وقت کی کوکھ سے بڑے واقعات تیزی سے جنم لے رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی ایک ایسا ہی اہم واقعہ ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسے بجا طور پر سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس’ انہونی‘ کے ہونے کے بعد پوری دنیا کی سیاست قلابازیاں کھا رہی ہے۔ تمام بڑے تجزیہ نگار، بینکار، ملٹی نیشنل کمپنیاں، میڈیا گروپ اور سرمایہ دار ہیلری کلنٹن کی حمایت کر رہے تھے ، تمام سروے یہی ثابت کر رہے تھے کہ وہ باآسانی جیت جائے گی لیکن آخر میں ٹرمپ کی کامیابی نے رائج الوقت دانش اور اس کے تمام تجزیوں کو غلط ثابت کر دیا۔ سماج میں موجود تضادات کو سمجھنے اور ان کا درست تجزیہ صرف مارکسزم کے سائنسی نظریات کے تحت ہی کیا جا سکتا ہے۔ آج پوری دنیا جتنی بڑی تبدیلی کی لپیٹ میں ہے اسے کوئی بھی دوسری سماجی سائنس نہیں سمجھ سکتی اور نہ ہی اس کا درست تجزیہ و تناظر پیش کر سکتی ہے۔ صرف مارکسیوں نے ہی انتخابات سے پہلے کہا تھا کہ’’ اگر بریگزٹ ہو سکتا ہے تو ٹرمپ بھی الیکشن جیت سکتا ہے‘‘۔
درحقیقت عالمی سطح پر سرمایہ داری ایک گہرے بحران میں داخل ہو چکی ہے جہاں معاشی بحرانوں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے جس کے باعث سیاست سمیت ہر شعبے میں طوفانی واقعات جنم لے رہے ہیں۔ عرصہ دراز سے موجود سیاسی پارٹیوں کے ٹوٹنے اور ختم ہونے کے ساتھ ساتھ پورے کے پورے سیاسی ڈھانچے پر ہی سوالیہ نشان ابھر رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تحت جہاں ایک لمبے عرصے سے سرمایہ داری کو چلایا جا رہا تھا اب عوام کی وسیع اکثریت اس پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں46فیصد سے زائد ووٹروں نے ووٹ کا حق ہی استعمال نہیں کیا۔ یورپ سمیت بہت سے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں یہی صورتحال ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس نام نہاد جمہوری طریقہ کار یا رائج الوقت سیاسی پارٹیوں کے ذریعے عوام کی وسیع اکثریت اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پا رہی ۔ ایسے میں عوام کے غصے اور نفرت کا اظہاران پارٹیوں سے باہر مختلف عوامی تحریکوں کی شکل میں نظر آتا ہے جو پوری دنیا کے مختلف ممالک میں جاری ہیں۔ آج دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں بڑے پیمانے پر عوامی تحریکیں موجود نہ ہوں۔ کسی نہ کسی ریاستی جبر کے واقعہ، ظلم، بد عنوانی یا نا انصافی کے خلاف ایک لمبے عرصے سے مجتمع عوامی غم و غصہ ایک تحریک میں پھٹ کر سامنے آتا ہے اور نوجوانوں اور محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد پولیس یا فوج کے تمام جبر کے باوجود اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ کسی بھی جگہ روایتی سیاسی پارٹیاں ان تحریکوں کو قیادت دینے میں ناکام نظر آتی ہیں اور یہ تحریکیں نئی قیادتیں تراشتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ تحریکیں جہاں حکمرانوں کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کرتی ہیں وہاں ا ن میں نئی دراڑیں ڈالنے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ کچھ جگہوں پر یہ تحریکیں شدت کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے حکومتوں کے تختے الٹانے کا باعث بنتی ہیں اورکسی جگہ چند اصلاحات کے حصول کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن ایک جگہ سے وقتی طور پر ختم ہونے کے بعد کسی دوسری جگہ سے کسی دوسرے مسئلے پر ابھرتی ہیں۔ اگر عمومی طور پر ان تحریکوں کا جائزہ لیں تو واضح نظر آتا ہے کہ ان تحریکوں کا حجم اور ان کی شدت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور ہر نئی تحریک پہلے کی نسبت عوام کی زیادہ بڑی پرتوں کو متاثر کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ جوڑ رہی ہے۔ عرب انقلابات سے لے کر امریکہ میں سیاہ فاموں کی تحریک تک، جنوبی افریقہ میں طلبہ کی فیسوں میں کمی کی تحریک سے لے کر جنوبی کوریا میں صدر کی بدعنوانی کے خلاف دس لاکھ افراد کے مسلسل پانچ مظاہروں تک، وادی کشمیر کے نوجوانوں کی فوجی جبر کے خلاف آزادی کی تحریک سے لے کر مراکش میں ایک ریڑھی والے نوجوان کی سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ابھرنے والی تحریک تک، ترکی میں ایچ ڈی پی اور کردوں کی تحریک سے لے کر فرانس میں مزدور دشمن قانون کیخلاف ابھرنے والی لاکھوں افراد کی تحریک تک، چین میں ہڑتالوں کی تعداد میں مسلسل اضافے سے لے کر ہندوستان میں تاریخ کی سب سے بڑی ایک روزہ عام ہڑتال تک پوری دنیا میں ہر جانب ایسے واقعات بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب نظر آتا ہے کہ حکمران طبقات کے پاس بھی عوام کو درپیش مسائل اور ان کی نفرت اور غم و غصے کو کم کرنے کے لیے کوئی نسخہ نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسے بحران میں داخل ہو چکا ہے جہاں جنگیں اور خانہ جنگیا ں تو برپا کی جا سکتی ہیں لیکن عوام کو درپیش ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جو بھی سیاسی پارٹی اور قیادت اس نظام میں مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ یونان میں اس کی واضح مثال نظر آتی ہے۔ جہاں ایک بہت بڑی عوامی تحریک کے بعدایک ایسی قیادت منتخب ہوئی جس نے امیروں کی دولت ضبط کر کے اور ا ن پر ٹیکس لگا کر بیروزگاری اور دیگر سلگتے ہوئے عوامی مسائل حل کرنے کا نعرہ لگایا ۔ لیکن اقتدار میں آ کر جب سرمایہ دارانہ نظام کی حدو دو قیود میں رہ کر کام شروع کیا تو بہت جلد وہ اسی سرمایہ دار طبقے کے آلہ کار بن گئے جس کے خلاف نعرے لگا کر اقتدار میں آئے تھے۔ نتیجتاً ان کی حقیقت عوام پر واضح ہو گئی اور ان کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔
سرمایہ داری کے مکمل خاتمے کا کوئی واضح رستہ اور متبادل نہ ہونے کے باعث پوری دنیا میں یہ تحریکیں مشکلات کا شکار ہیں اور تلخ تجربات سے گزر رہی ہیں۔ اصلاح پسند قیادتیں یکے بعد دیگر ناکامی کا شکار ہو کر انتہائی دائیں بازوکی نسل پرستانہ اور قوم پرستانہ قوتوں کے لیے رستہ ہموار کرتی ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی کا رستہ برنی سینڈرز نے ہموار کیا ۔ اگر وہ ڈیموکریٹ پارٹی کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف آواز بلند کرتا اور آزاد امیدوار کے طور پر یا ایک سوشلسٹ پارٹی قائم کرتے ہوئے ہیلری اور ٹرمپ کے مقابلے میں آتا تو واضح برتری حاصل کر سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ میں آج بھی محنت کشوں کی ایک نئی سیاسی پارٹی کا خلا موجود ہے جوپُر ہونے کے لیے بیتاب ہے۔ اسی طرح یونان میں سائریزا کی ناکامی کے بعد دائیں بازو کی قوتیں وسیع حمایت لے رہی ہیں جبکہ فرانس، جرمنی، آسٹریا سمیت تمام ممالک میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹیاں بھی ابھر رہی ہیں۔ سماج کبھی بھی سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتا بلکہ ایک طبقاتی سماج میں دائیں اور بائیں بازو کی قوتوں کی موجودگی اور ان کی کشمکش جاری رہتی ہے۔ انقلابی اور رد انقلابی قوتوں کی انہی متحارب قوتوں کی مسلسل کشمکش پرانے سماج کے بطن سے نئے سماج کو تخلیق کرتی ہے۔ موجودہ عہد میں یہ کشمکش شدت اختیار کر تی جا رہی ہے اور آنے والے عرصے میں اس میں ایک واضح جنگ نظر آئے گی۔ عرب ممالک میں ہمیں واضح طورپر نظر آیا کہ سامراجی قوتوں کی پشت پناہی سے داعش جیسی خونخوار تنظیموں کو پروان چڑھایا گیا جنہوں نے ان تحریکوں کو خون میں ڈبو دیا۔ لیکن دوسری جانب سامراجی طاقتیں بھی ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر حملے کر رہی ہیں۔
اس تمام تر خونریزی کے مکمل خاتمے کا حل اور پوری دنیا میں ان ابھرتی ہوئی تحریکوں کی کامیابی کی ضمانت صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہے۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ایک ایسی انقلابی تنظیم تعمیر کی جائے جو مارکسی نظریات کو بنیاد بناتے ہوئے سماج کی ان طوفانی تبدیلیوں اور اس نئے عہد کا درست تجزیہ و تناظر پیش کرے۔ اور انقلابی کیڈر ز کی ایسی قوت تیار کرے جو ان تحریکوں میں سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ مداخلت کرتے ہوئے نوجوانوں اور محنت کشوں کی وسیع پرتوں تک یہ پیغام پہنچائیں اور انہیں اس حقیقی تبدیلی کے نعرے کے گرد اکٹھا کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کی جانب بڑھیں۔ یہ نیا عہد ہر ملک میں انقلابی قوتوں کو آگے بڑھنے کے وسیع مواقع فراہم کرے گا۔ اگر درست نظریات پر ایک مارکسی قوت موجود ہوئی تو یہ نسل ضرورایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے سرمایہ داری کے تمام مظالم کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے گی۔