انقلاب روس کے سو سال پر پوری دنیا میں اس عظیم انقلاب کی یاد میں تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب محنت کش طبقے کی اس میراث پر سرمایہ داروں اور ان کے گماشتوں کی جانب سے حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ بہت سی نئی کتابیں اور مضامین شائع کیے جارہے ہیں جن میں اس انقلاب کے واقعات کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس پر ہر قسم کے غلیظ الزامات لگائے جاتے ہیں۔ آج پوری دنیا میں سرمایہ داری کا مکمل غلبہ ہے لیکن اس کے باوجود انسانیت سسک رہی ہے اور آبادی کا وسیع ترین حصہ غربت، ذلت اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گزار رہا ہے۔ ہر جانب جنگیں، خانہ جنگیاں اور خونریزی نظر آتی ہے جہاں بے گناہوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکمران طبقات اور ان کے دلال دانشور سرمایہ داری کو بہترین نظام بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ سوشلزم کے عظیم نظریات کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک انقلاب نہیں تھا بلکہ ایک سازش تھی جس میں لینن نے فوج کے کچھ حصوں کو ساتھ ملا کر روس کے بادشاہ زارِ روس کا تختہ الٹ دیا تھا اور اپنی حکمرانی قائم کر دی تھی۔ اسی طرح لینن اور بالشویک پارٹی پر ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے جبکہ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ یہ سب درحقیقت ایک جرمن سازش تھی۔ بہتانوں اور الزام تراشیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس میں اس انقلاب کے حقیقی واقعات اور محنت کش طبقے کی لازوال قربانیوں اور جدوجہد کو تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس عظیم انقلاب کے خلاف حملے کرنے والوں میں صرف اس کے کھلے دشمن ہی نہیں ہیں بلکہ بہت سے دشمن دوست کا روپ دھار کر اس انقلاب اور اس کی حاصلات کو مسخ کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں اور ہالوں میں پر تعیش دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ اس انقلاب کی صد سالہ تقریب منعقد کی جا سکے۔ ان تقریبات میں تمام مزدور دشمن قوتوں کو مدعو کیا جاتا ہے جواپنے اپنے طریقے سے محنت کشوں کے مفادات کا سودا کر رہی ہیں یا پھر ان پر براہ راست حملوں میں شریک ہیں۔ ان میں جہاں مزدور دشمن حکومتوں کے وزیر اور مشیر شامل ہوتے ہیں وہاں مظلوموں کے زخموں کا غلیظ دھندہ کرنے والی مکرہ این جی اوز اور ان کے مالکان بھی شریک ہوتے ہیں۔ این جی او کا گھناؤنا کاروبار کرنے والے افراد درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے خون آلود چہرے پر ایک نفیس نقاب پہنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اصلاح پسندانہ چرب زبانی سے محنت کشوں کو اسی نظام اور اس کے حکمران طبقات کا ہمیشہ مطیع رہنے کا سبق دیتے ہیں۔ اس تمام تر گماشتگی کی انہیں معقول تنخواہ دی جاتی ہے اور ایسی مزدور دشمن تقریبات منعقد کرنے کے لیے تمام تر فنڈ بھی مہیا کیے جاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں جہاں محنت کشوں کو سرمایہ داروں اور ان کی پروردہ ریاست اور دیگر اداروں سے لڑائی لڑنی پڑتی ہے وہاں بھیڑ کی کھال میں موجود ان بھیڑیوں کو بھی پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بہت سے حملوں اور غداریوں کا پیشگی تدارک کیا جا سکے۔ دوست کے روپ میں ان غلیظ دشمنوں کایہ مؤقف بھی ہوتا ہے کہ اگر ہم نہیں ہو ں گے تو مزدوروں کو جدوجہد کے لیے فنڈ کہاں سے ملیں گے۔ سرمایہ داروں اور سامراجی طاقتوں سے پیسے اینٹھنے والو ں کا یہ مؤقف ہی ان کی حقیقت کی قلعی کھول دیتا ہے اور انقلابِ روس کے متعلق ان کے اصل خیالات کو سامنے لاتا ہے۔ مزدوروں کی جدوجہد مزدوروں کے اپنے پیسوں سے ہوتی ہے جو وہ اپنے روز مرہ کے انتہائی ضروری اخراجات میں سے کٹوتی کر کے جمع کرتے ہیں ان سے ہی وہ حقیقی جدوجہد مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکتی ہے جو اسے حتمی فتح تک لے جائے۔ لینن فخر کرتا تھا کہ اس کی بالشویک پارٹی مزدوروں کی چونّیوں اور اٹھنیوں سے بنی ہے اور اسی لیے یہ اتنی مضبوط ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ سرمایہ داروں اور سامراجی طاقتوں کی فنڈنگ پر چلنے والی تحریکوں کا انجام بھی انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ مزدور دشمنی کا کاروبارکرنے والے اپنی ذاتی تشہیر کے لیے بھی ان تقریبات کو استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے میڈیا کو خریدنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس تشہیر کو پھر حکمران طبقے کے افراد کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ انقلاب دشمنی کے کاروبار کو وسعت دی جا سکے۔ اس تمام تر عمل کے لیے انقلابِ روس اور اس کے عظیم قائدین کے مختلف اقوال کو بھی بے شرمی سے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور حکمران طبقے کے ساتھ گٹھ جوڑ پر انقلابی لفاظی کا غلاف چڑھانے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں۔
