گزشتہ چند ماہ سے جاری اقتدار کی لڑائی اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے ایک دوسرے پر حملے اب مزید شدت اختیار کریں گے۔ سیاسی وابستگیاں بھی تیزی سے تبدیل ہوں گی اور دوستیاں اور وفاداریاں ایک دفعہ پھر سرِ بازار نیلام ہوں گی۔ اس تمام کھیل میں عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت پر واضح ہو چکا ہے کہ رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیاں اور اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑے محنت کشوں کے کسی بھی طرح خیر خواہ نہیں ہیں۔ اپنی شدید ترین لڑائی میں بھی یہ عوام پر تاریخ کے بد ترین حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان پر مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی اور جہالت مسلط کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کسی بھی سیاسی پارٹی یا اسٹیبلشمنٹ کے دھڑے کا آئی ایم ایف اور امریکی سامراج کی مسلط کردہ مالیاتی پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ نظام سے کوئی اختلاف نہیں اور وہ اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے لوٹ مار کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنے مخالفین پر شدید ترین حملے کرنے کے باوجود مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا دلانے کے لیے اجرتوں کودو گنا کرنے سمیت کسی بھی ایسے اقدام کا اعلان نہیں کر رہی جس سے عوام کی مشکلات میں کچھ کمی ہو سکے۔ بلکہ اس کے الٹ سرمایہ دار طبقے کے لیے نئی مراعات اور پیکجز کا اعلان کیا جا رہا ہے اور ان عوام کا خون چوسنے والی قوتوں کی تجوریاں بھری جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سرمایہ دار، ٹھیکیدار اور بینکار اس لڑائی میں اپنے اپنے نمائندے کی پہلے سے کہیں زیادہ حمایت کر رہے ہیں اور اس نمائندے کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اقتدار کے حصول کے لیے ہر حد عبور کر جائے خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ ٹھیکیداروں کے یہ نمائندے سیاسی پارٹیوں سے لے کر ریاستی اداروں کے کلیدی عہدوں اور میڈیا ہاؤسزسمیت ہر قابل ذکر جگہ پر موجود ہیں اور اپنے اپنے دھڑے کے ٹھیکیداروں کی خوشنودی کے لیے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ جو ش و خروش سے سرگرم عمل ہیں۔ لیکن جتنی زیادہ لوٹ مار بڑھتی جاتی ہے اتنی ہی لوٹ مار کرنے والوں کی آپس کی لڑائیاں، دھڑے بندیاں اور دشمنیاں بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
آنے والے عرصے میں یہ لڑائی کسی بھی طور کم ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ اس کی بنیاد اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی رکھوالی ریاست کا شدید ترین بحران ہے۔ اس بحران نے اس ملک کی کھوکھلی سیاست کی عوام دشمن حقیقت عوام پر عیاں کر دی ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے ادارے اور نام نہاد جمہوریت کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس وقت ملک میں نئے انتخابات کی بحث زور و شور سے جاری ہے اور مختلف حوالوں سے اس کے قبل از وقت انعقاد کروانے یا نہ کروانے کے لیے بھی دلائل دیے جا رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی اس تمام تر عمل میں کتنی اہمیت رکھتی ہے اورہر سیاسی پارٹی اپنے من پسند جرنیلوں کے سائے تلے ہی الیکشن لڑنے کی خواہشمند ہے۔ صرف یہ ایک عنصر ہی اس تمام تر جمہوریت اور نام نہاد عوامی نمائندوں کی حقیقت بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس میڈیا کا حقیقی کردار بھی واضح ہوچکا ہے جس پر انتخابات کی کمپئین سے لے کر تمام تر نتائج چلائے جاتے ہیں اور اس پہلے سے طے شدہ کھیل کو عوام کے سامنے ووٹوں کے نتیجے میں ہونے والا فیصلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اب محنت کش عوام کے سامنے حکمران طبقے کے یہ تمام ناٹک بے نقاب ہو چکے ہیں اور انہیں نہ ہی کسی ریاستی ادارے پرذرہ برابر بھی اعتماد رہا ہے اور نہ ہی اس پہلے سے طے شدہ انتخابی عمل پر۔
