اداریہ لال سلام: سوشلسٹ انقلاب ہی معاشی بحران سے نجات دلا سکتا ہے!

 

عالمی سطح پر معاشی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور دنیا بھر کی معیشتوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ عالمی معاشی بحران کے اثرات دنیا بھر کی سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور ہر جانب حکمران طبقہ ہیجان اور افرا تفری کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ پرانے اتحاد ٹوٹ رہے ہیں، سیاسی پارٹیاں ختم ہو رہی ہیں، ریاستیں کمزور ہو رہی ہیں اور معیشتیں تباہ ہورہی ہیں۔ درحقیقت عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام اپنے نامیاتی بحران کی انتہاؤں تک پہنچ چکا ہے اور اس سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ اس وقت اس کے پاس موجود نہیں۔ نظام کے زوال اور انہدام کی جانب اس کے سفر کا اظہار معیشت سے لے کر سیاست اور سفارت تک ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔
امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ ختم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرچکی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے چین کی امریکہ آنے والی اشیا پر درآمدی ٹیکسوں میں اضافہ کیا جا چکا ہے جبکہ چینی کمپنیوں، جن میں ٹیلی کام کی کمپنی ہواوے بھی شامل ہے، کا ناطقہ بند کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے بقول اس عمل کا مقصد امریکی کمپنیوں اور سب سے بڑھ کر امریکی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔ اس کے نزدیک امریکہ میں موجود معاشی بحران اور بیروزگاری میں اضافے کو روکنے کا یہ سب سے مؤثر حل ہے۔ لیکن اس عمل سے معاشی بحران حل ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور امریکی معیشت سمیت دنیا بھر کی معیشتیں روبہ زوال ہیں۔ چین کی جانب سے ردِ عمل کے طور پر کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں امریکی برآمدات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور خاص طور پر امریکہ کے کسان اور ان سے جڑی کمپنیاں شدید بحران کا شکار ہیں۔ اسی طرح درآمدات پر ٹیکسوں میں اضافے سے امریکی صارفین کے لیے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ ان کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ اس تمام بحران کے باعث سرمایہ داروں میں بھی شدید بے چینی پائی جاتی ہے جس کا اظہار امریکی سٹاک ایکسچینجوں میں شدید مندی کے رجحان میں ہورہا ہے۔ مئی کے مہینے میں سال کی سب سے زیادہ گراوٹ نظر آئی اور ایک کساد بازاری کے آغاز کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ اس وقت کسی کے پاس بھی اس تجارتی جنگ کے خاتمے کا کوئی منصوبہ نہیں اور واضح طور پر اس میں شدت آنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ جنگ حتمی طور پر دونوں ممالک کی معیشتوں کو مزید تباہ کرنے کی جانب بڑھے گی اور اپنے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو بھی ڈبوسکتی ہے۔
یورپ سے لے کر کینیڈا اور جاپان تک دنیا کی تمام دیگر ترقی یافتہ معیشتیں بھی شدید بحرانوں کا شکار ہیں اور اس سے باہر نکلنے کا ان کے پاس کوئی رستہ نہیں۔ جرمنی کا سب سے بڑا بینک دیوالیہ پن کی کھائی کے دہانے پر لڑکھڑا رہا ہے جبکہ جرمنی سمیت برطانیہ اور اٹلی کی معیشتیں پھیلنے کی بجائے مسلسل سکڑ رہی ہیں۔ یورپی یونین اور امریکہ کے تعلقات بھی تناؤ کا شکار ہیں اور ٹرمپ کی طرح یورپ میں بھی ایسے افراد برسر اقتدار آ رہے ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی قیمت پر اپنے ملک کے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ درحقیقت، دوسری عالمی جنگ کے بعد بنایا گیا ورلڈ آرڈر ٹوٹ رہا ہے اور اس ورلڈ آرڈر کے تحت تخلیق کیے گئے عالمی مالیاتی ادارے اور تنظیمیں کوئی بھی کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ انہی بحرانوں کی کوکھ سے ہر جگہ عوامی تحریکیں بھی جنم لے رہی ہیں جن میں بائیں بازو کے نظریات پذیرائی حاصل کر رہے ہیں۔
