پاکستان کا معاشی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گہر اہو رہاہے اور اس کے اثرات سیاست سمیت سماج کے ہر شعبے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے زوال اور بد ترین معاشی گراوٹ کا شکار ہے جبکہ عالمی سطح پر ایک نئی کساد بازاری اور مالیاتی بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ کرونا وائرس کے اثرات اس عالمی بحران کے آغاز کا سبب بن سکتے ہیں۔ لیکن اس صورتحال میں پاکستان جیسی کمزور اور نحیف معیشت کی حالت دیوالیہ پن کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں عوام پر بد ترین معاشی حملوں، مہنگائی، بیروزگاری اور غربت پھیلانے کے باوجود یہ بحران ختم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے اور اس ملک میں رہنے والے کروڑوں افراد کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ لیکن اس دوران مٹھی بھر سرمایہ دار، بینکوں کے مالکان اور حکمران طبقے کے دیگر افراد کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ آٹے اور چینی کی بد ترین قلت کے باعث لاکھوں افراد دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو چکے ہیں اور فاقے کرنے پر مجبور ہیں جبکہ سرمایہ داروں نے چند ہفتوں میں ہی اپنی دولت میں اربوں روپے کا اضافہ کر لیا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ظلم اور جبر کی یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ ان مظالم میں شدت آتی جا رہی ہے اور اس کیخلاف آواز بلند کرنے والوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔
پورا ملک اس وقت بد ترین بحران کی زد میں ہے اور بڑے پیمانے پر صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس کے باعث لاکھوں افراد بیروزگار ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال معاشی بحران کے باعث 10 لاکھ افرادبیروزگار ہوئے جبکہ اس سال مزید 12 لاکھ افراد بیروزگار ہوں گے۔ اسی طرح، گزشتہ ڈیڑھ سال میں 40 لاکھ مزید افرادغربت کی لکیر جبکہ آنے والے عرصے میں 80 لاکھ مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے گر جائیں گے۔ پاکستان میں غربت کی لکیر کا تعین ایک ڈالر یومیہ رکھا گیا ہے جو دنیا میں رائج پیمانے سے کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس وقت ملک کی آبادی کا 40 فیصد ایک ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزار رہا ہے اور اس غریب ترین آبادی میں تیز ترین اضافہ ہورہا ہے۔
حکمران طبقے کے ہی ایک معیشت دان ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اپنی تحقیق کے بعد نئے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جنہوں نے نہ صرف حکومتی اعداد وشمار کے جھوٹ کی دھجیاں اڑا دی ہیں بلکہ انتہائی تلخ حقیقتوں کو بھی آشکار کیا ہے۔ حکومت کے مطابق، اس سال جنوری کے مہینے میں افراطِ زر میں اضافہ ضرور ہوا ہے اور وہ گزشتہ سال جنوری کے مقابلے میں 14 فیصدکی خوفناک حدتک پہنچ چکا ہے۔ لیکن حفیظ پاشا کے مطابق یہ افراطِ زر 20فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے جبکہ خوراک کی اشیا میں افراطِ زر 25 فیصد سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ حکومتی اعداد وشمارمیں فی کلو آٹے کی قیمت 47 روپے لگائی گئی ہے، جبکہ، حقیقت میں یہ جنوری کے مہینے میں 77 روپے تک پہنچ چکی تھی۔ اسی طرح، مکانوں کے کرایوں، بجلی اورگیس کے بلوں اور دیگر اشیا کے اعدادوشمار بھی غلط رپورٹ کیے گئے ہیں جس سے حکومت کی جانب سے دیے گئے تمام اعداد و شمار کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ یہ بد ترین مہنگائی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب سٹیٹ بینک کی جانب سے شرحِ سود انتہائی بلند سطح پر موجود ہے اور اسے 13.25 فیصد تک بڑھایا گیا ہے۔ اتنی بلند شرحِ سود سرمایہ دارانہ نظام میں اس لیے رکھی جاتی ہے تاکہ افراطِ زر کو کنٹرول کیا جا سکے، گوکہ ایسا کرنے سے صنعتی و دیگر کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف اورحکومتی اداروں کے لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے معاشی ماہرین کی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں اور اتنی بلند شرحِ سود کے باوجود افراطِ زر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس زوال پذیر نظام کا نامیاتی بحران ہے جو محنت کش طبقے کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح، روپے کی قدر میں تیز ترین کمی کے باوجود برآمدات میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہو سکا۔ ملک کے اندر صنعتیں اور کاروبار تیزی سے بند ہو رہے ہیں اور حفیظ پاشا کے مطابق، اس وقت ملک کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ محض 1.9 فیصد ہے جو رواں مالی سال کے اختتام تک 1.2 فیصد کی کم ترین سطح تک پہنچ جائے گا۔ اسی طرح، بجٹ خسارہ بھی 8سے 9 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچنے کا امکان ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہوگا جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے اور حکومت نے یہ کمی صارفین تک پہنچانے کی بجائے اپنی جیب میں ڈالی ہے۔
لیکن، اس بد ترین معاشی بحران میں عالمی مالیاتی اداروں کے سامراجی قرضوں کی ادائیگی نہ صرف سود سمیت جاری ہے بلکہ بائیس کروڑ عوام کی آنے والی نسلوں کو گروی رکھ کر مزید قرضے لیے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کے اللے تللے نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان کے لیے مزید مراعات فراہم کرنے کے بل اسمبلیوں میں پاس کیے جا رہے ہیں جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں۔درحقیقت تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان فرق کرنا اب مشکل ہو گیا ہے اور سب ہی آئی ایم ایف کے سامراجی ایجنڈے پر متفق ہیں۔ اسی لیے یہ عوام میں اپنی حمایت کھو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں زبردستی مسلط رکھا جا رہا ہے تا کہ اس ظالمانہ نظام کو قائم و دائم رکھا جا سکے۔
اس نظام کے حکمران طبقے کے تمام افراد اس بد ترین بحران میں بھی پر تعیش زندگیاں گزار رہے ہیں۔ گالف کے میدان ہوں یا حکمرانوں کے محل، ہر جانب برقی قمقمے روشن ہیں اور کھلکھلاتی ہنسی اور رونقیں جاری و ساری ہیں جبکہ دوسری جانب محنت کشوں کے آنگن میں موت محوِ رقص ہے۔ حکمرانوں کی زندگیوں کی رنگینی اور سامراجی طاقتوں کی تجوریاں بھرنے کے لیے اب مزید اداروں کی نجکاری کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے عوام کے لیے موجود تھوڑی بہت صحت اور تعلیم کی ریاستی سہولیات کا بھی تیزی سے خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ سرکاری اداروں کی جانب سے فراہم کردہ تعلیم اور صحت کی سہولیات کتنی ناقص ہیں، اس سے یہاں رہنے والا ہر شخص واقف ہے لیکن اب اس آسرے کا بھی خاتمہ کیا جا رہا ہے۔
بجلی، گیس اور صاف پانی پہلے ہی عوام کی ایک بڑی اکثریت سے چھینے جا چکے ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ میں حکمرانوں نے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان حملوں میں شدت آئے گی اور بحران میں اضافہ ہوگا۔ تمام معیشت دانوں کے پاس اس بحران سے نکلنے کا کوئی نسخہ نہیں سوائے اس کے کہ تمام تر بوجھ پہلے ہی سے غربت اور ذلت میں رہنے والے عوام پر ڈال دیا جائے۔دوسری جانب اب محنت کشوں کے پاس بھی زندگی کی سانسوں کو بحال رکھنے کے لیے راستے ایک ایک کر کے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ آنے والا عرصہ ان کو نجات کے واحد رستے انقلاب کی جانب دھکیلے گا جس پر وہ تمام تر سازشوں، سیاسی چالبازیوں اور جبر کے باوجود آگے بڑھنے پر مجبور ہوں گے۔ اسی رستے پر چلتے ہوئے وہ نہ صرف اپنے طبقاتی دشمنوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑیں گے اورہر محاذ پر انہیں شکست دیں گے بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ملکیتی رشتوں کو بھی چیلنج کریں گے۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اب نجات کا کوئی رستہ موجود نہیں اور محنت کش طبقہ بھی اپنی لڑائی کے دوران اسی نتیجے پر پہنچے گا۔ ایسے میں متبادل نظام کی جستجو اور پیاس بھی شدت اختیار کرے گی اور سوشلسٹ نظام کی جانب پیش قدمی بھی ناگزیر ہے۔ اس صورتحال میں مارکسی نظریات سے لیس ایک انقلابی پارٹی سوشلسٹ انقلاب کی منزل کو حاصل کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ صرف اسی ایک انقلاب کے ذریعے نسلوں سے جاری اس ظلم، جبراور معاشی قتلِ عام کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور امیر اور غریب پر مبنی اس طبقاتی نظام کا ہمیشہ کے لیے انت ہو سکتا ہے۔ حالات وو اقعات بتا رہے ہیں کہ یہ وقت اب زیادہ دور نہیں!