اس وقت ملک میں بسنے والے کروڑوں محنت کشوں کی زندگیوں کی تلخی بڑھتی جا رہی ہے اور جینا ایک سزا بن چکا ہے۔ دوسری جانب حکمران طبقے کی عیاشی اور فرعونیت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ بہت سے محنت کشوں نے تو اچھی زندگی کے خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیے ہیں اور حالات کے ساتھ سمجھوتا کر کے بھوک، بیماری اور غربت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سرمایہ دار طبقے کی ہوس ختم ہی نہیں ہوتی اور وہ ہر روز ان محنت کشوں پر مزید حملے کرتا ہے اور ان سے زندگی کی مزید سانسیں چھین لیتا ہے۔
اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ پیٹ بھر کر کھانا ایک ادھورا خواب بن کر رہ جائے اور مزدور بارہ سے سولہ گھنٹے روزانہ مشقت کرنے کے باوجود پیٹ بھر کے روٹی نہ کھا سکے، اپنے بچوں کی بھوک نہ دور کر سکے اور نہ ہی اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات حاصل کر سکے۔
اس سماج پر مسلط فرعون صفت حکمرانوں نے تو مزدوروں سے ان کے خواب بھی چھین لیے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم تو نوجوانوں کے ساتھ ہوا ہے۔ جوانی کا دور خوشی کا، لاپرواہی کا اور ہنسنے کھیلنے کا دور کہلایا جاتا تھا لیکن اس ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے تاریک مستقبل کا یقین لیے مایوسی اور بدگمانی کا شکار ہے۔ ان نوجوانوں سے ان کے حسین خواب بھی چھین لیے گئے ہیں اور یہ سماج انہیں جرائم اور منشیات میں دھکیلتا چلا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت شعور کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتی ہے جہاں اسے مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں نوجوانوں نے اس ملک سے بھاگنے کو اپنی منزل بنا لیا ہے خواہ اس کے لیے کسی جنگ اور بھوک سے تباہ حال ملک میں ہی ہجرت کیوں نہ کرنی پڑے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ خواب بھی نجات کا ذریعہ بننے کے بجائے ایک ڈراؤنی حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ ہزاروں نوجوان مختلف غیر قانونی راستوں سے ہجرت کرتے ہوئے ہلاک ہو رہے ہیں اور جو کسی نہ کسی طریقے سے کسی منزل پر پہنچ جاتے ہیں وہ بھی عالمی سطح پر جاری مالیاتی بحران، افراط زر اور بیروزگاری کا شکار ہو کر پہلے سے بھی بد تر حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خلیجی ممالک میں کام کرنے والے محنت کش تو پہلے ہی انسانیت سوز حالات میں رہنے اور کام کرنے پر مجبور تھے اور وہاں پر موجود ظالمانہ کفالہ سسٹم کے جبر کا شکار تھے لیکن اب یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہجرت کرنے والے نوجوان بھی بدترین بیروزگاری اور غربت کا شکار ہیں اور ایک طرف ہجرت کا دکھ برداشت کر رہے ہیں اور دوسری جانب غربت اور بھوک سے لڑ رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال کو تقدیر کا لکھا مان لینا یا اپنی قسمت تسلیم کر کے خاموش رہنا اور صبر کے ساتھ ہر ظلم کو سہتے رہنا اب مزید ممکن نہیں رہا۔ سماجی ابتری، مالیاتی بحران، بھوک اور بیماری اب اس نہج پر پہنچ رہی ہے کہ اب زندہ رہنے کے لیے واحد رستہ صرف اس سب کے خلاف بغاوت ہی بچا ہے۔ حکمران طبقے کی ہوس اور لوٹ مار کبھی ختم نہیں ہوگی، سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی رضاکارانہ طور پر اپنی مراعات اور لوٹ مار سے دستبردار نہیں ہوگا، سیاسی پارٹیوں کے لیڈر کبھی بھی اقتدار میں اپنے حصے کی ہڈی کو نہیں چھوڑیں گے، اس ملک کی اشرافیہ کا ہر حصہ عوام کی بوٹیاں نوچنے اور خون پینے کاعمل جاری رکھے گا۔ اگر عام طریقوں سے یہ کام نہیں ہوگا تو اس کے لیے پر تشدید، خونریز اور جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے اور بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کی ہوس پوری کرنے کے لیے مسلح ریاستی اہلکار محنت کش عوام پر بدترین جبر جاری رکھیں گے۔
