عالمی سرمایہ داری کا بحران ٹرمپ کی شکل میں مجسم انداز میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ ٹرمپ کا امریکہ میں دوبارہ اقتدار میں آنا واضح کرتا ہے کہ امریکی سماج سمیت پوری دنیا کو پہلے کی طرز پر نہیں چلایا جا سکتا اور اس نظام میں ایک بنیادی تبدیلی وقوع پذیر ہو چکی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے پچھلے دورِ اقتدار میں بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ سمیت پوری دنیا کے ورلڈ آرڈر کو بڑے جھٹکے دیے تھے۔ اس دفعہ وہ پہلے سے بھی بڑے حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ صدارت سنبھالتے ہی اس نے امریکہ کا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے تعلق ختم کر دیا ہے اور اس عالمی ادارے سے امریکہ کو باہر نکال لیا ہے۔ اسی طرح وہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کیے گئے پیرس معاہدے سے بھی امریکہ کو باہر نکال رہا ہے۔
ٹرمپ مغربی سامراجی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کو بھی تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور یورپی ممالک سے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنے کا بھی مطالبہ کر رہا ہے تاکہ نیٹو کے اخراجات کا بوجھ ان پر بھی منتقل کیا جا سکے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں وہ نیٹو کو تقریباً ختم ہی کرنا چاہتا ہے۔
اسی طرح پچھلے دور میں ٹرمپ نے اقوام متحدہ پر بھی حملے کیے تھے اور اس کے مختلف اداروں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ان کی مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اسی طرح وہ براعظم امریکہ کے مختلف ممالک کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو بھی از سر نو طے کرنا چاہتا ہے بلکہ کینیڈا کو تو امریکہ کی ریاست بنانا چاہتا ہے۔
اس سارے عمل سے واضح ہو گیا ہے کہ عالمی سطح پر سامراجی طاقتوں کے توازن میں تبدیلی کا اظہار عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کے اداروں میں بھی ہو رہا ہے۔ امریکی سامراج نسبتی زوال کا شکار ہے اور اس کی گرفت عالمی تعلقات پر ڈھیلی ہو رہی ہے جس کی بنیاد پھر سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہی ہے۔
اس کے مقابلے میں چین اور روس سمیت دیگر سامراجی طاقتیں مختلف خطوں میں ابھر رہی ہیں جو اپنے مفادات کے تحت ادارے ترتیب دینا چاہتی ہیں۔ برِکس نام کا ایک ادارہ اسی لیے پھیل رہا ہے جس میں چین اور روس کی جکڑ مضبوط ہے۔ اس ادارے میں انڈونیشیا کی بڑی معیشت کی شمولیت سے اس میں شامل ممالک کے جی ڈی پی کا حجم دنیا کے کُل جی ڈی پی کے پچاس فیصد کے برابر ہو چکا ہے۔
لیکن اس کے باوجود یہ تمام ممالک مل کر بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کھل کر مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ان کے مفادات یورپی اور امریکی منڈی کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔
در حقیقت یہ تمام ممالک عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور عالمی معیشت کا جزو ہیں اور اس سے الگ ان کی بقا ممکن نہیں۔ لیکن عالمی مالیاتی بحران اور نظام کے زوال کے باعث ان میں مسابقت کی دوڑ میں شدت آ چکی ہے اور یہ ایک دوسرے کی قیمت پر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں پورا نظام مزید زوال پذیر ہو رہا ہے۔
اس صورتحال میں اس نظام کے تمام تر ادارے بھی زوال کا شکار ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ داری کے عروج کے دور میں تعمیر ہوئے تھے۔ اس وقت اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین تک اور ورلڈ بینک سے لے کر آئی ایم ایف تک تمام عالمی ادارے شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ ان کی جگہ لینے کے لیے یا ان کے متبادل نئے ادارے موجود نہیں یا اگر بنائے بھی جا رہے ہیں تو ان کا مستقبل اتنا روشن نہیں۔
یہ تمام ادارے اور ان کے فیصلے دنیا کے طاقتور سامراجی ممالک کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ان کے ہی مفادات کے نگہبان ہیں۔ اقوام متحدہ کا غلیظ کردار پوری دنیا دیکھ چکی ہے جو فلسطین پر اسرائیل کے مسلط کردہ جبر اور حالیہ وحشیانہ جنگ کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ اسی طرح عراق اور افغانستان کی جنگوں سے لے کر یوکرائن تک کسی بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں دے سکا۔
ان اداروں میں موجود نمائندے بھی دنیا کے تمام ممالک کے حکمران طبقے کی ہی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے ہی مفادات کے لیے وہاں پر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ کسی بھی ملک کے محنت کش طبقے کی نمائندگی وہاں موجود نہیں اور نہ ہی ان میں ایک بھی ایسا کوئی ادارہ ہے جہاں کسی بھی ملک کے محنت کش طبقے کے مفادات کے تحت پالیسیاں بنائی جاتی ہوں اور فیصلے کیے جاتے ہوں۔