کاروبار کو وسعت دینے والی ان کانفرنسوں میں بائیں بازو کے اتحاد کا بھی نعرہ بلند کیا جاتا ہے اور صد سالہ تقریبات کے دوران یہ آواز پھر سے سنائی دینے لگی ہے۔ لیکن اس یکجہتی کا مقصد درحقیقت اس کاروبار میں مقابلہ بازی کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے اپنے حصے کی لوٹ مار کی بند بانٹ ہوتا ہے۔ بائیں بازو کا کہلانے وا لے ان افراد کا مارکسزم اور سوشلزم کے سائنسی نظریات کے ساتھ دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا اوروہ نظریاتی طور پر بھی سرمایہ داری کے غلام ہوتے ہیں۔ لیکن کاروبار کی نوعیت کے باعث اپنے آپ کو بائیں بازو کا کہتے ہیں اور گفتگو کے دوران عظیم مارکسی اساتذہ کا جب بھی نام آئے تو یہ کہنا نہیں بھولتے کہ یہ نظریات پرانے ہو چکے ہیں اور ان کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
انقلابِ روس کی عظیم روایت پر ایک اور بڑا حملہ سٹالنزم کی جانب سے کیا جاتاہے جو سٹالنزم کے تمام تر جرائم کو بالشویزم اور لینن ازم کاتسلسل قرار دیتے ہیں جبکہ اسی کو بنیاد بنا کر مزدور دشمن قوتیں سٹالنزم کو بالشویزم کا ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس تمام تر گرماگرم بحث میں بالشویزم کے حقیقی نظریات کو مسخ کیا جاتا ہے اور ٹراٹسکی کے نظریات اور اس کی لازوال قربانی اور جدوجہد کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اس تمام تر بحث میں دونوں جانب سے سوویت یونین کے انہدام کی غیر سائنسی وجوہات بھی پیش کی جاتی ہیں اور اسے چند غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت کی تمام تر حاصلات کو بھی رد کیا جاتا ہے۔
انقلابِ روس کے سو سال کے موقع پر ان تمام حملوں کا جواب دینا اور اس سارے عمل کی سائنسی بنیادوں پر وضاحت کرنا مارکس وادیوں کا اہم ترین فریضہ ہے۔ ایک جانب عالمی سطح پر جاری سرمایہ داری کا بحران واضح کرتا ہے کہ مارکسزم کے نظریات آج پہلے سے کہیں زیادہ قابل عمل ہیں۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو اور اپنی شہرۂ آفاق تصنیف سرمایہ میں مارکس اور اینگلز نے اس نظام کا جو تجزیہ کیا تھا اور جو تناظر پیش کیا تھا وہ وقت اور حالات نے بارہا درست ثابت کیا ہے۔ اسی طرح روس کا انقلاب ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلزم نہ صرف رائج کیا جا سکتا ہے بلکہ آج سماج کو ترقی دینے کا واحد ذریعہ بھی یہی نظام ہے۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے اس انقلاب نے پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ مزدور جو دولت پیدا کرتے ہیں وہ اس دولت کے مالک بھی بن سکتے ہیں اور سرمایہ داروں کی ریاست کا خاتمہ کر کے مزدوروں کی ریاست قائم کر سکتے ہیں۔ اس ریاست اور منصوبہ بند معیشت کی حاصلات نے بھی واضح کر دیا کہ روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات عوام کو مزدور ریاست کی جانب سے فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین اور مظلوم قومیتوں کی آزادی کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ آج مارکسسٹوں کو انقلاب کی سٹالنسٹ زوال پذیری سے بھی اسباق حاصل کرنے کی ضرورت ہے، کہ کیسے اگر مارکسزم کے بین الاقوامیت پر مبنی نظریات اور لینن ازم کے طریقہ کا رکو فراموش کر دیا جائے تو دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہونے کے باوجود محنت کشوں کی عظیم ترین حاصلات منہدم ہو سکتی ہیں۔
عالمی سطح پر ابھرنے والی تحریکیں اور انقلابات آج پھر ایک بہت بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں۔ ایسے میں انقلابِ روس کی میراث اور اس کے اسباق مارکسیوں کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں۔ ان سے سیکھتے ہوئے اور تمام مزدور دشمن قوتوں کو بے نقاب کر کے انہیں شکست دیتے ہوئے ہی دوبارہ یہاں پر ایک سوویت یونین تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس انقلاب کو خراج تحسین پیش کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