ایسے میں سب سے اہم سوال ابھرتا ہے کہ اس سب کا متبادل کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس ملک میں حالیہ سالوں میں ”نظام“ کو تبدیل کرنے کے نعرے پہلے بھی بہت دفعہ لگائے جا چکے ہیں لیکن ان تمام مواقع پر بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی بنیادوں پر نہ تو کبھی بحث کی گئی ہے اور نہ ہی اسے تبدیل کرنے کا پروگرام دیا گیا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس پر قائم ریاست کوغلط طور پر ازلی اور ابدی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی انسانیت کواپنا مستقبل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سب سے مضبوط دلیل یہ دی جاتی رہی ہے کہ دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ نظام کام کر رہا ہے اور وہاں پر عوام کی حالت یہاں سے کئی گنا بہتر ہے۔ اسی لیے اس دلیل کے تحت ان سرمایہ دار ممالک کی پیروی اور ان جیسا بننے کی کوشش میں پورے ملک کو ہانک دیا جاتاہے۔ بالخصوص نوجوانوں کے سامنے ان سرمایہ دار ممالک کے ارب پتی افراد کو ہیرو او رکامیابی کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ وہاں کی یونیورسٹیوں کو علم کی معراج قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں ان ممالک میں جو سماجی اور معاشی طوفان ابھرے ہیں اس نے اس دلیل کو جڑ سے ہلا دیا ہے اور اس نظام کا زوال اور اس کے علم و حکمت کاکھوکھلاپن پوری دنیا پر عیاں کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے میڈیا اور سیاست دانوں نے یورپ اور امریکہ کے موجودہ پر انتشار معاشی، سیاسی و سماجی حالات کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور وہاں پر جاری عوامی بغاوتوں اور ملک گیر ہڑتالوں کے بارے میں کسی بھی قسم کی رائے دینے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اربوں ڈالر کمانے والے امیر ترین افراد کی لوٹ مار اور مزدوروں کے بد ترین استحصال کی داستانیں بھی اب منظر عام پر آ رہی ہیں اور ان ممالک کے عوام کی ان کے خلاف نفرت بھی عوامی تحریکوں میں واضح نظر آ چکی ہے۔ ایسے میں اس نظام کی ”کامیابی“ اور عوام کے بہتر مستقبل کی بنیاد کے طور پر سب سے مضبوط دلیل بھی اب چکنا چور ہو گئی ہے۔
دنیا بھر کے محنت کش عوام کو واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ یہ نظام منافع کی ہوس اور مزدور کے استحصال پر مبنی ہے اور اس میں حکمران طبقہ نہ صرف مزدوروں کی پیدا کردہ تمام تر دولت لوٹ لیتا ہے بلکہ اقتدار پر قابض ہو کر اپنے طبقے کے تحفظ کے لیے تمام تر پالیسیاں بھی ترتیب دیتا ہے اور ریاست اور اس کے تمام اداروں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک اوزار کے طور پراستعما ل کرتا ہے۔ محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے ہر جگہ، پولیس، فوج، عدالتوں اور پارلیمنٹ کے نام نہاد جمہوری اداروں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اور وقت پڑنے پر ترقی یافتہ ”جمہوری“ ممالک میں بھی اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔
اس صورتحال میں انتہائی ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنے کے لیے سوشلسٹ انقلاب کا متبادل اور اس کے حصول کی جدوجہد کا طریقہ کار کھل کر محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کے سامنے رکھا جائے اور اس کے لیے تمام تر قربانیاں اور وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس کو حاصل کیا جائے۔ صرف ایک سوشلسٹ نظام میں ہی مزدوروں کی پیدا کردہ تمام تر دولت ان کے اپنے کنٹرول میں ہو گی اور بینکوں اور اسٹاک ایکسچینج کے مالیاتی نظام کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ سماج میں موجود تمام وسائل محنت کش عوام کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے بروئے کار لاتے ہوئے روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم ہر شخص کو اس کی دہلیز پر فراہم کیا جائے گا اور ظلم اور ناانصافی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگا۔ اس ملک کا انقلاب در حقیقت عالمی سوشلسٹ انقلاب کا پیش خیمہ ہوگا اور پوری دنیا سے سرمایہ داری اور سامراجیت کے خاتمے کا آغاز کرے گا۔