برطانوی وزیرِاعظم لز ٹرس مستعفی ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ایک سال میں تیسرا وزیرِ اعظم بننے جا رہا ہے۔ اس برس پہلے ہی چار وزرائے خزانہ تعینات ہو چکے ہیں، پانچواں بعید از قیاس نہیں ہے۔ مرزا غالب نے سرمایہ دارانہ نظام کے شباب کے دور میں اور برِ صغیر میں برطانوی سامراج کے ہاتھوں ہزاروں سال پرانے سماجی تانے بانے کے انتشار کے وقت یہ شہرہ ِ آفاق مصرعہ کہا تھا، ’ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘۔ اگر وہ آج ہوتے اور تاریخ کے تھیٹر میں رواں اس ہولناک اور سنسنی خیز تماشے کو دیکھتے تو ان کے مخصوص ادبی ذوق کے پیرائے میں حیرت، تجسس اور طنز کا عالم کیا ہوتا۔ ہم تاریخ کے اہم ترین موڑ سے گزر رہے ہیں اور ماضی کو مستقبل کی دہلیز پر سر پٹخ پٹخ کر مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا شباب جتنا مسحور کن، حیرت انگیز اور دیدنی تھا، اس کی موت اتنی ہی کثیر الامکانی، رقت آمیز اور کربناک واقع ہو رہی ہے۔ وہی برطانوی سامراج جس نے دیو ہیکل صنعتی انقلاب کی پشت پہ سوار ہو کر قدیم ترین اور بظاہرناقابلِ زوال ایشیائی طرزِ پیداوار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا، آج خود اپنے ہی وزن سے منہدم ہو رہا ہے اور اپنی تین سو سالہ تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ برطانوی بورژوازی انکل سام کی مضحکہ خیز جی حضوری سے اپنے تابناک ماضی کو تو پہلے ہی دفنا چکی، اب ذلت اور خجالت کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ دوسری طرف برطانوی محنت کش طبقہ اس خجالت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہو رہا۔ وہ بجا طور پر معیارِ زندگی کی اس خوفناک گراوٹ، بیروزگاری، مہنگائی اور بدترین ماحولیاتی جبر کو اپنا مقدر سمجھنے کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام پر سوال اٹھا رہا ہے۔ اس کی توپوں کا رخ حکمران طبقے کی طرف ہے، وہ اپنی عظیم انقلابی روایات کی طرف لوٹ رہا ہے۔
مگر یہ صرف برطانوی بورژوازی کی ہی روداد نہیں ہے۔ روس کے برف زاروں سے لے کر شمالی بحر الکاہل کے ساحلوں تک عالمی سیاست دھماکہ خیز مواد سے لبریز ہے۔ یورپ کے نئے ’خدا‘ جرمن سامراج کے غبارے سے بھی ہوا نکلنا شروع ہو چکی ہے۔ فرانس کے دروازے پر ایک دفعہ پھر انقلابی شورش کی دستک بآسانی سنی جا سکتی ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے ’خوشبوؤں کا شہر‘ پیرس تازہ دم عوامی سرکشی سے مہک اٹھا ہے۔ 16 اکتوبر کو ملک گیر احتجاج اور 18 اکتوبر کو ایک جزوی عام ہڑتال دیکھنے میں آئی مگر اس کے بعد سے ہڑتالی لہر ایک وبا کی طرح ملک کے طول و عرض میں پھیلتی جا رہی ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ محنت کش طبقہ اجرتوں میں اضافے کے لیے پوری توانائی سے حملہ آور ہو گا۔ یہ معاشی جدوجہدیں بالآخر اہم سیاسی اسباق پر منتج ہوں گی۔ اٹلی میں ’فائیو سٹار پاپولزم‘ سے لے کر ٹیکنوکریسی تک سب کچھ آزمایا جا چکا، مگر بحران کسی صورت تھمتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یونان سالہا سال سے یورپی یونین کی طرف سے معینہ ’اصلاحات‘ کے پل صراط پر ہچکولے لے رہا ہے، اس کے دونوں طرف کھائی ہے۔ سکینڈے نیویا کی ’جنتِ ارضی‘ بھی زائد المعیاد ہو چکی، سویڈن کے حالیہ انتخابات سوشل ڈیموکریسی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے ہیں۔ ’مہذب‘ اور کشادہ دل سمجھنی جانے والی بورژوازی نے اپنے خونی چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے اوراس کا نسل پرستی کی غلاظت میں لتھڑا چہرہ ساری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکا ہے۔ مگر محنت کش طبقہ اس مسلط کردہ نسل پرستی کے خلاف جلد سینہ سپر نظر آئے گا۔ یہ موسمِ سرما یورپ کی تاریخ کا گرم ترین (سیاسی طور پر) سرما ہونے کے امکانات ہیں۔