ایسے حالات میں بغاوت فرض ہوتی جا رہی ہے اور محنت کش طبقے کے پاس انقلاب کے علاوہ کوئی رستہ نہیں بچا۔ ایک طویل عرصے تک اس ملک کے دانشوروں اور سیاستدانوں نے انقلاب کا لفظ ہی ڈکشنری سے نکال دیا تھا اور محنت کش طبقے کو چھوٹے سے چھوٹے مسئلے تک محدود کرتے چلے گئے تھے۔ اپنا روزگار، اپنی گلی کی مرمت، اپنے گھر میں بجلی یا گیس کا کنکشن، اپنے بچوں کی تعلیم یا روزگاراو ر دیگر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت تک ہی تمام تر خواہشات اور امنگوں کو محدود کر دیا گیا تھا۔ مزدوروں کے لیے چند سو روپے تنخواہ میں اضافہ، اگلی دیہاڑی کی یقین دہانی اور دیگر ایسی بہت سی معمولی ترین حاصلات کو ہی مقصد بنا دیا گیا تھا۔ چھوٹے سرکاری ملازمین کے لیے ٹرانسفر، پوسٹنگ، بچوں کا علاج اور تعلیم ہی زندگی کا حاصل بن کر رہ گیا تھا۔ لیکن سماج کے بحران نے واضح کر دیا ہے کہ اب معمولی سے معمولی بہتری بھی ممکن نہیں بلکہ ڈالر کی قیمت میں ایک بڑی چھلانگ ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی اور کیرئیر کو واپس زیرو پر لے جاتی ہے اور وہ معاشی حوالے سے کئی دہائیوں پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں۔
ایسے میں انقلاب کے علاوہ کوئی رستہ نہیں اور آنے والے عرصے میں یہی خواب یہاں رہنے والے کروڑوں لوگ مل کر دیکھیں گے۔ اب وقت اورحالات انہیں مجبور کررہے ہیں کہ مسائل کے حل کی لڑائی الگ الگ لڑنے کی بجائے کہ وہ اس سماج کی مکمل تبدیلی کا خواب مل کر دیکھیں۔ ایک انقلاب کا خواب جس میں اس طبقاتی سماج کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ ایک ایسے سماج کو تعمیر کرنے کا خواب جس میں ہر شخص کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان مزدور ریاست کی طرف سے ملے اور علاج اور تعلیم ہر شخص کے لیے مفت ہو۔ کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے اور مزدور خود تمام صنعتوں اور ذرائع پیداوار کے مالک ہوں۔ ایک ایسے سماج کا خواب جس میں سرمایہ دار طبقے کا خاتمہ ہو جائے، جس میں موجودہ نظام انصاف، پولیس، عدالتوں، مجسٹریسی نظام کا خاتمہ ہو، جس میں بینکوں، سٹاک ایکسچینجوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خاتمہ ہو، مزدور اپنی تقدیر کے خود مالک ہوں۔ ایسا خواب دیکھنے کے لیے بھی جرات چاہیے، حوصلہ چاہیے۔ کم ہمت اور کم ظرف لوگ اتنے بڑے خواب دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ان کی خواہشات بھی کمینگی اور خود غرضی سے بھری ہوتی ہیں اور وہ اپنی انا کی تسکین سے بڑھ کر کچھ سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
یہ صلاحیت صرف محنت کش طبقے میں ہی ہے کہ وہ پورے سماج کو تبدیل کرنے کا نہ صرف خواب دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے انقلاب برپا بھی کر سکتا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں میں یہ صلاحیت سب سے زیادہ موجود ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی پرستش کرنے اور اسی میں غرق رہنے کی بجائے مستقبل کو تعمیر کرنے کا خواب دیکھ سکیں۔ ایک انقلاب کرنے اور اس سماج کو بھوک اور بیماری کی اذیت سے نکال کر اسے ترقی اور خوشحالی کے رستے پر لے جانے کا نہ صرف خواب دیکھ سکیں بلکہ اس کے لیے عملی جدوجہد بھی کر سکیں۔ بڑے خواب دیکھنے کے لیے بڑا حوصلہ اور بڑا دل چاہیے، سب سے پہلے ایک بڑا نظریہ اور سوچ چاہیے جو تنگ نظری، چھوٹے پن اور کسی تعصب سے بالاتر ہو کر انسانیت کی نجات کا خواب دیکھے۔ ایسا خواب اگر سب مل کر دیکھ لیں تو پھر یہ محض خواب نہیں رہتا یہ ایک تڑپ بن جاتا ہے، ایک جنون بن جاتا ہے اور خون میں ابال پیدا کر دیتا ہے جو پھر اس خواب کی تعبیر تک کسی کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ آؤ! سب مل کر یہ خواب دیکھیں! سرمایہ داری کے خاتمے کا خواب! ایک سوشلسٹ انقلاب کا خواب! اس سماج کو بھوک، بیماری اور اذیت سے چھٹکارا دلانے کا خواب۔ سچے نظریات، سچے جذبوں اور سچی جدوجہد کی بدولت یہ خواب ایک دن حقیقت ضرور بنے گا!