عالمی سطح پر جاری انتہائی تیز ترین تبدیلیوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور تضادات تیزی سے پھٹنے کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ اس تمام عمل سے پوری دنیا پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن میں آنے والے عرصے میں نئے دھماکے متوقع ہیں۔
اس سال کی نئی سہ ماہی کے آغاز پر عالمی سطح پر امریکہ اور چین کے مابین جاری تنازعے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ چین نے ٹرمپ کی پالیسیوں کے جواب میں تین ارب ڈالر مالیت کی 128امریکی اشیا کی درآمد پر ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔چین کے جوابی حملے سے اس سال کی تجارتی جنگ کا ایک نیا آغاز ہوا ہے جس کے پہلے ہی دھچکے میں امریکہ اور یورپ کی اسٹاک ایکسچینجوں میں گراوٹ دیکھنے میں آئی۔لیکن خودعالمی سرمایہ داری کے حامی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ محض آغاز ہے اور یہ عمل زیادہ شدت سے آگے بڑھے گا۔اس تجارتی جنگ کے باعث عالمی معیشت میں ایک وسیع پیمانے کی کساد بازاری کے امکانات پر بھی زور و شور سے بحث کی جا رہی ہے اور دونوں سامراجی ممالک کو اس عمل کو روکنے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔لیکن اس تمام تر عمل کی بنیادیں اس سرمایہ دارانہ نظام کے زوال میں موجود ہیں اور تمام تجزیہ نگاروں کی خواہشات اور مشوروں کے باوجود یہ عمل تیزی سے آگے بڑھتا جائے گا اور سرمایہ اپنی حرکت کے قوانین کے تحت احتیاط کی تمام تجاویز کو روندتا ہوا آگے بڑھے گا۔
معاشی بحران کے سیاست پر اثرات مرتب ہونا ناگزیر ہے اور یہ تبدیل شدہ سیاست پھر دوبارہ معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ عمل مسلسل تبدیل ہوتا ہوانئے تضادات کو جنم دیتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ امریکہ اور چین کے تنازعے کے عالمی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایک طرف برطانیہ ، امریکہ اور دیگر ممالک سے روسی سفارتکاروں کی بیدخلی کی گئی ہے جبکہ روس نے بھی اس کا کرارا جواب دیا ہے۔ اس کی بنیاد برطانیہ میں ایک خفیہ ایجنٹ پر قاتلانہ حملہ ہے جس کا بے بنیاد الزام روس پر عائد کیا گیا ہے۔اسی طرح شمالی کوریا کے سربراہ کا دورۂ چین ہے جو اس کا بر سر اقتدار آنے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ آنے والے دنوں میں وہ جنوبی کوریا کے وزیر اعظم اور امریکی صدر ٹرمپ سے بھی ملاقات کرے گا۔صرف چند ہفتے قبل ٹرمپ اور کم جانگ ان ایک دوسرے پر ایٹم بم گرانے کے بیانات دے رہے تھے۔اسی سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی سیاست ایسی طرز پر چل رہی ہے جس میں مسلسل ہیجان، افراتفری ، انتشار اور تیز ترین تبدیلیاں ہیں۔درحقیقت عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن تبدیل ہو چکا ہے اور سیاست و معیشت اس توازن سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں ہیں۔یہ تمام تر عمل تضادات اور انتشار سے پُر ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں یہ عمل ہر طرف خونریزی اور قتل و غار ت پھیلا رہا ہے اور ہر وقت نئی جنگوں اور خانہ جنگیوں کے امکانات ابھرتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کی صیہونی ریاست نے ایک دفعہ پھر نہتے فلسطینیوں پر گولی چلا کر اپنے سامراجی عزائم کو دہرایا ہے جس کے خلاف پوری دنیا میں غم و غصہ ابھرا ہے۔ اس موقع پر اسلام کے منبع سعودی عرب سے اسرائیل کے حق میں آواز بلند ہوئی ہے۔اس سے قبل ولی عہد محمد بن سلمان نے ’ڈالر جہاد‘ کے جرم کو بھی تسلیم کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ سعودی عرب مغربی سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔لیکن یہ جرم تسلیم کرنے کا مقصد اس کی تلافی نہیں بلکہ اس گماشتگی کو نئے انداز میں جاری رکھنا ہے۔آج ان کے سامراجی آقاؤں کے مفادات مختلف ہیں اور وہ مذہبی بنیاد پرستی کی بجائے روس اور چین کے ساتھ نئے تصادم کے لیے تیاری کر رہے ہیں ۔ لیکن یہ تصادم کسی نئی سرد جنگ کا احیا نہیں ہے کیونکہ چین اور روس خود بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ستون اور سامراجی ممالک ہیں۔ اس لیے یہ تصادم پورے نظام کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں جس میں سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کی تمام ریاستیں و معیشتیں شامل ہیں۔ایران میں ابھرنے والے مزدوروں ، کسانوں اور خواتین کے اپنے حقوق کے لیے ہونے والے ملک گیر احتجاج بھی اس عمل میں حکمران طبقے کی کمزوری اور طبقاتی کشمکش میں شدت کا اظہار ہیں۔عراقی کردستان میں ہزاروں سرکاری ملازمین کا اپنی تنخواہوں کے لیے احتجاج بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں احتجاجی تحریکیں پوری شدت کے ساتھ نہ ابھر رہی ہوں۔ امریکہ میں اسلحے کے قانون میں تبدیلی کے لیے سکولوں کے لاکھوں بچوں کا احتجاج ہو یا ہندوستان میں کسانوں اوربیروزگاروں کے اپنے حقوق میں احتجاج پوری دنیا طوفانی واقعات کے بھنور میں ہے ۔ یہ بھنور عالمی معیشت اور سیاست سے لے کر انتہائی مستحکم اور مضبوط ریاستوں کو بھی کمزور کرتاچلا جا رہا ہے۔
