کرونا وبا پر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی قابو نہیں پایا جا سکا اور دنیا کے بیشتر ممالک ابھی بھی لاک ڈاؤن یا نیم لاک ڈاؤن کی کیفیت میں ہیں۔ ویکسین آنے کے باوجود پوری دنیا تک اس کی فراہمی ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی۔ منافع کی ہوس پر مبنی اس نظام میں انسانیت کو لاحق اس وبائی مرض سے بھی تاریخ کے بلند ترین منافع نچوڑنے کا عمل جاری ہے جس میں پوری دنیا کے حکمران طبقات شامل ہیں۔ میڈیکل سائنس کی ترقی اور تحقیق کو انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرنے کی بجائے سرمایہ داروں کے منافع کے لیے اس نظام میں آغاز سے ہی استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب یہ عمل اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔ ایک طرف کروڑوں لوگ وبائی امراض اور علاج کی ناکافی سہولیات کے باعث مر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب حکمران طبقات منافع خوری پر مبنی اس نظام کو قائم رکھنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ممالک میں یہ انسان دشمن نظام مزید ہولناک اور خونریز ہو جاتا ہے اور محنت کشوں کے خون سے ہولی کھیلنا حکمرانوں کا معمول بن جاتا ہے۔ یہاں پر وبا سے نپٹنے کے لیے کوئی انتظام سرے سے کیا ہی نہیں گیا، اس کے علاوہ اس بد ترین انسانی سانحے کے دوران سرکاری ہسپتالوں کی تیز ترین نجکاری کی گئی، لاکھوں سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا اور بنیادی ضروریات کی اشیا کی قیمتوں میں سو فیصد سے بھی زائد اضافہ کر دیا گیا۔ آٹا، چینی، بجلی، تیل سمیت کوئی بھی بنیادی ضرورت کی شے ایسی نہیں ہے جس کی مصنوعی قلت نہ پیدا کی گئی ہو اور اس کی قیمت میں تاریخ کا بلند ترین اضافہ نہ کیا گیا ہو۔ اس دوران حکمرانوں کی پر تعیش زندگیوں کے قصے بھی عام ہوتے رہے جن میں وزیر اعظم اپنے پلے ہوئے کتوں کے ساتھ وقت گزارتے نظر آیا جبکہ جرنیلوں کی بیرون ملک جائیدادیں اور پیزے کے کاروبار منظر عام پر آئے۔ دوسری طرف کروڑوں محنت کش بھوک اور بیماری کے باعث سسکتے اور تڑپتے رہے جبکہ سینکڑوں خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بہت سے والدین غربت کے باعث اپنے چھوٹے بچوں کو قتل کرنے پر مجبور ہو گئے جو اس نظام اور یہاں کے حکمرانوں کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے۔
آغاز میں اس کیفیت کو عارضی سمجھا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ چند مہینوں میں یہ وبا ختم ہو جائے گی یا اس پر قابو پا لیا جائے گا۔ لیکن ایک سال گزرنے کے بعد یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ وبا کے بعد بننے والی غیر یقینی کیفیت کا معمول ایک مستقل حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور مستقبل قریب میں پرانے معمول کی جانب لوٹنا ممکن نہیں۔ اسی طرح حکمرانوں کا تعلیم دشمن رویہ بھی کھل کر واضح ہو رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ تعلیم کا تمام تر نظام ہی خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہی صورتحال صحت کے عمومی انفراسٹرکچر کی ہے جو بوسیدگی کے باعث زمین بوس ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دیگرسرکاری محکموں کے انفراسٹرکچر کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں اور انہیں بھی بڑے پیمانے پر ختم کیے جانے کے اقدامات تیزی سے کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے لیے پنشن، مستقل ملازمت اور دیگر مراعات جو انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی تھیں وہ بتدریج ختم کی جا رہی ہیں اور آنے والے مہینوں میں اس حوالے سے بڑے اعلانات متوقع ہیں۔ دوسری جانب روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ نجی شعبہ تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہو کر تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ زراعت کا شعبہ تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہا ہے اور لاکھوں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسان دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ کپاس، چینی اور آٹے جیسی بنیادی اجناس بھی درآمد کی جاتی ہیں جبکہ ملک کے اندر پیداوار ی سرگرمیوں کو محدود کیا جا رہا ہے۔