پاکستان جیسے پسماندہ ترین ممالک اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی کمزور ترین کڑی کا درجہ رکھتے ہیں اور اتنے وسیع و عریض بحرانوں میں اس ملک کی چھوٹی سی معیشت کو بچانے میں کسی کو بھی دلچسپی نہیں۔ اس معیشت کو پہلے بھی خطے میں امریکی سامراج کے مفادات کے حصول کے لیے آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے قرضوں کے ذریعے ہی پالا جاتا تھا۔ اس معیشت اور اس پر براجمان حکمرانوں کا پہلے بھی کبھی کوئی خاص آزادانہ کردار نہیں تھا بلکہ دنیا میں اسے ایک گماشتے کی حیثیت سے ہی جانا جاتا تھا۔ لیکن آج دنیا اور بالخصوص اس خطے میں طاقتوں کے توازن میں تبدیلی کے باعث اس کردار کی پہلے جیسی ضرورت نہیں رہی۔ اسی لیے اس کا ناطقہ بند کیا جا رہا ہے اور یہ تیزی سے ایک بند گلی میں داخل ہورہا ہے۔ اس سارے عمل میں جہاں ریاست اور اس کے تمام اداروں کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے اور ان کی بنیادیں لڑکھڑا رہی ہیں وہیں پر معیشت کے دیوالیہ پن کی منزل بھی قریب آتی جارہی ہے۔ دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی اس نظام کے اصولوں کے تحت اس بحران کا تمام تر ملبہ محنت کش عوام پر ڈالا جارہا ہے اور انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔
روپے کی قدر میں تیز ترین گراوٹ، پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، شرحِ سود میں تیز ترین اضافہ، نجکاری کے نئے اور بڑے حملے اور بیروزگاری میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ اس معاشی بحران کے آغاز کی نشانیاں ہیں۔ مارکس وادی گزشتہ کئی سالوں سے اس صورتحال کا تناظر پیش کر رہے تھے جسے سنجیدہ نہیں لیا جاتا تھا۔ موجودہ حکومت کا بھی خیال تھا کہ وہ دوست ممالک سے بھیک مانگ کر یا سمندر پارپاکستانیوں کے چندے اور خیرات کے ذریعے اس بحران پر قابو پا لے گی۔ اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ چین سی پیک کے بدلے اس ملک کی معیشت کو سنبھالا دے گا اور پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کو ایک دفعہ پھر مہنگے داموں فروخت کر سکے گا۔ لیکن بالآخر واضح ہوگیا کہ ان حکمرانوں سمیت اس ملک کا کوئی بھی سنجیدہ تجزیہ نگار اور دانشور اور بالخصوص بائیں بازو کا لبادہ اوڑھنے والے لبرل خواتین و حضرات بحران کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ آج بھی ان کے پاس کسی بھی مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں اور سب مل کر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو چکے ہیں۔ جس ادارے کی دلالی میں منہ کالا کرنے کا الزام سابقہ حکومتوں پر لگایا جاتا تھا اور جس عطار کے لونڈے کے سبب یہ حالات بنے آج اسی کی دوا کو اکسیر ثابت کیا جارہا ہے۔ لیکن کوئی بھی اس نظام کے بحران اور عالمگیر سطح پر نظام کے زوال کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی لیے ان بحرانوں پر بھی قابو نہیں پایا جاسکے گا اور ایک کے بعد دوسری شکل میں یہ زوال پذیر نظام اپنی گراوٹ کا سفر مسلسل جاری رکھے گا۔
آنے والے عرصے میں روپے کی قدر میں مزید گراوٹ آئے گی، بیروزگاری بڑھے گی اور ساتھ ہی ساتھ حکمران طبقے کے خلاف نفرت میں بھی تیزترین اضافہ ہو گا۔ ان حکمرانوں کی آپسی لڑائیوں میں بھی شدت آئے گی اور لوٹ مار میں اضافہ ہوگا۔ تمام تربحران کا ملبہ محنت کش عوام پر ڈال کر یہ حکمران اپنی جائیدادیں تیزی سے بیرون ملک منتقل کرتے جائیں گے۔ لیکن آنے والے عرصے میں ابھرنے والے عوامی طوفانوں کو روکنا بھی اب اس ریاستی مشینری کے بس میں نہیں ہوگا۔ پہلے ہی جبر کی انتہا کی جا چکی ہے اور معمولی سی بھی تنقید پر بد ترین سزاد ی جاتی ہے۔ لیکن جہاں حکمران آنے والے طوفانوں سے خوفزدہ ہیں وہاں محنت کش طبقے کے پاس بھی اس نظام کو چیلنج کرنے کے سوا کوئی رستہ نہیں۔ تمام سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی جائیدادیں اور دولت ضبط کرنا پڑے گی، سامراجی قرضوں کو ادا کرنے سے انکار کرنا ہوگا، تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو مزدوروں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لینا ہوگا، تمام صنعتوں اور معیشت کے کلیدی شعبوں کو نجی ملکیت سے نکال کر مزدوروں کے اجتماعی کنٹرول میں لینا ہوگا اور یہاں سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرکے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہو گا۔ صرف اسی ایک طریقے سے یہاں غربت، مہنگائی، بیروزگار ی، لاعلاجی اور ناخواندگی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور ہر شخص کو
روٹی، کپڑا اور مکان دیا جاسکتا ہے۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بہتری کی تمام سیاست کا وقت اب ختم ہوچکا ہے اورمستقبل صرف انقلابی تحریکوں کا ہے۔

Comments are closed.