دنیا بھر کے مزدور طبقے کو یکجا کرنے کا نعرہ اور ان کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم تشکیل دینے کا سہرا کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے سر ہی جاتا ہے، جنہوں نے 1848ء میں کمیونسٹ پارٹی کے مینی فیسٹو میں ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ“ کا نعرہ دیا تھا۔
در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے کسی بھی عالمی ادارے اور عالمگیریت کے نظریے سے پہلے یہ کمیونسٹ ہی تھے جنہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے بین الاقوامی کردار اور اس کو اکھاڑنے کے لیے بین الاقوامی جدوجہد کا نظریہ دیا تھا۔ اسی نظریے کے تحت 1864ء میں مارکس اور اینگلز کی قیادت میں مزدوروں کی پہلی انٹرنیشنل بھی قائم کی گئی تھی جس نے اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا کام تیز کر دیا تھا۔
1871ء میں پیرس کمیون کے واقعے میں وہاں کے مزدوروں نے پورے شہر کو پہلی دفعہ اپنے قبضے میں لے کر جمہوری انداز میں چلایا تھا اور مزدور ریاست کا تصور عملی طور پر ابھر کر نظر آیا تھا۔ لیکن قیادت کی غلطیوں کے باعث یہ کمیون چند ماہ بعد ہی شکست کھا گئی اور سرمایہ داروں نے اسے خون میں ڈبو دیا۔ اس کے بعد پہلی انٹرنیشنل بھی فعال نہیں رہی۔
اس کے بعد اینگلز کی سرپرستی میں 1889ء میں دوسری انٹرنیشنل قائم کی گئی جس کی جرمنی سمیت دنیا کے درجنوں ممالک میں شاخیں تھیں اور اس کے ممبران کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اس انٹرنیشنل کی قیادت کی نظریاتی غداری کے باعث لینن، ٹراٹسکی اور دیگر کمیونسٹ اس سے علیحدہ ہو گئے۔
آغاز میں الگ ہونے والے یہ کمیونسٹ دو سے تین درجن افراد ہی تھے۔ لیکن درست نظریات کی بنیاد پر ان قیادتوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اور بعد میں ابھرنے والے انقلابات میں کلیدی کردار ادا کیا۔
روس میں 1917ء میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں تیسری انٹرنیشنل قائم کی گئی جسے کمیونسٹ انٹرنیشنل بھی کہا جاتا ہے۔ اس انٹرنیشنل کے تحت پوری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں تعمیر کی گئیں جن کے ممبران کی تعداد ابتدا میں کم ہی تھی لیکن جلد ہی یہ لاکھوں میں پہنچ گئی اور ہر ملک میں کمیونسٹ پارٹیاں ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔
لینن کی وفات کے بعد سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے عمل کا آغاز ہو اجس میں اس انٹرنیشنل کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے جو اجلاس پہلے ہر سال باقاعدگی سے ہوتے تھے اور روس کی خانہ جنگی یا دیگر مالیاتی مسائل کی وجہ سے بھی تاخیر کا شکار نہیں ہوتے تھے، وہ کئی کئی سالوں تک التوا کا شکار ہونے لگے۔
اس انٹرنیشنل کو سوویت یونین کی بیوروکریسی کے ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور ”ایک ملک میں سوشلزم“ اور مرحلہ وار انقلاب کے غلط نظریات اس کے ذریعے دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں پر مسلط کیے گئے جس سے دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ ٹراٹسکی نے پہلے اس کی اصلاح کی کوششیں کیں لیکن پھر 1938ء میں ایک نئی چوتھی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران سٹالن نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کے باقاعدہ خاتمے کا اعلان کر دیا جبکہ حقیقت میں یہ پہلے ہی غیر فعال ہو چکی تھی۔ اس وقت سٹالن نے امریکہ اور برطانیہ سے معاہدے کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی جس میں دنیا کی بڑی طاقتوں کو ویٹو کا حق دیا گیا جو آج تک قائم ہے۔ اس ادارے کی تاریخ اور کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور واضح ہو چکا ہے کہ یہ ادارہ اپنے ہی متعین کردہ اہداف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
آج دنیا بھر کے کمیونسٹ انقلابیوں نے ایک نئی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی ہے جس کا نام انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل ہے اور یہ دنیا کے ساٹھ سے زیادہ ممالک میں کام کر رہی ہے۔ یہ انٹرنیشنل نہ صرف دنیا بھر میں کمیونسٹ قوتوں کو منظم کر رہی ہے بلکہ ہر ملک میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی تعمیر کرتے ہوئے وہاں پر سرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کر رہی ہے۔
دنیا بھر کے محنت کشوں کو یکجا کرنے کا عزم لیے ہوئے یہ انٹرنیشنل دنیا بھر کے انقلابیوں سے اپیل کرتی ہے کہ اس کا حصہ بنیں اور سرمایہ داری کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے اور اس کو دفنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