پاکستان کی ریاست اور سیاست اس تمام عمل سے الگ نہیں رہ سکتی بلکہ یہ عالمی سرمایہ داری کی کمزور ترین کڑیوں میں سے ایک ہے۔ایک مصنوعی ریاست جس کا جنم ہی سامراجی گماشتگی کے لیے کیا گیا آج اپنی تمام نظریاتی بنیادیں اور وجود کا جواز کھوچکی ہے۔امریکہ چین تنازعہ ہو یا سعودی عرب اور ایران کی سامراجی جنگ پاکستانی ریاست کی حالت چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والے گیہوں کی سی ہو گئی ہے۔یہاں کا حکمران طبقہ کبھی بھی اپنی آزادانہ پالیسی ترتیب دینے کا اہل نہیں رہا اور سامراج کی گماشتگی اور اس کام کی مناسب فیس کی وصولی ہی اس کا بنیادی اصول رہے ہیں۔ایسے میں آج کے ہنگامہ خیز واقعات میں کسی واضح سمت یاخارجہ، داخلہ اور مالیاتی پالیسی کا تعین کرنا اس حکمران طبقے کے لیے نا ممکن ہے۔ مختلف سامراجی قوتوں کا باہمی ٹکراؤ اس ریاست کو مخالف سمتوں میں کھینچ رہا ہے اور اس کوکمزور کرتے ہوئے انہدام کا باعث بنیں گے۔فوج کی فرقہ وارنہ بنیادوں پر سعودی عرب روانگی، چینی سامراج کے ساتھ فوجی اڈوں کے لیے مذاکرات اور بڑھتا ہوا معاشی بحران اسی عمل کا اظہار ہیں جو بڑے حادثوں کی صورت میں سطح پر اپنا اظہار کریں گے۔
اس وقت پاکستان درحقیقت ایک تیزی سے پگھلتی ہوئی ریاست ہے جس کا وجود حالات کی بھٹی میں ختم ہو رہا ہے۔جب کوئی شے پگھلنے کے عمل سے گزرتی ہے تو اس کے مختلف حصے مختلف رفتار سے پگھلتے ہیں اور اس کی شکل میں مسلسل تبدیلی آتی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ مکمل طور پر تحلیل ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی نیا سانچہ موجود ہو تو اس مواد کو اس کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔پاکستان کی ریاست کے مختلف حصے اپنی عملداری کھوتے جار ہے ہیں اور اس کی نظریاتی بنیادیں ہل چکی ہیں۔آنے والے وقت میں یہ تمام عمل کم یا زیادہ رفتار کے ساتھ جاری رہے گا اور اس گماشتہ ریاست کو اپنے انجام کی جانب لے کر جائے گا۔
اگر کوئی قوت اس عمل میں رخنہ ڈال سکتی ہے اور معاشی بحران کے باعث پیدا ہونے والی ذلت اور محرومی میں اضافے کا خاتمہ کر سکتی ہے تو وہ یہاں کا محنت کش طبقہ ہے۔یہی طبقہ سامراجی طاقتوں، آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک و دیگر سامراجی مالیاتی اداروں اور مقامی حکمران طبقے اور اس ظالم ریاست کے خلاف ایک ہی وقت میں لڑائی لڑ نے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔مظلوم قومیتوں پر سامراجی جبر، مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، غربت، لاعلاجی ناخواندگی اور دیگر تمام مسائل سے چھٹکارا دلانے کا فریضہ بھی محنت کش طبقہ ہی سر انجام دے گا۔یہاں کا سرمایہ دار، جاگیر دار، بینکار، جرنیل، جج یا سیاستدان صرف یہاں لوٹ مار کرنے کے لیے موجود ہیں اور ان کے تمام تر اثاثے مغربی ممالک کے محفوظ مقامات پر ہیں۔ان کا مقصد اس لوٹ مار کو جاری رکھنا ہے ۔ اور اس کے لیے اپنی حکمرانی اور اس ریاست کو قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے خواہ اس کے لیے کتنے ہی لوگوں کے خون کی ہولی کیوں نہ کھیلنی پڑے، مہنگائی اور بیروزگاری میں کتنا ہی اضافہ کیوں نہ کرنا پڑے اور فوج اور پولیس کے مظالم میں کئی گنا اضافہ کیوں نہ کرنا پڑے۔ لیکن اس کے باوجود یہ ریاست اور ان کی حکمرانی کمزور ہو گی ۔ اس تمام تر جبر کیخلاف تحریکیں بھی بڑے پیمانے پر ابھر رہی ہیں اور آنے والے عرصے میں اس میں کئی گنا زیادہ شدت آئے گی۔ابھی تحریکوں میں لوگ صرف غصے اور نفرت کا اظہار کر رہے ہیں ابھی انہوں نے منظم انداز میں فیکٹریوں اور جائیدادوں پر قبضوں کا آغاز نہیں کیا۔اس نکتے تک پہنچنے کے لیے تحریکوں کو بہت سے مراحل سے گزرنا پڑے گا اور یہ عمل تضادات سے بھرپور ہو گا۔لیکن یہ طے ہے کہ اس عمل کا منطقی انجام نجی ملکیت کو چیلنج کرنے کا مرحلہ ہی ہے۔اس مرحلے پر مارکسی نظریات کے ساتھ ایک منظم انقلابی پارٹی موجود ہوئی تو محنت کش طبقے کی تحریک کو کامیاب سوشلسٹ انقلاب سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ جو اس خونی ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں ایک مزدور ریاست قائم کرے گا اورحقیقی خوشحالی کے سفر کا آغاز ہو گا۔