اشرافیہ کی سیاست کا تعفن پورے سماج میں پھیلتا جا رہا ہے جبکہ مزدور سیاست کی تازہ ہوا کا انتظار بڑھتا جا رہا ہے۔ بجٹ کی بحثوں سے لے کر ٹی وی کے ٹاک شو ز تک ہر جگہ رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں کی ناکامی چیخ چیخ کر اپنا اعلان کر رہی ہے۔ حکمران جماعتوں سے لے کر اپوزیشن کی تمام جماعتوں تک کسی کے پاس بھی عوام کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔ ایک دوسرے کو گالی گلوچ، الزامات کی بوچھاڑ اور ناکامی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کے سوا اب اس سرکس میں کسی کے پاس بھی نئی آئٹم موجود نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی کھینچا تانی سے لے کر عدلیہ کے بحران تک سب کچھ واضح کر رہا ہے کہ اب اس حکمران طبقے کے پاس عوام کو دینے کے لیے کوئی تسلی، کوئی نعرہ کوئی امید بھی نہیں رہی۔ پورے کا پورا نظام تیزی سے ایک کھائی کی جانب بڑھ رہا ہے جس سے بچنے کا دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہا ہے جس میں روپے کی قدر میں تاریخ کی بد ترین گراوٹ سے لے کر مہنگائی، بیروزگاری اور ٹیکسوں میں تاریخ کا بلند ترین اضافہ شامل ہے۔ لیکن اس موقع پر کسی بھی سیاسی پارٹی یا سیاسی لیڈر کے پاس عوام کے مسائل کاکوئی حل موجود نہیں۔ عوام کی تحریک انصاف سمیت تمام حکمران جماعتوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کے لیے بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف کو منظر پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ شہباز شریف اور اس کا فرزند حمزہ شہباز، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق اور دیگر ایسے پرانے کھلاڑیوں کو بھی ان کی اہلیت کے مطابق مختلف کردار سونپے جا رہے ہیں۔ مظلوم قومیتوں پر مزید مظالم کے لیے قوم پرست پارٹیاں بھی حسب ضرورت اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی اور دست شفقت سے پروان چڑھنے والی تمام قوتوں کو یکجا کر کے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ آپ کے نمائندے ہیں اور آپ کے تمام مسائل کا حل تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سے بڑا مذاق شاید ہی تاریخ میں کبھی کیا گیا ہو۔
بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں موجود سندھ کی حکومت اس وقت عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور انہیں بیروزگاری اور غربت میں دھکیلنے کے ساتھ ساتھ ان کے احتجاجوں پر بد ترین تشدد بھی کیا جارہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل آشیر باد سے موجود یہ حکومت آج بھی حکمران طبقے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے اور ایک جعلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش میں مصروف ہے جس میں اسے بالکل بھی کامیابی نہیں ملے گی۔ یہی حالت مریم نواز شریف کی ہے جس سے بہت سے لبرل توقع کر رہے تھے کہ وہ نواز شریف کی قید کے باعث اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک کی قیادت کرے گی لیکن آج وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ درحقیقت اپوزیشن کی ان تمام جماعتوں سمیت پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں میں ایک مشترک بات ان کی مزدور دشمنی ہے۔ پیپلز پارٹی سے لے کر جماعت اسلامی تک اور قوم پرستوں سے لے کر نون لیگ تک تمام جماعتوں نے اپنی اپنی حکومتوں میں مزدور دشمنی کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ گو کہ عمران خان کی موجودہ حکومت ان تمام ریکارڈوں کو توڑتی جا رہی ہے لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ باقی پارٹیوں اور باقی لیڈروں میں سے کسی کو جب بھی دوبارہ موقع ملا تو وہ یہ ریکارڈ بھی توڑ ڈالیں گے اور اس ملک کے محنت کش طبقے کو کچلنے، سامراجی گماشتگی کرنے اور دولت مند افراد کے مفادات کا تحفظ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
محنت کشوں پرنجکاری کے حملوں سے لے کر کم ازکم تنخواہ کی شرمناک حدکے خلاف اس مزدور دشمن پارلیمنٹ اور ان تمام مزدور دشمن پارٹیوں کی جانب سے کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ پارلیمنٹ سمیت دیگر ریاستی اداروں پر براجمان تمام حکمرانوں کی دولت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ابھی بھی اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک طرف بحران بحران کی رٹ لگائی جا رہی ہے لیکن دوسری جانب کوئی بھی حکمران اپنی پر تعیش زندگیوں میں رتی بھر کمی بھی کرنے کے لیے تیار نہیں جبکہ عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کے سیلاب میں بہایا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال ماضی میں بھی مختلف سماجوں میں دیکھی گئی ہے جہاں حکمرانوں کی عیاشیاں جاری رہتی ہیں لیکن عوام کی اکثریت کو بھوک اور بیماری سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن ایسی حالت میں کسی بھی سماج کا زیادہ دیر تک چلنا ممکن نہیں رہتا اور عوام ناگزیر طور پر زندہ رہنے کی خاطر سیاست کے میدان میں خود قدم رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اشرافیہ کی اس سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیتے ہیں۔ فرانس کے انقلاب کا ایک قصہ بہت مشہور ہوا تھا کہ جب ملکہ سے لوگوں نے شکایت کی کہ ہمارے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں تو اس نے کہا کہ اگر روٹی نہیں تو کیک کھا لیں۔ آج اس کے ملک کے حکمرانوں کی گفتگو سن کر بھی عوام کو یہی پیغام مل رہا ہے۔ وزیروں اور مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دولت مند افراد کے لیے نئی رہائشی سکیمیں دھڑا دھڑ بنتی جا رہی ہیں، مہنگی ترین گاڑیاں اورزرق برق لباس بڑھ رہے ہیں، مہنگے کھانوں کے ریستورانوں کی رونقیں بڑھ رہی ہیں جبکہ محنت کشوں کے چہروں پر زردی مزید پھیل رہی ہے۔ ان بیمار جسموں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے جسم جن میں زندگی کی رمق بجھتے ہوئے دیے کی مانند ٹمٹما رہی ہو، جو انسان سے زیادہ ہڈیوں کا ڈھانچہ دکھائی دیتے ہوں، خون کی الٹیاں کرتے، رینگتے ہوئے کیڑوں کی مانند ہر وقت خوراک کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ہوں اور اسی حالت میں اپنی زندگی کے بوجھ سے چھٹکارا بھی پا لیتے ہوں۔
لیکن جب یہ گلے سڑے ڈھانچے اپنے حق کے لیے باہر نکلیں گے اور اس سماج پر براجمان حکمرانوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کریں گے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں روک نہیں سکے گی۔ اس سماج کی تمام تر سیاست، صحافت اور دیگر تمام ستونوں کو روندتے ہوئے جمہور کے یہ قافلے ایک نئے سماج کی بنیاد رکھیں گے۔ ایک ایسا سماج جس میں امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو اور یہاں پیدا ہونے والی تمام تر دولت پر سب کا اجتماعی حق ہو۔ کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے اور کوئی بھی شخص دولت کے انبار سمیٹ کر لاکھوں لوگوں کو غربت اور ذلت میں نہ دھکیل سکے۔ یہ سب کچھ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کے ذریعے اس عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ صرف یہی نظریہ آج کی مزدور سیاست کی حقیقی بنیادبن سکتا ہے جو اس وقت موجود خلا کو پر کرتے ہوئے اشرافیہ کی بد بو دار سیاست کاخاتمہ کرے گی۔