوں کے باوجود اپنی منصوبہ بند معیشت کی فوقیت کے باعث فاشزم کے عفریت کو شکست فاش دی تھی اور کروڑوں افراد کو لقمہ اجل بنانے والی خونریز عالمی جنگ کا خاتمہ کیا تھا۔ اس جنگ کے بعدامریکی سامراج بھی عالمی سطح پر ایک سپر پاور بن کر ابھرا تھا اور اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پوری دنیا میں اپنا ورلڈ آرڈر مسلط کرنے کا آغاز کیا تھا۔ نوے کی دہائی میں سوویت یونین سٹالنزم کی غداریوں کے باعث انہدام کا شکار ہوا اور اس کے بعد سرمایہ دار طبقے نے پوری دنیا میں اپنی حتمی فتح کا اعلان کر دیا۔
لیکن آج تین دہائیاں گزرنے کے بعد پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام بدترین بحرانوں اور تاریخی زوال کا شکار نظر آتا ہے اور اس نظام کے رکھوالے خود ایسے امکانات پربحث کر رہے ہیں جس میں عالمی معیشت کھائی میں گر سکتی ہے۔ امریکہ میں اس وقت افراط زر کی شرح 7 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جو گزشتہ چالیس سال میں سب سے زیادہ ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ میں بھی یہ شرح 5 فیصد سے ذائد ہے جبکہ شرح ترقی کم ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے اس نظام کو عالمی سطح پر بچانے کے لیے جن طریقوں کو استعمال کیا گیا اب وہ مزید جاری نہیں رکھے جا سکتے۔ ایک دہائی سے ذائد عرصے سے ریاستی بینکوں کی جانب سے نوٹ چھاپ چھاپ کر منڈی میں پھینکے گئے جبکہ ترقی یافتہ معیشتوں میں شرح سود تقریباً صفر فیصد تک گرا دی گئی۔ دوسری جانب ریاستی اخراجات پر کٹوتیاں لگائی گئیں اور علاج، تعلیم، انفراسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں ریاستی اخراجات کم ترین سطح پر پہنچا دیے گئے۔ لیکن کرونا وباء کے دوران جب تمام تر معیشتیں مکمل طور جام ہو گئیں تو عوام کو انقلابی بغاوت سے دور رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپ کر لوگوں کو تنخواہیں اور بیروزگاری الاؤنس دیے گئے۔ اس سارے عمل میں افراطِ زر کا بڑھنا ناگزیر تھا جو اب مہنگائی کی ہوشربا لہر میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ اسی طرح اب اس افراطِ زر کو قابو میں کرنے کے لیے ریاستی بینکوں کی جانب سے ناگزیر طور پر شرح سود بڑھائی جا رہی ہے اورساتھ ہی نوٹ چھاپنے کے عمل کو بریک لگانی پڑے گی۔ اسی باعث سرمایہ داروں کے لیے سستا قرضہ موجود نہیں ہو گا اوراسٹاک ایکسچینج سے لے کر پراپرٹی تک جو مصنوعی بلبلے بن رہے تھے وہ پھٹنے کی جانب بڑھیں گے۔ امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور چین سمیت تمام بڑی معیشتیں سست روی کا شکار ہونے کی طرف بڑھ رہی ہیں اور کرونا لاک ڈاؤن کے بعد معیشت کھلنے سے جو تھوڑی بہت ریکوری ان معیشتوں کی تیز ترین شرح ترقی میں دیکھنے میں آئی تھی وہ اب سست روی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ مالیاتی بحران جہاں بہت سی بڑی کمپنیوں اور بینکوں کو بحران کا شکار کرے گا وہاں صنعتی شعبہ بھی متاثر ہو گا اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔ پہلے ہی شرح ترقی میں اضافے کے باوجود بڑے پیمانے پر روزگار پیدا نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی نئی صنعتیں بڑے پیمانے پر پھیل رہی تھیں بلکہ سرمایہ داری کے ہر بحران کی طرح یہ بھی ذائد پیداوار کا ہی بحران تھا۔ اسی لیے تمام تر سستا قرضہ سٹہ بازی، ریاستی بانڈز کی خریداری اور اسٹاک ایکسچینج جیسے شعبوں میں لگایا جا رہا تھا۔ چین کی تین سو ارب ڈالر مالیت کی ایک بہت بڑی پراپرٹی کی کمپنی ایور گرانڈ پہلے ہی دیوالیہ ہو چکی ہے اور چین کی کل معیشت کے تیس فیصد حصے پر مبنی یہ پورا شعبہ شدید ترین بحران کا شکار ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ عمل امریکہ سمیت دنیا کی تمام ترقی یافتہ معیشتوں میں بھی ابھر سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسی درجنوں کمزور معیشتیں دیوالیہ پن کی حدود پار بھی کر سکتی ہیں۔ پہلے ہی بہت سی کمزور ریاستیں دیوالیہ ہو چکی ہیں اور ان کے سماجی اور ریاستی بحران شدت اختیار کر چکے ہیں۔
حکمران طبقہ ان تمام بحرانوں کا بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر منتقل کر رہا ہے اور اپنے منافعوں کی ہوس میں کروڑوں افراد کا معاشی قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ ان حملوں کے خلاف پوری دنیا میں عوامی تحریکیں اور انقلابات پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے ابھریں گے اور پوری دنیا کی سیاست کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیں گی۔ گزشتہ دہائی میں ابھرنے والے انقلابات اور عوامی تحریکیں جن میں عرب انقلابات سے لے کر آکو پائی وال سٹریٹ تک کی تحریکیں شامل تھیں اور اصلاح پسند لیڈر برطانیہ میں کوربن سے لے کر امریکہ میں برنی سینڈرز تک ابھر رہے تھے اب قصہ پارینہ نظر آئیں گے۔ آنے والا عرصہ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو مزید انتہاؤں تک لے کر جائے گا جبکہ مارکسزم کے حقیقی نظریات کی پیاس پوری دنیا میں شدت اختیار کرے گی۔ انہی مارکسی نظریات سے لیس ایک منظم قوت کسی بھی ملک کی انقلابی تحریکوں میں حصہ لے کر اسے اس خون آشام نظام کے خاتمے تک لے جا سکتی ہے اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