اس ملک کے مزدور اپنی تاریخ کے بد ترین ظلم اور جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی اور بھوک کا ننگا ناچ ہر طرف جاری ہے اور محنت کش طبقہ ظلم کی اس چکی میں پستا چلا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حکمران طبقے کی دولت اور عیاشی میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے جبکہ اس کے مظالم بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں تاریخی اضافے نے درمیانے طبقے کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے اور اس ملک کے کروڑوں لوگوں کو ذلت اور محرومی کی مزید اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ معاشی قتل عام کا یہ عمل رکتا ہوا نظر نہیں آ رہا بلکہ جتنا زیادہ اس ملک کے خونخوار حکمران دیوالیہ پن اور بحران کا شور مچاتے ہیں اتنے ہی بڑے پیمانے پر وہ محنت کش طبقے پر حملے کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔ جس وقت محنت کشوں پر تاریخ کے سب سے بڑے حملے کیے جارہے ہیں اسی دوران ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں اور ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی تاریخ کے سب سے بڑے اضافے ہو رہے ہیں۔ جس عرصے میں عوام پر بجلی، تیل اور دیگر ضروریات پر بھاری ترین ٹیکس لگا کر ان کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے اسی عرصے میں حکمرانوں کے کمیشن، کرپشن اور لوٹ مار انتہاؤں کو پہنچتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ تمام صورتحال ایک ایسی ڈراؤنی فلم کی طرح نظر آتی ہے جس میں خون آشام بلا معصوم اور بے گناہ افراد کا خون پیتی چلی جاتی ہے لیکن اس فلم کا کوئی انت نظر نہیں آ رہا۔ بظاہر یہاں بھی اس حکمران طبقے کا اقتدار پر قبضہ بہت مضبوط دکھائی دے رہا ہے۔
اس تمام عمل میں حب الوطنی کا چورن بیچنے کا عمل بھی جاری ہے اور حکمران طبقہ بھوک اور بیماری کی خونی دلدل میں پھنسے عوام کو جشن آزادی منانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس تمام عمل میں حکمران طبقے کے نظریات، ان کی جھوٹی مسلط کردہ تاریخ اور ان کے بدبودار اور غلیظ نظریات بھی سماج پر پوری قوت کے ساتھ مسلط کیے جا رہے ہیں۔ لیکن محنت کشوں میں جہاں اس حکمران طبقے سے نفرت اور حقارت اپنی انتہاؤں پر پہنچ چکی ہے وہاں ان کی مسلط کردہ تاریخ اور نظریات کے خلاف بھی شدید غصہ اور نفرت موجود ہے۔
اگست کے مہینے میں حکمران طبقہ ”آزادی“ لفظ کا استعمال پہلے کی نسبت زیادہ کر دیتا ہے اور محنت کش طبقے کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جس دردناک اور تکلیف دہ کیفیت میں وہ زندگی گزار رہے ہیں وہ ”آزادی“ کی قیمت ہے اور انہوں نے یہ سب خود اپنی مرضی سے منتخب کیا ہے اور اس کیفیت کے وہ خود ہی ذمہ دار بھی ہیں۔اسی طرح ملکی سالمیت اور دفاع کے نام پر عوام سے مزید قربانیوں کا مطالبہ کرنا بھی بے شرم حکمرانوں کی روٹین بن چکی ہے اور اس ملک میں ہمیشہ قربانی کے نام پر صرف عوام کی بلی ہی چڑھائی گئی ہے۔ اسی طرح ”نظریہ پاکستان“ کا مطلب بھی عوام کو یہی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے خون کی ندیاں بہا کر حکمران طبقے کی عیاشی کا سامان مہیا کرنا ہے تاکہ وہ خود آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کے سامنے دم ہلاتے رہیں اور ان کے اشاروں پر حکم بجا لاتے رہیں اور بدلے میں اپنی تجوریاں بھی بھرتے رہیں۔ المیہ یہ ہے کہ امریکہ سے لے کر چین اور سعودی عرب کے سامراجی حکمرانوں کی تھپکیوں پر خوش ہوکر دم ہلانے والے گماشتے اس ملک کے محنت کش طبقے کو اگست کے مہینے میں آزادی کا مفہوم سمجھارہے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میڈیا میں موجود ان کے کاسہ لیس دانشور بھی انہی الفاظ کی جگالی کرتے ہوئے مسلسل ایک جھوٹی تاریخ مسلط کر رہے ہوتے ہیں جس میں کھوکھلی نعرے بازی اور حقائق کو جھوٹ اور غلاظت تلے دفن کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ اور یہاں پر مسلط سرمایہ دارانہ ریاست برطانوی سامراج کا ہی تسلسل ہے اور اس خطے کا محنت کش طبقہ آج تک ان سے آزادی حاصل کر ہی نہیں سکا۔