امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم اس سماج کے ہر شعبے اورہر پہلومیں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ کوئی ایسا کونا کھدرا نہیں، کوئی ایسا زاویہ نہیں جہاں یہ تقسیم اپنا اظہار نہ کرتی ہو۔ تعلیمی ادارے اور ان کا نصاب ہویا علاج کی سہولیات کی دستیابی اور معیار یہ طبقاتی تقسیم ہر شہر، ہر گاؤں میں نظر آتی ہے۔ مکانوں کی تعمیر اور ان کے رقبے سے لے کر آرائش تک، لباس کے ڈیزائن سے لے کر کپڑے کے معیار تک، کھانوں کے اجزائے ترکیبی سے لے کر ان کی نفاست اور حفظان صحت کے معیاروں تک ہر جگہ طبقاتی تقسیم کار فرما ہے۔یہاں تک کہ روز مرہ کی بول چال میں یہ تقسیم موجود ہے۔ زبان اور الفاظ کے استعمال سے لے کر لب و لہجے تک اور گفتگوکے انداز سے لے کرتلفظ تک ہر جگہ امیر اور غریب کی تفریق موجود ہے۔لیکن آج کا المیہ یہ ہے کہ تمام تر حاوی دانش،سائنس،ادب، فن اورسیاست اس تقسیم کو نظر اندازکرنے کی سعی میں مصروف ہے جبکہ فروعی مسائل کو سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آج کسی سیاسی پارٹی میں اس تقسیم کے خاتمے یا اس مسئلے کو اجاگر کرنے کا ایجنڈا شامل نہیں، کسی بھی نام نہاددانشور کی تحریروں اور گفتگو میں اس تقسیم کا ذکر بھی موجود نہیں اور اس سماج کی معیشت سے لے کر عمرانیات تک کہیں بھی اس کا تجزیہ اور حل موجود نہیں ہے۔ لیکن جتنا زیادہ اس تضاد کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اتنا ہی زیادہ شدت سے یہ گہرا ہوتا جا رہا ہے اور پہلے سے زیادہ قوت سے اپنا اظہار کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عالمی سطح پر بھی امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے اور سرمایہ کم سے کم ہاتھوں میں مرتکز ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب آبادی کے وسیع ترین حصے اپنی پیدا کردہ دولت سے محروم ہوتے ہوئے غربت اور ذلت کی گہرائیوں میں غرق ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ عمل پوری شدت کے ساتھ جاری ہے اور یہاں بھی امیر اور غریب کی خلیج ماضی کے کسی بھی دور کی نسبت زیادہ ہو چکی ہے اور اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔
وہ شعبے جو ماضی میں کسی قدر عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے اور ان پیشوں سے وابستہ افراد درمیانے طبقے کا حصہ ہوتے ہوئے متمول زندگی گزارتے تھے اب ترقی معکوس کا سفر کر رہے ہیں۔ڈاکٹر، انجینئر، وکلا ، صحافی اور اساتذہ سمیت بہت سے ایسے شعبے ہیں جن سے وابستہ افراد کی بڑی تعدادآج تیزی سے محنت کش طبقے کی صفوں کا حصہ بن رہی ہے۔ گوکہ ان شعبوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہیں بالائی درمیانے طبقے کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اکثریت ایسے افراد کی ہو چکی ہے جو خاصے مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ گو کہ یہ تمام عمل سیدھی لکیر میں رونما نہیں ہورہا اور نہ ہی ان شعبوں سے وابستہ افراد خود کو ابھی تک محنت کش کے طور پر دیکھتے ہیں بلکہ ان شعبوں سے وابستہ ماضی کی عزت و توقیراوردولت کی فراوانی کو یاد کر کے اکثر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہی نظر آتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ چند ایک کے سوا زیادہ تر افراد غربت کی دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں اور ان کا معیار زندگی بھی تیز ترین گراوٹ کا شکار ہے۔ دیہاتوں میں بھی چند ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کا عمل تیزی سے جاری ہے اورگزشتہ عرصے میں چند آڑھتی، ناجائز فروش، جرائم پیشہ یا قبضہ مافیا سے تعلق رکھنے والے افراد بہت تیزی سے امارت کی بلندیوں پر پہنچتے دکھائی دیے ہیں۔ ان نودولتیوں نے بہت سی جگہوں پر پرانے جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور حکمران طبقات کے دیگر افراد کی حاکمیت کو بھی چیلنج کیا ہے اورابھی بھی حکمران طبقے میں اپنی جگہ بنانے کی سر توڑ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تیزی سے پھیلتی ہوئی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں، مہنگی ترین گاڑیوں اور دیگر پر تعیش مصنوعات کی فروخت میں اضافے کے پس پردہ یہی عمل جاری و ساری ہے اور اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔
مارکس نے کہا تھا کہ سماج کے ایک حصے پر اگر دولت اور تعیش کا ارتکاز بڑھ رہا ہو تو اس کا واضح مطلب ہے کہ دوسرے حصے پر محرومی اور ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں بھی یہی عمل اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔اپریل 1968ء میں پاکستان کے اس وقت کے منصوبہ بندی کمیشن کے مشہور زمانہ معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق نے ملک کے امیر ترین 22 خاندانوں کی فہرست شائع کی تھی۔ اس فہرست کے مطابق یہ خاندان ملک کی 66 فیصد صنعت کو کنٹرول کرتے تھے اور مالیاتی شعبے کے 87 فیصد کے مالک تھے۔آج ان 22خاندانوں کے ناموں میں رد و بدل ضرور ہوا ہے اور بہت سے نئے نام اس فہرست میں شامل ہوئے ہیں لیکن یقینامعیشت پر ان کا کنٹرول اور اثر و رسوخ کہیں زیادہ بڑھا ہے۔ اسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار، آئی ایم ایف جیسے سود خور عالمی مالیاتی اداروں کا شکنجہ اور دفاعی اداروں اور ان سے وابستہ افراد کی دولت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ملک کے متنازعہ حالات کے باعث سرمائے کا انخلابھی اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔
اس دوران پوری دنیا پر حاوی چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے اور مقامی حکمران طبقات محض عالمی سرمایہ داروں کے گماشتے کا کردار ہی ادا کر رہے ہیں۔چین کے سامراجی کردار کے باعث وہاں موجود امیر ترین افراد کی دولت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور وہ بھی دنیا بھر میں اپنے خونی پنجے گاڑتے چلے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بننے والے ملک کے امیر ترین شخص جیک ما کی ذاتی دولت کا اندازہ 38.6ارب ڈالر لگایا جا رہا ہے۔ اس کی کمپنی علی بابا اب پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑ رہی ہے اور آن لائن شاپنگ اور منی ٹرانسفرکے کاروبار میں سرمایہ کاری کا آغاز کر چکی ہے۔
اس تمام عمل میں محنت کشوں کی حالت زار بد ترہوتی چلی جا رہی ہے اور آج آبادی کا ایک بڑا حصہ دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو چکا ہے۔ حقیقی اجرتوں میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے جبکہ کام کے اوقات کاربڑھتے جا رہے ہیں۔ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے باوجود اجرتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ پہلے کی نسبت دگنا کام کرنے اور گھر کے ایک فرد کے بجائے نصف درجن افرادکے کام کرنے کے باوجو د محنت کشوں کا معیار زندگی بڑھنے کی بجائے کم ہو رہا ہے۔ ایک بہت بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے جس کا عفریت آج پڑھے لکھے افراد میں بھی تیزی سے سرایت کر چکا ہے۔ نائب قاصد کی ملازمت حاصل کرنے کے لیے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز تیار بیٹھے ہیں لیکن انہیں وہ نوکری بھی میسر نہیں۔اسی دباؤ کے باعث طلبہ میں خود کشیوں کا رجحان انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور یہ خوفناک عمل اس سماج میں ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔
موجودہ حکومت کی تمام تر پالیسیوں اور ان کے طبقاتی کردار سے واضح ہے کہ آنے والے عرصے میں وہ محنت کش طبقے پر مزید حملے کریں گے جبکہ دولت مند افراد کو زیادہ سے زیادہ تحفظ دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اس نظام میں حکمرانی کی بنیادی شرط یہی ہے اور جو بھی یہاں حکمرانی کے لیے آئے گا اسے ایسے ہی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ اس طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کا واحد رستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے تمام ذرائع پیداوار محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت میں آ جائیں گے جنہیں جمہوری انداز میں چلایا جائے گا۔ امیر اور غریب کی ازلی اور ابدی سمجھی جانے والی طبقاتی تقسیم کا مکمل خاتمہ ہو گا اور حکمران طبقے کی تمام تر دولت، جائیدادیں اور اثاثے مزدور ریاست کی تحویل میں لے لیے جائیں گے۔ایسے انقلاب دنیا کے مختلف ممالک میں پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں اور آج پھر دنیا بھر میں سوشلسٹ نظریات تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی موجودہ تمام مسائل حل کرنے کا واحد رستہ یہی انقلاب ہے جسے کامیاب کرنے کے لیے آج ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر وقت کی اشد ضرورت بن چکی ہے۔