عالمی سیاست کی منہ زور آندھی کے پیچھے عالمی معیشت کا بے لگام بحران کارفرما ہے۔ لگ بھگ تمام معیشتوں کو بلند افراطِ زر کا سامنا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے معذرت خواہان کبھی کرونا، کبھی ماحولیاتی تبدیلیوں تو کبھی روس یوکرائن جنگ کو موجودہ بحران کی وجہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ تمام عناصر بحران کے حقیقی محرکات نہیں بلکہ اسکی پیداوار ہیں اورمحض عمل انگیز ہیں جنہوں نے معاشی انہدام کی رفتار کو تیز کر دیا ہے۔ افراطِ زر کی اصل وجہ گزشتہ طویل عرصے سے جاری ’مقداری آسانی‘ کی پالیسی ہے جس کے ذریعے سرمایہ داروں کو سستے پیسے کی بے دریغ سپلائی سے قرضوں کے انبار لگا دیئے گئے۔ اب جبکہ افراطِ زر کا جن بے قابو ہو چکا تو شرحِ سود بڑھا کر اسے واپس بوتل میں بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر اس سے شرحِ نمو تیزی سے سکڑ رہی ہے اور افراطِ زر پھربھی کم نہیں ہو رہا۔ درحقیقت افراطِ زر بھی بحران کی اصل وجہ نہیں ہے بلکہ اس زائد پیداواری صلاحیت کے بحران کی محض ایک علامت ہے جسے کارل مارکس نے سرمایہ داری کی بند گلی سے تعبیر کیا تھا۔ بوڑھے کارل مارکس کے طنزیہ قہقہے سرمائے کے پالیسی سازوں کی نیندیں اڑا رہے ہیں۔ ان کے ابدی نیند سونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
حال ہی میں سری لنکا کے عوام کی فقید المثال تحریک اور ایران میں جاری طوفانی واقعات نے عالمی دانش اور صحافت کو فرطِ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ مگر یہ تو ابھی محض ٹریلر تھا، فلم تو ابھی باقی ہے۔ ہم ایک ایسے انقلابی عہد میں داخل ہو چکے ہیں جو انقلابی قیادت کے فقدان کے باعث ہماری توقع سے زیادہ طویل، صبر آزما اور اعصاب شکن ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ دہائی بلاشبہ انقلابات، پسپائیوں اور جنگوں کی دہائی ہو گی۔ اگر ایران کی تحریک پسپا ہو گی تو کوئی دوسرا ملک اس سے ملتی جلتی تحریک کی لپیٹ میں ہو گا۔ ترکی میں پہلے ہی غیر قانونی (wild cat) ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں بھی انقلابی دھماکے دیکھنے میں آئیں گے۔ پاکستان بھی اسی سیارے پر واقع ہے اور یہاں ایک تاخیر زدہ تحریک پہلے ہی سطح پر نمودار ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے۔ سوات میں ریاست کی طرف سے مسلط کردہ طالبانائزیشن کے خلاف عوامی تحریک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے، اس سے کسی حد تک تھکاوٹ زدہ مزدور تحریک کو نئی شکتی ملے گی۔ طلبہ بھی مسلسل بڑھتی ہوئی فیسوں کی وجہ سے اضطراب کا شکار ہیں۔ سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ عمران خان کا ’آزادی‘ کا چورن بھی بہت بک چکا۔ عدلیہ اور فوج سمیت تمام ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے ضمنی انتخابات میں ملکی تاریخ کا کم ترین ٹرن آؤٹ ثابت کرتا ہے کہ عوام اس جمہوری سرکس سے بھی بیزار ہیں۔ اب پاؤں سے ووٹ دینے کے علاوہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا۔ اگر انہیں انقلابی قیادت میسر آئی تو اس بار یہ سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