یہاں پر موجود عدلیہ، پولیس، بیوروکریسی اور فوج کے تمام اداروں کی بنیاد برطانوی سامراج نے ہی رکھی تھی اور آج تک ان تمام اداروں اور ریاست کا کردار وہی عوام دشمن اور غاصبانہ ہے جس کا تعین برطانوی سامراج نے کیا تھا۔ یہاں پر موجود بینک، مالیاتی ادارے اور تمام تر مالیاتی نظام کی بنیاد برطانوی سامراج نے ہی رکھی تھی اور آج بھی سرمایہ دارانہ اصولوں کے مطابق یہ نظام محنت کش سے اس کی محنت نچوڑ رہا ہے اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس ملک کے حکمران آج بھی سامراجی طاقتوں کے ویسے ہی مطیع اور فرماں بردار ہیں جیسے نام نہاد آزادی سے پہلے کے عرصے میں اس خطے کی اشرافیہ تھی اور انگریزوں کے سامنے دم ہلا کر مراعات اور نوازشیں بھیک میں لیتی تھی۔ یہ اشرافیہ اور ریاستی ادارے پہلے بھی سامراجی آقاؤں کے حکم پر یہاں کے عوام کی خون کی ندیاں بہا دیتے تھے، باغیوں اور آزادی پسندوں کو جیلوں میں ڈال دیتے تھے یا پھانسیاں دے دیتے تھے اور ان پر حکمرانی کرنے کے لیے ان کو مذہب، قوم اور زبان کے نام پر تقسیم کرتے تھے اور آج بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ درحقیقت 76 سال پہلے ہونے والے بٹوارے کا منصوبہ بھی برطانوی سامراج نے اسی مقصد کے لیے بنایا تھا تاکہ اس خطے میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں اور بغاوتوں کو مذہبی تعصبات کے ذریعے زائل کیا جائے اور سرمایہ دارانہ نظام کو محفوظ بنایا جائے۔ اس منصوبے پر عملی جامہ پہنانے کے بعد سامراجی آقا خود تو یہاں سے چلے گئے لیکن ان کا مسلط کردہ نظام آج بھی یہاں موجود ہے۔ انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی انہی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے۔
76سال کے عرصے میں ریاست کا استحصالی کردار تبدیل ہوا ہے، نہ ہی حکمران طبقے کے مظالم میں کمی آئی ہے اور نہ ہی محنت کش طبقے کو خوشحالی اور ترقی میسر آ سکی ہے۔ اس سب کی بنیاد میں موجود استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے تسلسل نے اس سماج کو ترقی دینے کی بجائے ظلم اور بربریت میں دھکیل دیا ہے اور اس نظام کے اندر کسی قسم کی کوئی بہتری یا اصلاح کا کوئی امکان دور دور تک بھی موجود نہیں۔ محنت کش طبقے کی نجات اسی میں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے حقیقی آزادی حاصل کرے۔ جنوبی ایشیا کے خطے کے کسی بھی ایک ملک میں ہونے والا سوشلسٹ انقلاب اس پورے خطے سے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا نقطہ آغاز بنے گا اور پورے بر صغیر سے برطانوی سامراج کے مسلط کردہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا عمل شروع ہوگا۔ یہ انقلاب جہاں اس مزدور دشمن ریاست اور اس کے عدلیہ، پولیس، بیوروکریسی، بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دیگر تمام اداروں کا مکمل خاتمہ کر دے گا وہاں برطانوی سامراج کی مسلط کردہ مصنوعی لکیروں اور تعصبات کا بھی خاتمہ کرے گا۔ یہ انقلاب پورے خطے میں امن و آشتی اور بھائی چارے پر مبنی ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھے گا جس میں نہ صرف مزدور کی محنت کے استحصال کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگا بلکہ مذہب، قوم اور زبان کا محنت کشوں کو تقسیم کرنے کے اوزار کے طور پر بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اس خطے کو آگ اور خون میں دھکیلنے والے اپنے انجام کو پہنچیں گے اور مزدور طبقے کا معاشی قتل عام کرنے والوں کو سر عام سزائیں دی جائیں گی۔ وہی وہ تاریخی دن ہوگا جب اس خطے کے مزدور جشن آزادی منائیں گے۔