پوری دنیا اس وقت جہاں کرونا وبا اور بد ترین مالیاتی بحران میں گھری ہوئی ہے وہاں ایک کے بعد دوسرے ملکوں میں عوامی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور ہر جگہ حکمران طبقے اور اس کے ظالمانہ نظام کو چیلنج کر رہی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھی صورتحال مختلف نہیں اور پورا خطہ تاریخ کی اہم ترین تبدیلیوں سے گزر رہا ہے جنہوں نے پورے سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت انڈیا میں کسانوں کی تحریک نے سماج میں جاری اس بنیادی تبدیلی کا سطح پر اظہار کر دیا ہے اور آنے والے عرصے میں ابھرنے والے عوامی طوفانوں کے بیج پورے خطے میں پھیلا دیے ہیں۔
گزشتہ سال کے آغاز پر پورا ہندوستان شہریت کے ایک نئے قانون کے خلاف ابھرنے والی تحریک کے زیر اثر تھا جس میں ملک گیر سطح پر لاکھوں افراد کے احتجاج ہوئے۔ لیکن موجودہ سال کا آغاز کسانوں کی تحریک سے ہوا ہے جو پچھلی تحریکوں سے نہ صرف معیاری حوالے سے بلند ہے بلکہ اس کے اثرات کی وسعت اور گہرائی بھی پہلی تحریکوں کی نسبت زیادہ ہے۔ 26 جنوری کو انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقع پر اس تحریک نے دہلی میں ٹریکٹر مارچ کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد ٹریکٹروں نے حصہ لیا۔ اسی روز حکمران طبقے کی جانب سے اس تحریک کو زائل کرنے کی سازشیں بھی عروج پر نظر آئیں جب کسانوں کے اپنے ذریعہ معاش کے تحفظ کے لیے جاری اس تحریک کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور اسے سکھ اور ہندو مذاہب کے درمیان ایک لڑائی بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران کسانوں کی صفوں میں حکمران طبقے کے ایجنٹوں نے دہلی میں فسادات کروانے کی بھی کوشش کی جس کے لیے پولیس پہلے سے تیار تھی۔ لیکن کسان راہنماؤں کی بر وقت مداخلت اور ایجنٹوں کو بے نقاب کرنے کے بعد مودی سرکار کا یہ حربہ ناکام ہو گیا۔ اس کے بعد کسانوں کے دھرنوں پر بد ترین جبر کیا گیا اور پولیس اور غنڈوں کی مدد سے اس کو ختم کروانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ان مظالم سے تحریک ختم ہونے کی بجائے مزید بھڑک اٹھی اور اتر پردیش سے لاکھوں کی تعداد میں کسان اس تحریک کا حصہ بن گئے۔ اس دوران کانگریس سمیت اپوزیشن کی تمام پارٹیاں خاموش تماشائی بنی رہیں اور امبانی اور اڈانی جیسے سرمایہ داروں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو میں کسانوں کی اس ملک گیر تحریک کی حمایت نہیں کی گئی۔
یہ تمام صورتحال نہ صرف ہندوستان کے سماج میں ہونے والی بنیادی تبدیلیوں کا اظہار کرتی ہے بلکہ اس پورے خطے میں آنے والے عرصے کے منظر نامے کی جھلکی بھی دکھاتی ہے۔ دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری کسانوں کی اس تحریک میں مسلسل پیش رفت واضح کرتی ہے کہ مودی سرکار اور ہندوستان کے سرمایہ دار طبقے کے خلاف نفرت اور غم و غصہ انتہاؤں تک پہنچ چکا ہے جبکہ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی پارٹیاں محنت کش طبقے کی کسی بھی تحریک کی قیادت کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ انڈیا کی کمیونسٹ پارٹیاں پہلے ہی بد ترین نظریاتی اورسیاسی زوال پذیری کا شکار ہیں اور آغاز سے ہی کسانوں کی تحریک کی مخالفت کر رہی ہیں۔ مزدور تحریک کو اس موقع پر کسانوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے غیر معینہ مدت کے لیے ایک ملک گیر عام ہڑتال مودی سرکارکا خاتمہ کر سکتی ہے لیکن اس جانب پیش رفت میں تمام سیاسی پارٹیاں اور ٹریڈ یونین کی قیادت رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ لیکن اس تحریک کے نتائج جو بھی ہوں یہ واضح ہو چکا ہے کہ آنے والے عرصے میں اس ملک کا سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہونے کی جانب بڑھے گا اور پورا سماج تاریخ کی اہم ترین تبدیلیوں سے گزرتے ہوئے تہہ و بالا ہو جائے گا۔