ریاست کو سامراجی آقاؤں سے ملنے والی مالی امداد بھی سکڑتی جا رہی ہے جس کی وجہ ان سامراجی طاقتوں کا اپنا مالیاتی بحران ہے۔ گزشتہ سال شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کو گزشتہ تین سو سال میں سب سے بد ترین بحران کہا جا رہا ہے جس میں دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی پیداوار منفی ہندسوں میں جا چکی ہے اور بڑے پیمانے پر ریکوری کے امکانات ابھی تک دکھائی نہیں دیتے۔ امریکہ کا ریاستی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور وہاں کی معیشت کوتاریخ کے سب سے دیو ہیکل بیل آؤٹ پیکج دینے کے باوجود معیشت کی بحالی کا آغاز نہیں ہو سکا۔ امریکہ کی سیاست میں اس کے اثرات واضح طور پرنظر آ رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس اور کانگریس پر مشتعل افراد کے حملوں سے وہاں کے شہریوں کے جذبات کی ہلکی سی عکاسی ہوتی ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال لاکھوں افراد کی تحریکیں وہاں پر موجود عوامی غم و غصے اور بے چینی کا سطح پر اظہار ہیں۔ یورپ سمیت دنیا کا کوئی بھی خطہ ایسا نہیں جہاں عوامی تحریکیں معمول نہ بن چکی ہوں۔ میانمار کے فوجی جرنیلوں کے خلاف عوام کی دلیرانہ عوامی بغاوت ہو یا انڈیا کے کسانوں کی جدوجہد، ہانگ کانگ کے لاکھوں شہریوں کی مثالی تحریک ہو یا ایران اور عراق میں ابھرنے والی انقلابی تحریکیں اس وقت ہر جگہ عوامی غصے کا لاوا پھٹ رہا ہے۔
یہ تمام صورتحال درحقیقت پوری دنیا میں موجود سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی زوال کی نشاندہی کرتی ہے۔ آنے والے عرصے میں اس نظام کا ماضی جیسا عروج حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح پسندی یا ریفارم ازم کی تمام مادی بنیادیں ختم ہو چکی ہیں۔ عوام کو چند سطحی اصلاحات کا لالچ دے کر اقتدار میں آنے کا حربہ اب ممکن نہیں رہا۔ اس نظام میں بر سر اقتدار آنے والا ہر شخص اور ہر پارٹی نا گزیر طور پر عوام پر بد ترین حملے کرے گی۔ موجودہ صورتحال کی سازشی تھیوریوں یا دیو مالائی قصوں کے ذریعے وضاحت کرنے کی کوششیں بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہیں۔ معیشت، سیاست، سفارت کاری سمیت کسی بھی شعبے کے بحران کی وضاحت یہاں موجود کرائے کے دانشوروں، درسی کتب اور تحقیقی مقالوں میں موجود نہیں۔ اس نظام کو دنیا بھر میں مسلط رکھنے والے دانش اور حکمت کے مراکز میں ہیجانی کیفیت طاری ہے اور ہر روز برپا ہونے والے نئے حادثات، سیاست اورریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ اور مالیاتی زلزلے انہیں حیران اور پریشان کر دیتے ہیں اور وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اس وقت اگر موجودہ صورتحال کی درست سائنسی وضاحت کی جا سکتی ہے تو وہ صرف مارکسزم کے جدید ترین نظریے سے ہی کی جا سکتی ہے۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو سے لے کرداس کیپیٹل جیسی شہرۂ آفاق تصانیف انسانیت کے پاس علم کا ایسا قیمتی اثاثہ ہے جو اس سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو آشکار کرتا ہے، اس کے بحرانوں کی وجوہات کی وضاحت کرتا ہے اور اس تباہی اور بربادی سے باہر نکلنے کا انقلابی حل بھی پیش کرتا ہے۔ آج کی سائنس کو درپیش مشکلات اور جکڑ بندیوں کو حل کرنے سے لے کر عوام کو اس عذاب مسلسل سے نجات دلانے کا واحد رستہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے سیاستدانوں، دانشوروں، پروفیسروں اور تجزیہ نگاروں کے تمام حل جھوٹ، فریب اور دھوکے پر مبنی ہیں اور انسانیت کو درپیش ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی حل نہیں کر سکتے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا جبر ہو یا ریاستی اداروں کی عوام دشمنی، سیاسی پارٹیوں کی مسلسل ناکامی ہو یا تعلیمی نظام کی گراوٹ، خاندانی رشتوں میں پھیلتا زہر ہو یا سماج میں پھیلتی منافقت اور ریا کاری، ان سب کی بنیادنظام کا زوال ہے جس کو روکنا دنیا کی کسی عسکری، سیاسی یا معاشی طاقت کے لیے ممکن نہیں۔ لیکن سماج کی رگوں میں پھیلتے اس زہر کو ایک انقلابی جراحی کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے مارکسزم کے نظریے پر عبور حاصل کرنا بنیادی شرط بن چکا ہے۔ یہ وہ جادوئی منتر ہے جسے پڑھے بغیر ان آسیب زدہ حالات سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ بہت سے لوگ ملتے جلتے ناموں سے دھوکہ دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں، کچھ اس نظریے کو پرانا کہہ کر رد کردیتے ہیں، کچھ اس کو جدت کے نام پر مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی طرح شارٹ کٹ کے ذریعے منزل تک پہنچنے کی کوشش کرتے جو ہر دفعہ بری طرح ناکام ہوتی ہے۔ لیکن اگر عوامی پیمانے پر ایک ایسی انقلابی قوت وجود میں آ گئی جس کی بنیاد مارکسزم کے حقیقی نظریات پر ہوئی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کرۂ ارض پر سوشلسٹ انقلاب کو ابھرنے سے نہیں روک سکتی۔