کسی بھی سماج کا درست تجزیہ کرنے کے لیے، اس میں موجود تضادات کو سمجھنے اور ان تضادات کا حل دینے کے لیے ایک نظریہ درکار ہوتا ہے۔ اسی نظرئیے کی بنیاد پرسماج میں جاری مختلف عوامل کا درست ادراک کرتے ہوئے اور ان کے باہمی تعلق کو سمجھتے ہوئے ہی کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس سماج میں رہنے والے افراد کی زندگیوں پر مختلف سماجی ومعاشی عوامل کے اثرات کا جائزہ لینا اور پھر ان افراد کے اجتماعی عمل سے سماج پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنا کسی بھی درست تجزئیے کا بنیادی طریقہ کار ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ بغیر کسی نظرئیے کے ممکن نہیں۔ کوئی بھی نظریہ صرف ایک مخصوص سماج کے متعلق تجزیہ کرنے کا اوزار نہیں ہوتا بلکہ تمام تر انسانی زندگی، اس کی تاریخ اور ایک مخصوص سماج کا دیگر سے تعلق بھی واضح کرتا ہے۔ اسی طرح کائنات میں جاری کسی بھی عمل کو سمجھنے اور اس کے بارے میں رائے قائم کرنے کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
آج کے عہد میں بھی سماج کا درست تجزیہ کرنے اور اس میں موجود تضادات کا حل تلاش کرنے کے لیے نظریات پر بحث انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہیں اور آئے دن نئی سائنسی دریافتیں انسان کو حیران کر رہی ہیں۔ علاج ہو یا خلائی تحقیق، سمندروں کی کوکھ میں انسان کی جستجو ہو یا نئی کمپیوٹر ٹیکنالوجی، ہر جانب سوچ کو خیرہ کر دینے والی ترقی نظر آتی ہے۔ لیکن اس دوران یہ بھی نظر آتا ہے کہ سماج کی ایک بہت بڑی اکثریت ان تمام دریافتوں اور ایجادات سے فیض یاب نہیں ہو پا رہی۔ دنیا میں جد ید ترین علاج کی سہولیات دستیاب ہونے کے باوجود آبادی کی ایک وسیع اکثریت ملیریا اور ٹی بی جیسے موذی امراض کا علاج کروانے کے قابل نہیں۔ جہاں انسان خلا میں دور دراز سیاروں کے سفر پر روانہ ہونے کی تیاری کر رہا ہے وہاں اس کرۂ ارض پر رہنے والے کروڑوں انسانوں کو بجلی کی عدم دستیابی کے باعث شدید اذیت کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ جہاں سائنس میں ترقی کی بدولت زیادہ سے زیادہ خوراک پیدا کرنے کی جدید ترین تکنیک پرتحقیق ہو رہی ہے اور نئے سے نئے طریقے متعارف ہو چکے ہیں وہاں کروڑوں انسان ہر روز فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ غذاکی قلت کے باعث ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تمام تر صورتحال صرف پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک تک محدود نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی آبادی کا وسیع حصہ بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہو چکا ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں ہمیں نظر آتا ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے حکمرانوں کی جانب سے تمام تر توجہ نئی جنگوں اور خانہ جنگیوں کی جانب مرکوز ہے۔ اسلحے کے انباروں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جن کی تعداد اب اتنی ہو چکی ہے کہ اگر ان کو استعمال کیا جائے تو زمین پر انسانی سماج کا ہی مکمل خاتمہ ہو جائے۔ ہر طرف خونریزی، بد امنی، جنگیں، خانہ جنگیاں، بھوک، بیماری اور بربریت کا ننگا ناچ نظر آتا ہے۔
ایسی بے ہنگم، غیرمعقول اور انسانی سماج کی دشمن دنیا کو قابل قبول بنانے اور اس کو درست ثابت کرنے کے لیے مختلف انسان دشمن نظریات کو عوام پر مسلط کیا جاتا ہے۔ وہ حکمران طبقہ جو کروڑوں انسانوں کی محنت کا پھل سمیٹ کر لے جاتا ہے اور انسانوں کی وسیع اکثریت کو بربادی میں دھکیل کر خود عیش و عشرت کی زندگی گزارتاہے، وہ اپنی پر تعیش زندگیوں اور مراعات کے دفاع کے لیے ایسے نظریات مسلط کرتا ہے جن کے ذریعے سماج کا حقیقی تجزیہ کرنا ناممکن ہو جائے۔ یہ جھوٹے نظریات اس پاگل پن کو ازلی اور ابدی بنا کر پیش کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس سب کو تقدیر کا لکھا ہوا سمجھ کر تسلیم کر لیا جائے۔ تبدیلی کے امکان تک کو بھی رد کر دیا جاتا ہے اور انسان کو کسی بھی اجتماعی عمل سے کاٹ کر اس کی ذات تک محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سماج کے مختلف حصوں اور شعبوں کو بھی ایک دوسرے سے الگ کر کے پیش کیا جاتا ہے جیسے ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں اور ہر شخص کو ایک مختصر سے دائرے میں محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گراوٹ کی انتہا اتنی ہو چکی ہے کہ اب نظریات سے زیادہ شخصیات کو اہم ترین بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور تمام تر بحث کامحور حکمران طبقے کی منظور نظر کسی شخصیت کو بنا دیا جاتا ہے۔ ہر شعبے میں یہی صورتحال نظر آتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان شخصیات کی بدولت ہی یہ شعبہ معرضِ وجود میں آیا اور آگے بڑھ رہا ہے جبکہ باقی تمام لوگ محض کیڑے مکوڑے ہیں جن کی زندگیوں کا کوئی مقصد نہیں۔ یہ تمام تر نظریات سیاست پر بھی مسلط نظر آتے ہیں اور وسیع ترین آبادی کے بنیادی مسائل کے حل پر بحث کرنے کی بجائے ایسے موضوعات پر سیاست کی جاتی ہے جن کا محنت کش عوام سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ انہی گھٹیا موضوعات پر پھر مختلف پارٹیاں نام نہاد اختلاف کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
آج کے عہد میں صرف مارکسزم ایسا نظریہ ہے جو سماج کا درست تجزیہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کے تضادات کو حل کر سکتا ہے۔ یہ انسانوں کو ایک دوسرے سے کاٹنے کی بجائے ان کے اجتماعی عمل کی بنیاد پر حرکت کے قوانین کو دریافت کرتا ہے۔ یہ سماج کی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کو واضح کرتا ہے اور ایک طبقے سے دوسرے کے تضاد کی بنیادیں سماج کے پیداواری عمل میں سائنسی بنیادوں پر استوار کرتا ہے۔ اس بے ہنگم خونریزی، قتل و غارت، جنگوں اور خانہ جنگیوں کی حقیقی وجوہات بیان کرتا ہے اور منافعوں کی ہوس کے لیے انسانوں کو ان جنگوں کا ایندھن بنانے والے سرمایہ دارانہ نظام کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ وہ واحد نظریہ ہے جو اس دنیا کو جیسے ہے ویسے کی بنیاد پر قبول کر کے سر جھکانے کی بجائے اس غیر منصفانہ نظام کو للکارتاہے اور اسے ایک انقلاب کے ذریعے مکمل طور پر تبدیل کرنے کا درس دیتا ہے۔ مارکسزم کا نظریہ سماج کے رائج الوقت ڈھانچوں کے اندر رہتے ہوئے ہی اپنا مستقبل تلاش کرنے کی بجائے ان تمام تر ڈھانچوں کو منہدم کرنے کا اعلان کرتا ہے اور ان کی جگہ نئے ڈھانچے تعمیر کرنے کا نقشہ فراہم کرتا ہے۔ اس میں ریاست اور اس کے تمام ادارے مثلاً فوج، پارلیمنٹ، عدلیہ، بیوروکریسی وغیرہ شامل ہیں۔ ان اداروں کے بنائے ہوئے قوانین، ان کی تشکیل کردہ تاریخ، معاشیات اور سیاست کو یکسر رد کرتا ہے۔ وہ تمام نظریات اور ادارے جنہیں ازلی اور ابدی بنا کر پیش کیا جاتا ہے مارکسزم ان کی حقیقی تاریخ سامنے لاتا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح تاریخ میں ایک مخصوص مقام پر یہ نظام اور اس کے ادارے تشکیل پائے تھے اور اب ان کی افادیت ختم ہو چکی ہے اور یہ انسانوں پر ایک بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ اب ان سے زیادہ جدید اداروں کی ضرورت ہے جن کے لیے ایک انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سائنسی نظریہ انقلاب کو ایک انہونے واقعہ کی بجائے ایک مسلسل عمل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ پورے سماج کو ہی ایک مسلسل تبدیلی کے عمل میں دیکھتا ہے اور اسی تبدیلی کے عمل میں اس کا تجزیہ کرتے ہوئے تناظر پیش کرتا ہے۔
اس لیے ضرورت ہے کہ آج انسانی تاریخ کے اس جدید ترین نظرئیے کو سیکھتے ہوئے دنیا اور انسانی زندگی کے متعلق اپنی رائے اسی نظرئیے کی بنیاد پر قائم کی جائے۔ یہ نظریہ صرف درست تجزئیے و تناظر تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ کارل مارکس کے الفاظ میں، ’’فلسفیوں نے اب تک دنیا کی تشریح کی ہے، جبکہ اصل کام اس کو تبدیل کرنا ہے‘‘۔ آج اس دنیا کو تبدیل کرنے کی جتنی ضرورت ہے تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھی۔ کیونکہ رائج الوقت سرمایہ دارانہ نظام کے باعث انسانی سماج ہی خطرے سے دوچار ہے اور اس نظام نے اسے تباہی کے کنارے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب سے تبدیل کرنے کا مقصد انسانی سماج کی بقا کی جدوجہد کرنا ہے۔ اس عظیم مقصد کے لیے مارکسی نظریات پر ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر وقت کی اشد ضرورت اور اہم ترین فریضہ ہے جو کروڑوں انسانوں کی نجات کا باعث بنے گی۔