اس دوران میانمار (برما) میں ہونے والا فوجی کُو بھی اہم پیش رفت ہے جس نے جمہوریت کی کھوکھلی نعرے بازی کرنے والی اور مغربی حکمرانوں کی پیاری اس خطے کی ایک اور اہم شخصیت کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ برما کے حکمران طبقے کے تضادات پہلے سے ہی شدت اختیار کر رہے تھے جبکہ امریکی سامراج اور چین کے تضادات کے باعث ریاست کا بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ اس دوران چین کے مفادات کے لیے برما میں ایک بندر گاہ بنانے کے لیے روہنگیا کے علاقے میں نہ صرف مقامی آبادی کابے دریغ قتل عام کروایا گیا بلکہ سات لاکھ سے زیادہ افراد بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر بھی مجبور ہوئے۔ اس دوران برما کی وزیر اعظم اور امن کے لیے نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سو چی کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی اور وہ چین کے حکمران طبقے کے ساتھ تعلقات کی پینگیں بڑھاتی رہی اور سی میک کے نام سے ایک انفرا سٹرکچر کے وسیع منصوبے کی بھی بنیاد رکھی گئی۔ اسی باعث سابقہ آقاؤں یعنی مغربی سامراجی ممالک کے حکمران طبقے کے ساتھ اس کے تعلقات بھی کشیدہ ہو گئے۔ فوجی جرنیلوں اور سامراجی طاقتوں کے سائے میں جاری نام نہادجمہوریت کا یہ ناٹک بھی اس ماہ اپنے انجام کو پہنچا اور جرنیلوں نے ایک مرتبہ پھر اقتدار پر براہ راست قبضہ کر لیا ہے۔ اس اقدام سے کسی بھی قسم کا استحکام نہیں آئے گا بلکہ پورا خطہ مزید عدم استحکام کی جانب بڑھے گا۔
اس خطے سمیت پوری دنیا میں جاری اہم تبدیلیوں سے پاکستان بھی محفوظ نہیں اور یہاں بھی تاریخ کا بدترین مالیاتی بحران موجود ہے جس کی شدت ہر روز بڑھتی جا رہی ہے۔ تیل، بجلی اور گیس سمیت ضرورت کی ہر شے کی قیمت آئے روز نئے ریکارڈ بناتی ہے جبکہ بے روزگاری کا عفریت صرف گزشتہ دو سالوں میں تین کروڑ سے زیادہ افراد کو نگل چکا ہے۔ حکمران طبقے کی پر تعیش زندگیاں پہلے کی طرح جاری ہیں بلکہ ان کی دولت گزشتہ دو سالوں میں کئی گنا بڑھی ہے۔ سرمایہ داروں کے لیے سینکڑوں ارب روپے کے ٹیکس معاف کیے گئے ہیں اور انہیں کھربوں روپے کے پیکج دیے گئے ہیں جبکہ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں مسلسل پیسا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف اور حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی تمام تر سیاسی پارٹیاں بھی اس کھیل میں ننگی ہو چکی ہیں اور ان کا عوام دشمن کرداربھی اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ دیگر ریاستی اداروں کا مزدور دشمن کردار بھی آئے روز کے کرپشن کے اسکینڈلوں سے زبان زد عام ہے جس میں براڈ شیٹ سے لے کر پانامہ اور پیزے کی فرنچائزوں تک میں ریاستی اہلکاروں کا براہ راست ملوث ہونا کئی دفعہ ثابت ہو چکا ہے۔
ایسے میں سرکاری ملازمین کے ملک گیر احتجاج پوری صورتحال میں اہم پیش رفت ہیں۔ احتجاجوں کا یہ سلسلہ اب تھمنے کی بجائے تیزی سے آگے کی جانب بڑھتا چلا جائے گا۔ حکمران طبقہ اپنی مراعات اور اس نظام کا تحفظ کرنے کے لیے محنت کشوں کے ہر احتجاج پر بد ترین جبر کرے گا۔ جبر کے لیے ریاستی اداروں اور برطانوی سامراج کے بنائے ظالمانہ قوانین کا بے دریغ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کا تعصب، غلاظت اور الزام بھی محنت کشوں پر عائد کیا جائے گا۔ اس کے لیے سرمایہ دار طبقے کا گماشتہ میڈیا بھی پوری طاقت سے محنت کشوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا جبکہ سیاسی قیادتوں، مذہبی لیڈروں اور کرائے کے دانشوروں اور این جی اوزکو بھی تحریکوں کو زائل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور ان کی شکل میں حکمرانوں کے ٹاؤٹوں کو خود ساختہ لیڈروں کی شکل میں مسلط کیا جائے گا۔ لیکن محنت کش طبقے کی جڑت اور پیش قدمی سے ان تمام غلاظتوں کا نہ صرف مؤثر جواب دیا جا سکتا ہے بلکہ درست لائحہ عمل اور طریقہ کار سے عام ہڑتال کی جانب سفر بھی جاری رکھا جا سکتا ہے۔ حتمی منزل کا حصول اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے جو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ آنے والا پورا عرصہ اس خطے کے کروڑوں محنت کشوں کو اسی منزل کی جانب دھکیلے گا اور ان کو منزل کے حصول کے متعدد مواقع ملیں گے۔ دنیا کے کسی ایک ملک میں بھی محنت کش طبقے کی کامیابی پوری دنیا کے محنت کش طبقے کو عزم اور حوصلہ دے گی اور حکمران طبقے کی فیصلہ کن شکست کی راہ ہموار کرے گی۔
Pingback: Progressive Youth Alliance – پاکستان: طلبہ تحریک۔۔۔ انقلابی سفر کا آغاز!