حکمران طبقہ آنے والے دنوں میں عوام پر مہنگائی اور بیروزگاری کے بڑے حملے کرنے جا رہا ہے۔ ملکی معیشت کے دیوالیہ پن کا تمام تر بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ جبکہ سرمایہ داروں، بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر عوام جتنا ہی ٹیکس لگا دیا جائے تو پاکستان جیسی دس معیشتیں دیوالیے سے باہر نکل سکتی ہیں۔ لیکن موجودہ نظام میں یہ ممکن نہیں اور یہ عوام دشمن قوتیں مل کر عوام کو معاشی بدحالی کے ذریعے موت کے منہ میں دھکیل رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی غلامی کو تقدیر کا لکھا مان کر تمام حکمران اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور اپنے اس آقا کے حکم کو بجا لانا اپنے لیے زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ اس صورتحال میں عوام کے پاس اس ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد کے علاوہ کوئی رستہ نہیں بچتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جدوجہد کیسے منظم کی جائے اور اسے کامیابی کیسے مل سکتی ہے۔
سب سے پہلے تو ہر محنت کش اور انقلابی نوجوان کو یہ پختہ یقین پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اس جدوجہد میں اس کا ساتھ صرف اس کے طبقے کے لوگ دیں گے۔ حکمران طبقے کے کسی فرد یا گروہ سے امید لگانا یا ان سے مدد کی اپیل کرنا انتہائی بیوقوفی ہے اور اس جدوجہد کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔
سیاسی پارٹیاں، عدالتیں، قانون، ریاستی اہلکار یا حکمران طبقے اور ریاستی اداروں کا کوئی بھی اعلیٰ عہدیدار محنت کش طبقے کا دشمن ہے اور مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف اس جدوجہد میں ہمیشہ سرمایہ دار طبقے کا ہی ساتھ دے گا، اسی لیے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی مصالحت نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح روایتی میڈیا، دانشور، تجزیہ نگار اور اینکر پرسن بھی سرمایہ دار طبقے کے ہی آلہ کار ہیں اس لیے ان کے مشوروں اور تجزیوں کو ماننے سے یکسر انکار کرنے کی ضرورت ہے۔
عام طور پر پریشان دکھنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کو برداشت نہیں کریں گے تو ملک ترقی کیسے کرے گا یا پھر رونی سی شکل بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ تو ہر صورت واپس کرنا ہی ہے اس لیے حکومت مہنگائی کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی ہے۔ یہ سب جھوٹ اور بکواس ہے۔ آج بھی حکومت کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ سینکڑوں نئے ہسپتال اور تعلیمی ادارے بنائے جا سکتے ہیں، صنعتیں لگائی جا سکتی ہیں اور علاج اور تعلیم مفت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے سرمایہ داروں کے منافعوں پر ٹیکس لگانا پڑے گااور ان کی دولت کا ایک حصہ چھین کر عوام پر خرچ کرنا ہوگا۔ لیکن موجودہ نظام میں یہ ممکن نہیں اس لیے ہر قسم کا جھوٹ پھیلایا جاتا ہے جس کے خلاف اب جدوجہد ناگزیر ہو چکی ہے۔
مہنگائی، بیروزگاری کے خلاف تحریک میں یہ بھی پختہ یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر شخص کو اپنے طبقے کے دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور سب نے مل کر ایک منظم جدوجہد کے ذریعے ہی ان حملوں کو شکست دینی ہے۔
بجلی، گیس کے ہوشربا بلوں کے خلاف لڑائی ہو، تعلیمی ادارے میں فیسوں میں اضافے کے خلاف جدوجہد ہو یا پھر کسی فیکٹری یا ادارے سے جبری برطرف کیے جانے والے محنت کشوں کی لڑائی ہو، ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہماری یکجہتی ہے۔ جب سب مل کر، اکٹھے ہو کر حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کریں گے تب ہی کامیاب ہو سکیں گے۔ اسی لیے گلی، محلے، تعلیمی ادارے یا فیکٹری کی سطح پر کسی بھی ایسے ہی ایشو کے خلاف بحثوں کا آغاز کیا جائے کہ کیسے مل کر بجلی، گیس کے بلوں یا فیسوں کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے یا کیسے جبری برطرف محنت کشوں کی بحالی کی تحریک منظم کی جا سکتی ہے۔ آغاز میں اگر پانچ یا دس لوگ بھی ان بحثوں میں شامل ہوتے ہیں تو اسی کو کامیابی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ان بحثوں کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے زیادہ بڑے اجتماعات منظم کرنے کی طرف جانا چاہیے۔ ایک گلی سے دوسری گلی، ایک محلے سے دوسرے محلے، ایک فیکٹری سے دوسری فیکٹری، ایک ادارے سے دوسرے ادارے تک ان بحثوں اور اجتماعات کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ سب کو یہ بھی یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں کسی بھی مروجہ لیڈر، کسی شعلہ بیان مقرر یا کسی مروجہ سیاسی پارٹی کی قیادت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اس سماج میں سب سے بڑی طاقت عوام کا اکٹھ ہے اور ایک دفعہ وہ حرکت میں آ جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ اس کے لیے سب کو اپنے زورِ بازو پر یقین کرنا ہوگا اور اگر کوئی نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے تو اسکی کڑی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی کمپین کرنے کے بعد اور ہر جگہ پر منتخب کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے ایک ٹیم کی شکل میں آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے لیے سب کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔ ہر گلی، محلے یا فیکٹری کی کمیٹی کو باقاعدگی سے میٹنگ کرنی ہوگی تاکہ کسی بھی قسم کے اختلاف کو دور کیا جا سکے۔ اس میں عوام دشمن قوتیں اس تحریک کو کمزور کرنے اور پھوٹ ڈالنے کی بھی کوششیں کریں گی۔ ذات، برادری، یا قبیلے یا پھر مذہبی، قومی، فرقہ وارانہ تعصبات کے ذریعے تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن یہ تمام کارکنان پر فرض ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری کے خلاف اس تحریک میں ہر قیمت پر محنت کش عوام کے اتحاد کو قائم رکھنا ہے اور دشمن پر مل کر وار کرنا ہے۔
اس تحریک کو اگلے مرحلے پر لے جاتے ہوئے بڑے اجتماعات منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سینکڑوں کی تعداد میں افراد اس میں شریک ہوتے ہیں تو پھر باقاعدہ طور پر بلوں کے بائیکاٹ کے عملی اقدامات کی جانب بڑھنا ہوگا۔ اسی طرح بیروزگار ہونے والے افراد کو اس ادارے یا فیکٹری کا گھیراؤ کرنے کی جانب بڑھنا ہوگا۔ اس عملی اقدام کے ساتھ ہی تحریک کا دائرہ کار وسیع کرنے کی بھی ضرورت ہے اور جلسے، جلوسوں کے انعقاد کو تیز کرنا ہوگا اور ساتھ ہی دوسرے علاقے کے لوگوں کو اس تحریک میں تیزی سے شامل کرنا ہوگا۔ جتنی زیادہ یہ تحریک پھیلے گی اتنی ہی یہ طاقتور ہوتی چلی جائے گی اور حکمران طبقہ پسپائی کی جانب بڑھے گا۔ آزاد کشمیر میں یہ طریقہ کار کامیابی سے ہمکنار ہو چکا ہے اور گزشتہ ایک سال سے وہاں پر لاکھوں افراد نے بجلی کے بل ادا نہیں کیے۔
اس تحریک کی سب سے بڑی طاقت منظم محنت کش طبقے کی شمولیت ہے۔ اس کے لیے محنت کشوں سے اس تحریک کی حمایت میں ہڑتال کی اپیل کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں اس جدوجہد میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر شہر میں مختلف سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں کے محنت کش موجود ہیں۔ ان سے اپیل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ نہ صرف ان جلسے جلوسوں کا حصہ بنیں بلکہ اپنے اپنے ادارے میں اس مسئلے کے خلاف ہڑتال کا بھی آغاز کریں۔ اس ہڑتال کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ایک شہر کی سطح سے آغاز کرتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ پورے ملک کا پہیہ جام کیا جا سکے اور حکمران طبقے اور آئی ایم ایف کو فیصلہ کن شکست دی جا سکے۔
اس تمام عمل میں تحریک کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بیروزگاری کے معاشی مطالبات یقینی طور پر سیاسی مطالبات کی جانب بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔
اس وقت کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس مہنگائی اور بیروزگاری کا حل موجود نہیں کیونکہ سرمایہ داری کی حدود میں کوئی حل موجود ہی نہیں۔ اسی لیے یہ تحریک آگے بڑھے گی تو سرمایہ داری کے خاتمے کو اپنا نصب العین بنائے گی۔
عام ہڑتال کے بعد تحریک کے اگلے مرحلے میں بینکوں، صنعتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو محنت کش طبقہ اپنے جمہوری کنٹرول میں لے گا۔ سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام ادارے ختم کرے گا۔ نجی ملکیت کے نظام کو اکھاڑ پھینکے گا اور حتمی طور پر مزدور طبقہ انقلابی پارٹی کے ذریعے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے گا اور مزدور راج کا آغاز ہو گا۔ اسی وقت ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان مزدور ریاست کی جانب سے دیا جا سکے گا اور علاج اور تعلیم کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس، پانی اور دیگر بنیادی سہولیات مکمل طور پر مفت فراہم کی جائیں گی۔