پاکستانی ریاست کا بحران نئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے جبکہ سامراجی طاقتوں کی لڑائی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یکم جنوری کو ٹرمپ کی ٹویٹ اور دو جنوری کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ یوآن(چینی کرنسی) میں تجارت کا فیصلہ ریاست کے نامیاتی بحران اور اس پر سامراجی طاقتوں کے دباؤ کی شدت کا تھوڑا بہت اندازہ دیتے ہیں۔ ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جس میں دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والاورلڈ آرڈر ٹوٹ چکا ہے لیکن اس کی جگہ کوئی نیا آرڈر نہیں ابھرا۔ بیسویں صدی میں جس طرح سرمایہ دارانہ نظام نے استحصال اور لوٹ مار کے لیے عالمگیر شکل اختیار کی اور پوری دنیا پر حکمرانی کی آج اس کا بحران بھی پوری دنیا میں ہرخطے اور ہر شعبے میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ ٹرمپ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا مجسم اظہار ہے۔ اس کے ہر عمل اور ہر بیان سے اس نظام کی بد بو دار اور تعفن زدہ غلاظت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے نعرے پر منتخب ہوا تھا لیکن درحقیقت وہ امریکی سامراج کے دیوالیہ پن اور زوال کو پوری دنیا پر عیاں کرتے ہوئے خاتمے کی جانب لے کر جا رہا ہے۔ پاکستانی ریاست نے اپنے جنم سے لے کر آج تک امریکی سامراج کی گماشتگی کی ہے‘ ہر حکم بغیر کسی چوں چرا کے تسلیم کیا ہے۔ لیکن آج امریکی سامراج کواپنے اس وفادار گماشتے کو بھی اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کے لیے مسلسل اقتصادی پابندیوں اور براہ راست حملوں کی نہ صرف دھمکیاں دینی پڑتی ہیں بلکہ سنجیدہ اقدامات بھی کرنے پڑتے ہیں۔ اس تمام عمل میں پاکستانی ریاست کے حکمران طبقے کے خصی پن اور گماشتگی کی حقیقت مزید عیاں ہوتی ہے جس سے بحران مزید گہرا ہوجاتا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے امریکہ کے لیے دشمنیاں مول لیں ورنہ سوویت یونین ہمارا دشمن نہیں تھا۔ اس بیان سے اور اس دوران دائیں سے بائیں تمام پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں، جرنیلوں، دانشوروں اور حب الوطن صحافیوں کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے گماشتہ کردار کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس پر فخر کرتے ہوئے اس کی قیمت کی وصولی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ یہی اس حکمران طبقے کا حقیقی کردار ہے اور اس ملک کا محنت کش طبقہ اسی لیے ان حکمرانوں سے نہ صرف شدید نفرت کرتا ہے بلکہ اب تو ان سے گھن آنے لگی ہے۔ اس تمام لڑائی میں واضح ہو چکا ہے کہ گزشتہ عرصے میں پاکستان میں ہونے والی تمام دہشت گردی میں امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست ملوث تھی۔ اس دوران پچاس ہزار سے زائد افراد کی موت کا ذمہ دار کون ہے اس کا تعین صرف ایک انقلاب کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کی عدالتوں، انتظامیہ، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں سے ایسی کسی بھی قسم کی توقع رکھنا ایک پاگل پن ہے۔ ٹرمپ کے بنیاد پرستوں کیخلاف بیانات اور ممکنہ اقدامات کے خلاف بہت سے لبرل تالیاں بجاتے ہوئے اچھل رہے ہیں اور اسے اپنی کامیابی گردانتے ہوئے مال بٹورنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ دونوں ہی عوام دشمن قوتیں ہیں اور دونوں ہی محنت کش طبقے کیخلاف ایک ہی جیسے حقارت پر مبنی جذبات اور احساسات رکھتے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستوں نے امریکی سامراج کے ساتھ مل کر یہاں مزدور تحریک پر جتنے بڑے پیمانے پر حملے کیے ہیں اور ڈالروں کے لیے جتنے لوگوں کا یہاں قتل کروایا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن دوسری جانب لبرل این جی اوز اور دیگر انسانی حقوق کے پاسدار بھی مزدور دشمن پالیسیوں اور اقدامات کے سب سے بڑے دلال بن کر سامنے آئے ہیں۔ نجکاری، ٹھیکیداری اور دیگر نیو لبرل پالیسیوں کے محنت کشوں پر حملوں کی حمایت کرنے والے اور اصلاح پسندی کے نام پر زوال پذیرسرمایہ دارانہ نظام کو سہارا دینے والی عوام دشمن قوتیں اس سماج کی ترقی و خوشحالی کی نہیں بلکہ بربادی کی علمبردار ہیں ۔ محنت کش طبقے کو ان دونوں قوتوں سمیت ریاست اور تمام سامراجی طاقتوں کیخلاف ایک ناقابل مصالحت لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ کیخلاف چین کو نیا سامراجی آقا بنانے کا عمل بھی تیز تر ہو چکا ہے۔ سی پیک سے لے کر’ یوان‘ میں تجارت تک سب اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اب عوام کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ چین یہاں کے تمام مسائل کو حل کر دے گا۔ گماشتہ ریاست اور اس کے حکمران اپنے آقا کی تشہیر کرنے اور اس کی پالیسی کو تمام مسائل کا حل پیش کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ نئے گماشتے اور تجربہ کار گماشتے میں یہی فرق ہوتا ہے اسی لیے یہ اپنے کام کی پہلے سے زیادہ فیس بھی طلب کرتے ہیں۔ پہلے سوویت یونین کیخلاف جنگ میں جھونکتے وقت ’’ڈالر جہاد‘‘ کا نعرہ بڑی قیمت پر فروخت کیا گیا اور پھر ’’دہشت گردی کیخلاف جنگ‘‘ کا، جس کی ادا ہونے والی قیمت ٹرمپ نے 33ارب ڈالر بتائی ہے ۔ لیکن خود امریکی سامراج اور اس کی کمپنیوں نے اس کاروبار سے کتنا کمایا یہ ابھی منظر عام پر نہیں آیا۔ اب ’’چین کی ہمالیہ سے بلند دوستی ‘‘کا نعرہ بازار میں نیلامی کے لیے آ چکا ہے۔ خود کوبایاں بازوکہنے والے کرائے کے دانشور بھی اس میں اپنی قیمت لگوانے کی تیاری کر رہے ہیں اور محنت کشوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چین میکرو اکانومی کو کسی حد تک ضرور بہتر کر سکتا ہے۔ لیکن اس سارے عمل کو عالمی تناظر سے کاٹ کر دیکھنے والے کبھی بھی درست تجزیہ نہیں کر سکتے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کا ورلڈ آرڈر ٹوٹنے کا مطلب ہے کہ عالمی سطح پر موجود تمام ادارے، جن میں اقوام متحدہ، نیٹو، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف شامل ہیں، سے لے کر تمام تجارتی و مالیاتی معاہدے جن میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ٹوٹ رہے ہیں۔ ڈالر کا سامراجی کردار تیزی سے کم ہو کر بکھر رہا ہے جو درحقیقت امریکہ کی سامراجی طاقت کے تیز ترین زوال کی نشانی ہے۔ لیکن جیسے بیسویں صدی میں ڈالر نے پاؤنڈ کے متبادل کی حیثیت اختیار کی تھی ویسی کوئی قوت آج موجود نہیں۔ چینی یوان ڈالر کی جگہ لینے کی کوشش میں خود برباد ہو سکتا ہے لیکن یہ تمام عمل تضادات سے بھرپور ہے۔ پاکستان اور چین کی باہمی تجارت کا حجم 15ارب ڈالر کا ہے جو اب یوان میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح روس اور ایران بھی ڈالر کی بجائے چینی کرنسی کی جانب رجوع کر رہے ہیں۔ چین دیگر ممالک کو بھی ایسی ہی پیشکشیں کر رہا ہے۔ لیکن عالمی کرنسی بننے کے لیے ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں۔ اس سے پہلے کرنسی کے اس روایتی طریقہ کار کے ہی ختم ہونے کے امکانات ابھر چکے ہیں۔ بِٹ کوائن اس کی تازہ مثال ہے جس کی قیمت گزشتہ چند ماہ میں ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی۔ ایسے ہی وینزویلا معاشی دیوالیہ پن سے نکلنے کے لیے ’پیٹرو ‘کے نام سے نئی کرنسی متعارف کروا رہا ہے۔ گوکہ ان تبدیلیوں سے سرمائے کا بنیادی نظام اور اس کا کردار تبدیل نہیں ہو گا۔ لیکن سامراجی طاقتوں کی لڑائی مختلف شکلیں اختیار کرتے ہوئے پہلے سے موجود ریاستوں اور ان کے تمام بندھنوں کو توڑنے اور سماجوں کو برباد کرنے کی جانب بڑھے گی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ابھرنے والے نئے ورلڈ آرڈر نے بہت سی ریاستوں کو تخلیق بھی کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ موجودہ عہد اس ریاست اور خطے میں کیا تبدیلیاں لا سکتا ہے اس کے بہت سے امکانات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں مثالیں بھی موجود ہیں۔ لیکن اس تمام عمل کو خطے کے محنت کش طبقے کی جڑت اور ایک انقلابی تحریک خونریزی اور بربریت کی بجائے ایک روشن مستقبل کی جانب بھی لے جا سکتی ہے۔ اس کے واضح امکانات ایران میں ابھرنے والی سماج کے سب سے پسے ہوئے افراد کی تحریک میں نظر آ رہے ہیں۔ ایران کا محنت کش طبقہ اس تحریک میں شامل ہو کر اس کو ایک معیاری جست لگا سکتا ہے۔ آنے والا عرصہ پاکستان میں بھی ایسے ہی امکانات سے حاملہ ہے۔ ان طوفانی واقعات میں مارکسی نظریات پر قائم ایک مضبوط تنظیم سوشلسٹ انقلاب کر کے سماج کو ان غلیظ حکمرانوں اور سامراجی طاقتوں سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا سکتی ہے۔