روس اور یوکرائن کی جنگ نے پوری دنیا کی سیاست اور معیشت میں بھونچال برپا کر دیا ہے۔اس جنگ سے عالمی سطح پر جاری طاقتوں کے توازن میں تبدیلی کے عمل نے معیاری طور پر سطح پر اپنا اظہار کیا ہے۔ امریکی سامراج اور یورپ میں اس کے اتحادی ممالک کی سامراجی طاقت کی کمزوری واضح طور پر پوری دنیا میں عیاں ہوئی ہے۔یوکرائن کا تنازعہ 2014ء سے ہی شدت اختیار کر چکا تھا اور امریکہ روس کے سامراجی اثر و رسوخ کو کم کرتے ہوئے اپنی کٹھ پتلی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔اس دوران دونوں جانب سے ایک دوسرے پر حملوں کا عندیہ بھی دیا جا رہا تھا اور جنگ کے سائے بھی خطے پر منڈلا رہے تھے۔لیکن امریکہ کی تمام تر اشتعال انگیزی کے باوجود پیوٹن فیصلہ کن اقدام سے ہچکچا رہا تھا۔اس دوران امریکی سامراج کی محدودیت عراق اور شام سے لے کر افغانستان تک واضح ہوتی گئی اور امریکی معیشت کا بحران بھی بڑھتا چلا گیا۔ امریکہ اور چین تنازعہ بھی شدت اختیار کرتا گیا اور واضح ہو گیا کہ امریکی کی جانب سے چین پرعائد کردہ تجارتی پابندیاں بھی چین کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکیں اور چین کا حکمران طبقہ اپنا سامراجی کردار بڑھاتا رہا۔گزشتہ سال افغانستان سے امریکی فوجوں کے ذلت آمیز انخلا کے واقعات نے اس کے سامراجی کردار کے خصی پن کو مزید عیاں کر دیا۔ روس کا حکمران طبقہ پہلے ہی اپنے ہمسایہ ممالک میں سامراجی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف تھا اور امریکہ کی کمزوری نے اس خواہش کو مزیدبڑھاوا دیا۔ اس سال کے آغاز پر قزاقستان میں مہنگائی کیخلاف ابھرنے والی عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے روسی فوجوں کی مداخلت اہم پیش رفت تھی۔ یہ وسطی ایشیائی ممالک امریکی سامراج کے اثر و رسوخ میں بھی تھے لیکن عوامی تحریک کے دباؤ میں وہاں کا حکمران طبقہ روس سے مدد کی اپیلیں کر رہا تھا۔ اس دوران یوکرائن کے محاذ پر بھی تنازعہ شدت اختیار کر رہا تھا اور امریکہ اپنی رہی سہی ساکھ بچانے کے لیے کسی طور پر بھی پسپائی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور یوکرائن کو نیٹو کی ممبر شپ دینے کا مسلسل وعدہ کر رہا تھا۔ اس دوران پیوٹن نے فیصلہ کن اقدام کرتے ہوئے یوکرائن میں اپنی فوجیں داخل کر دیں جس کے بعد پوری دنیا کی سیاست میں ایک اہم موڑ نظر آیا۔
امریکی سامراج اور یورپ میں اس کے اتحادی یوکرائن میں اپنے دوستوں کو بچانے کے لیے فوجیں نہیں اتار سکے اور صرف دھمکیوں اور معاشی پابندیوں کے ذریعے ہی کاروائیاں کرتے رہے ہیں۔اس جنگ سے جہاں یوکرائن سے چالیس لاکھ سے زائد افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں وہاں مغربی یورپ میں بھی جنگ کے پھیلنے اور شدت اختیار کر جانے کی بحث سیاست کا موضوع بن چکی ہے۔تمام ممالک کی بحران زدہ معیشتیں تیل، گیس اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مزید گہرے بحرانوں کا شکار ہو رہی ہیں اور یورپی ممالک میں افراط زر گزشتہ کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔یورپی یونین میں اپریل میں افراط زر 7.5فیصد تک پہنچ چکا تھا جبکہ جنگ سے پہلے فروری میں یہ 5.9فیصد تھا۔برطانیہ میں بھی یہ 7فیصد کی سطح عبور کر چکا ہے اور گزشتہ تین دہائیوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ترکی کا افراطِ زر سرکاری رپورٹ کے مطابق 70فیصد ہے جبکہ غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق 157فیصدہے اور معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔آئی ایم ایف نے عالمی سطح پر اس سال کے شرح ترقی کے اہداف بھی پہلے کی نسبت کم کر دیے ہیں اور انتہائی مایوسی کی تصویر پیش کی ہے۔اس کے مطابق 2021ء میں عالمی معیشت کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6.1فیصد سے کم ہو کر 2022ء میں 3.6فیصد تک گر جائے گا۔ سال کے آغاز پر آئی ایم ایف نے اس سال کی شرح ترقی کا اندازہ 4.4فیصد لگایا تھا جسے اب کم کر دیا گیا ہے۔ابھی تک یوکرائن کی جنگ کا خاتمہ نہیں ہوا اور نہ ہی روس کی جانب سے یورپی ممالک بالخصوص جرمنی کو فراہم کی جانے والی گیس بند کی گئی ہے۔ اگر آنے والے عرصے میں ایسے اقدامات ہوتے ہیں یا جنگ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے تو معاشی اور سماجی حوالوں سے بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔
