اس سماج میں زندگی گزارنا ایک عذاب بن چکا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت وافلاس کی ذلتوں کے ساتھ زندگی کا ہر لمحہ ایک مکمل اذیت بن کر گزرتا ہے۔ معمولی سے معمولی کام بھی کسی تکلیف، الجھن اور پریشانی کے بغیر سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ سڑک پار کرنے سے لے کر صاف پانی اور ہوا کے حصول تک زندگی مسلسل ایک تگ و دو اور پریشانی کا شکار ہے۔ اس دوران علاج، تعلیم اور دیگر سہولیات کا حصول آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کے لیے ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ سماج کا کوئی حصہ، کوئی شعبہ ایسا نہیں جو ٹھیک کام کر رہا ہو۔ ہر طرف شدید ٹوٹ پھوٹ، بوکھلاہٹ اورگراوٹ کی انتہا نظر آتی ہے۔ سماج کی معاشی تباہی انسانوں کے تعلقات اور سماجی تانے بانے کی مکمل شکست وریخت کی صورت میں بھی اپنا اظہار کر رہی ہے۔ انسانوں کے درمیان تمام رشتے اور تعلقات آلودگی اور غلاظت کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔ منافقت، جھوٹ، ریاکاری، بد عنوانی، دھوکے بازی اور فراڈ سماج کے رگ و ریشے میں سرایت کر چکا ہے اور ہر جانب ایک افراتفری کا عالم ہے۔ کسی رشتے میں سچائی تلاش کرنا یا وفاداری کی امید رکھنا بیوقوفی کی علامت بن چکا ہے۔ ایک انسان دوسرے سے دور ہوچکا ہے اور مالیاتی رشتے انسانی رشتوں سے زیادہ اہمیت اور فوقیت اختیار کر چکے ہیں۔ پہلے یہ صورتحال صرف بڑے شہروں تک محدود تھی لیکن اب دیہاتوں اور دوردراز کے علاقوں تک بھی سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیراخلاقیات اور سماجی رشتے سرایت کر چکے ہیں۔
اس سب کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں انسانی سماج پر سرمایہ حکمرانی کرتا ہے۔ تمام ریاستیں، ادارے، عقائد، انسانی رشتے، سماجی تعلقات، محبتیں اور نفرتیں سرمائے کی غلام ہوتی ہیں اور سرمایہ ہی ان کی حرکت کے قوانین طے کرتا ہے۔ اپنے عروج میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی ان غلاظتوں پر مختلف حربوں کے ذریعے نقاب ڈالے رکھتا ہے لیکن زوال کے دوران اس کا مکروہ اور غلیظ چہرہ بے نقاب ہو کر سب پر عیاں ہو جاتا ہے۔ مارکس نے لکھا تھا کہ سرمایہ داری وہ بلا ہے جس کے جسم کے ہر ریشے اور پور سے انسانی خون رس رہا ہے۔ آج اسی نظام کی دنیا بھر میں زوال پذیری واضح طور پر نظر آ رہی ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں بھی عوام کی بنیادی سہولیات پر حملے کر رہا ہے۔ ان سے علاج، تعلیم، مکان اور روزگار جیسی انتہائی بنیادی نوعیت کی ضروریات چھین رہا ہے جس کیخلاف انقلابی تحریکیں اور احتجاج آئے روز نظر آتے ہیں۔ پاکستان جو دنیا کے سب سے پسماندہ ترین ممالک میں شامل ہے وہاں سرمایہ دارانہ نظام پہلے ہی عوام کو کچھ نہیں دے سکا اوراب اس نے ان کی ہڈیاں نوچنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں بیروزگاری ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ایک نجی ادارے نیلسن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں 49فیصد لوگ بیروزگار ہیں۔ گو کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 6فیصد لوگ بیروزگار ہیں۔ نیلسن نے 38شہروں اور270دیہاتوں میں سروے کر کے یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔ 49فیصد بیروزگار لوگوں کی تعداد کروڑوں میں بنتی ہے۔ ان میں بیروزگار گریجوایٹس کی تعدادبھی ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ اور ابھی ایک نئے معاشی بحران کا آغاز ہوا ہے جس میں روپے کی قدر میں تیز ترین کمی ہو رہی ہے۔ دسمبر کے وسط میں صرف تین دنوں میں کرنسی کی قدر میں پانچ فیصد کمی ہوئی جبکہ مزید اتنی ہی کمی متوقع ہے۔ اس کے بعد مہنگائی کے ایک نئے سیلاب کی آمد متوقع ہے۔ اس کے بعد بھی معیشت کے سنبھلنے کے امکانات انتہائی کم ہیں اور یہ دیوالیہ پن کی کھائی کے کنارے لڑکھڑاتی رہے گی۔ پاکستان کے خصی سرمایہ دار چینی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے بحران کے باعث لاکھوں محنت کش بیروزگار ہو کر واپس آ رہے ہیں اور ان کے لیے یہاں کسی قسم کے روزگار کے مواقع موجود نہیں۔ یہاں پر حکمران نجکاری کی پالیسی پر پوری شدت سے عملدرآمد کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں واپڈا، ریلوے، پی آئی اے، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سے بڑے پیمانے پر ملازمین کو نوکریوں سے جبری برطرف کیا جا رہا ہے جبکہ نجی شعبے کو ان کی ضرورت نہیں۔ اس صورتحال میں آنے والا عرصہ محنت کشوں کے لیے کوئی خوشی کی خبر لانے والا نہیں بلکہ ان کے شب و روز مزید تلخ ہوتے چلے جائیں گے اور انہیں ہر روز ایک نیا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔
لیکن دوسری جانب اس ملک کے حکمرانوں کی لوٹ مار کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے اوروہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ کر بیرون ملک اپنی جائدادیں اور بینک اکاؤنٹ بنا رہے ہیں۔ فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ، بیوروکریسی، میڈیا سمیت کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں بیٹھے حکمران طبقے کے افراد بدعنوانی اور لوٹ مار میں ملوث نہ ہوں۔ کہیں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ذریعے اور کہیں سڑکوں اور پلوں کے ٹھیکوں کے ذریعے بد عنوانی کے نئے ریکارڈ بنائے جا رہے ہیں جبکہ عوام ذلت کی کھائی میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں برسراقتدار ہیں اور لوٹ مار میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں۔ محنت کشوں کو کبھی قوم کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پر گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے حقیقی مسائل کے لیے جدوجہد نہ کر سکیں لیکن محنت کشوں نے اس دفعہ ایسی تمام کوششوں کو مکمل طور پر رد کیا ہے۔ ریاست کے مختلف ادارے بھی اس لڑائی میں مختلف حصوں میں بٹ چکے ہیں اور ایک دوسرے کیخلاف ایک ایسی لڑائی لڑ رہے ہیں جس کا کوئی انت نہیں۔ امریکہ، چین، ترکی، سعودی عرب اور ایران سمیت تمام سامراجی طاقتیں بھی نظام کے زوال کے باعث کمزور ہو چکی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف ایک شکست خوردہ خونریز جنگ میں ملوث ہیں جس میں پاکستان جیسی ریاستوں کی حیثیت خام مال سے زیادہ نہیں ہے۔ سامراجی طاقتوں کی اس چومکھی لڑائی میں پاکستانی ریاست اور اس کے تمام ادارے ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ ہر ادارے کے اندر ایک لڑائی ہے جس میں ایک حصہ کسی ایک سامراجی طاقت اور دوسرا کسی دوسری طاقت کی گماشتگی کر رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں محنت کش طبقے کے پاس اس خونی دلدل سے باہر نکلنے کے لیے کوئی متبادل منظر عام پر موجود نہیں۔ لیکن آتش فشاں میں پکتے ہوئے لاوے کے تمام رستے جب بند ہو جائیں تو وہ سب کچھ پھاڑ کر باہر نکلتا ہے۔ یہاں بھی ایسی ہی صورتحال بنتی چلی جا رہی ہے اور نوجوانوں اور محنت کش طبقے کے لیے مسائل سے نپٹنے کے تمام رستے بند ہو رہے ہیں۔ ایسے میں واحد رستہ اس نجی ملکیت کے محافظ نظام، اس کی پروردہ ریاست، یہاں موجود تمام سماجی رشتوں اور تعلقات کے خلاف ایک انقلابی سرکشی ہے۔ صرف اسی ایک اجتماعی لڑائی سے محنت کش طبقے کے تمام افراد اپنی انفرادی زندگیوں کو بہتر کر سکتے ہیں۔ سیاسی طور پر حبس جتنا بڑھتا جا رہا ہے یہاں بارش بھی اتنی ہی شدت سے ہو گی۔ آنے والی اس انقلابی تحریک میں اگر مارکسزم کی سائنس پر عبور رکھنے والی ایک منظم تنظیم بڑی تعداد میں موجود ہوئی تو طبقات پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر اکھاڑا جا سکے گا اور سرمائے کی حاکمیت کا خاتمہ کرتے ہوئے حقیقی انسانی رشتوں اور تعلقات پر مبنی سوشلسٹ سماج قائم کیا جائے گا۔ یہی سماج انسان کو بھوک، بیماری، ذلت اور محرومی سے نجات دلاتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کے سفر کا آغاز کرے گا۔