اسی طرح یورپی ممالک کا امریکی سامراج پر انحصار اور اعتماد بھی پہلے کی نسبت کم ہوا ہے اور وہ اپنی آزادانہ پالیسیاں اختیار کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔درحقیقت دوسری عالمی جنگ کے بعد ابھرنے والا پورا ورلڈ آرڈر ہی ٹوٹ رہا ہے اور دنیا کے تمام ممالک اس کے اثرات محسوس کر رہے ہیں۔چین اور روس کی معیشتیں بھی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور سرمایہ داری کا کوئی بھی بحران ان معیشتوں کو بھی کمزور کرتا ہے۔ اس لیے تمام ممالک کے حکمران طبقات اس نظام کو بچانے کے خواہشمند ہیں لیکن ہر ملک کا حکمران طبقہ اپنے مفادات کو بھی ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس باہمی کشمکش میں نظام کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور جہاں نئے اتحاد بن رہے ہیں وہاں پرانے اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔برطانیہ کے انخلا کے بعد یورپی یونین پہلے سے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اب مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک روس کیپھیلتے کردار کے تحت اپنا قبلہ تبدیل کر رہے ہیں۔روس میں جنگ نے وقتی طور پر پیوٹن کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے لیکن یہ پائیدار نہیں رہے گی اور آنے والے عرصے میں روس کا محنت کش طبقہ پیوٹین کے خلاف تحریکوں میں ابھر سکتا ہے۔یہی صورتحال چین میں ہے جہاں سرمایہ دارانہ معیشت کابحران پورے ملک میں کروڑوں افراد کو غربت میں دھکیل رہا ہے اور حکمران طبقے کے خلاف غم و غصہ انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ اس صورتحال میں صدر شی جن پنگ اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حکمران طبقے کے اختلافات بھی شدت اختیار کر رہے ہیں۔اس کا اظہار جیک ما سمیت دیگر سرمایہ د اروں پر پابندیوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس سال چین کی کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس میں یہ اختلافات شدت اختیار کر سکتے ہیں جس میں شی جن پنگ آئندہ مزید پانچ سالوں کے لیے صدر بننے کی کوشش کرر ہا ہے۔
سب سے بڑا بحران امریکہ میں نظر آتا ہے جہاں ایک طرف حکمرانطبقے کی دونوں پارٹیوں کا عوام دشمن کردار بے نقاب ہو چکا ہے اور دوسری جانب مزدور تحریک ایک طویل عرصے کے بعد دوبارہ ابھر رہی ہے۔ ایمزون جیسی دیو ہیکل کمپنی میں یونین سازی کا آغاز انتہائی اہم پیش رفت ہے اور یہ سلسلہ رکنے والا نہیں بلکہ بہت سی دوسری کمپنیوں میں نئی یونینیں بن رہی ہیں جبکہ ہڑتالوں کا سلسلہ بھی پھیل رہا ہے۔سوشلزم کے نظریات بھی امریکی عوام کی وسیع پرتوں میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور سرمایہ داری سے نفرت بڑھ رہی ہے۔امریکی معیشت کا آنے والا مالیاتی بحران اس عمل کو مزید تیز کرے گا اورامریکہ میں طبقاتی کشمکش نئی انتہاؤں کو چھوتی نظر آئے گی۔
پوری دنیا میں جاری اس ہیجان، بحرانوں اور جنگوں کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کا گہرا زوال ہے اور اس سے باہر نکلنے کے لیے دنیا بھر کے حکمرانوں کے پاس کوئی رستہ نہیں۔ ایک طرف وہ عوام پر ہر طرح کا جبر اور تشدد کر رہے ہیں اور دوسری جانب سرمایہ دار طبقے کے منافعوں میں اضافے کی کوششیں کر رہے ہیں۔اس نظام کو چلانے کے پرانے تمام طریقے ناکار ہ ہوتے جا رہے ہیں اور یہ نظام ہر طرف مزید تباہی، خونریزی، جنگیں اور بھوک پھیلا رہا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کو جتنی جلدی ختم کر دیا جائے انسانیت کی بقا کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس انقلاب کا آغاز کسی بھی ایک ملک سے ہو سکتا ہے لیکن ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب بہت تیزی سے پوری دنیا میں پھیلے گا اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لے گا۔