آج اس سماج کے آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی تقسیم ہے۔ آج دنیا میں جتنی دولت پیدا ہوتی ہے اور جتنے وسائل موجود ہیں ان کا صرف ایک چھوٹا حصہ استعمال کر کے پوری دنیا سے غربت، بھوک، بیماری، لاعلاجی اور ناخواندگی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ آج دنیا بھر میں جتنا اسلحے اور جنگوں پر خرچ کیا جاتا ہے اس سے کہیں کم اخراجات سے پوری دنیا میں ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار دیا جا سکتا ہے۔ آج پوری دنیا کے لوگوں کو خوراک مہیا کرنے کے لیے پیداوار کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے، لوگوں کو کپڑے اور مکان مہیا کرنے کے تمام وسائل اور صنعتیں موجود ہیں۔ اسی طرح ہر طرح کا علاج فراہم کرنے کے لیے ہسپتال بنانے سے لے کر طبی عملے تک کی تیاری کے لیے انفراسٹرکچر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہر شخص کو مفت بجلی، گیس، پانی، آرام دہ ٹرانسپورٹ اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لیے بھی وسائل اور ٹیکنالوجی موجود ہے۔
لیکن اس رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس دنیا پر براجمان حکمران طبقہ ہے جو منافع خوری، لوٹ مار اور استحصال پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کا ہر قیمت پر تحفظ چاہتا ہے۔ یہ نظام ان حکمرانوں کو نہ صرف پوری دنیا میں پیدا کی گئی دولت کا بڑا حصہ لوٹنے اور اپنی ملکیت میں لینے کی ضمانت فراہم کرتا ہے بلکہ اسے اپنی اگلی نسلوں کے لیے جاری رکھنے کی بھی یقین دہانی کراتا ہے۔ اسی طرح اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے بھی انہیں یہ ریاستی اداروں سے لے کر نصاب تعلیم اور دیگر تمام ذرائع ابلاغ پر کنٹرول فراہم کرتا ہے۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے موجود سیاسی پارٹیوں کے ذریعے آئین اور قانون تشکیل دینے سے لے کر انہیں عدالتوں کے ذریعے سماج پر اپنی حکمرانی کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کی ضمانت بھی یہی نظام دیتا ہے۔
اس طبقاتی نظام کو قائم رکھنے کے لیے حکمران طبقات مخصوص نظریات، فلسفے اور تعلیمی نصاب کو بھی استعمال کرتے ہیں اور محنت کش عوام کو مختلف انداز میں یہ جھوٹ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمیشہ سے ایسے ہی چلتا آیا ہے اور ایسا ہی چلتا رہے گا۔ حکمران طبقات تاریخ کے کسی بھی موڑ پر برپا ہونے والے انقلابی واقعات کو یا تو فراموش کر دینا چاہتے ہیں یا اسے تاریخ سے ہی حذف کر دیتے ہیں۔ اسی طرح ایسا فلسفہ اور ایسی تاریخ مرتب کی جاتی ہے جس میں کبھی کسی انقلاب کا ذکر ہی نہ ہو اور نہ ہی امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا شائبہ بھی موجود ہو۔
یہی نظریات سیاسی تحریکوں پر بھی مسلط کیے جاتے ہیں اور تمام تر سیاست کو اسی نظام کی حدود میں قید کر کے مختلف حل پیش کیے جاتے ہیں جو امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کو ایک آفاقی امر کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے دیگر امور پر ”دانشوری“ جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان تمام سیاستدانوں، پارٹیوں اور ان کے منشور کے مطابق امیر اور غریب کی تقسیم سماج کے لیے ویسے ہی ہے جیسے زمین کی کشش ثقل یا پھر زمین کی سورج کے گرد مدار میں حرکت۔
یہ ”غلطی“ مروجہ سیاستدانوں کی تمام تقریروں، گفتگو، بیانات اور پارٹی پروگرام کی بنیاد میں موجود ہوتی ہے جس پر کبھی گفتگو تو نہیں کی جاتی لیکن ان کے تمام دلائل اور سیاست کی بنیاد میں یہ نکتہ موجود ہوتا ہے۔ مروجہ سیاستدانوں کی تقریریں خواہ وہ حکومتی ترجمان ہو، روایتی اپوزیشن ہو یا پھر کسی مزاحمتی تحریک کے قائدین ہوں، انہیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے سماج میں امیر اور غریب کی تقسیم کہیں موجود ہی نہیں جبکہ سماج کے ہر پہلو میں یہ موجود ہوتی ہے۔ خوراک، لباس اور رہائش سے لے کر علاج اور تعلیم کی سہولیات تک اور بجلی، گیس، پانی کی فراہمی سے لے کر ٹرانسپورٹ کے استعمال تک یہ زندگی کے ہر پہلو میں موجود ہے۔ عوام کی اکثریت کے لیے امیر افراد کسی دوسرے ہی سیارے کی مخلوق ہوتے ہیں جو ان کی تقدیروں کے فیصلے کرتے ہیں۔ لیکن اس سب سے واضح اور ہر وقت نظر آنے والی تفریق اور اس کے خاتمے کی جدوجہد پر کبھی ایک جملہ بھی سننے کو نہیں ملتا۔ یہ یقینا اتفاق نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر ایسا کیا جاتا ہے اور اس کے پیچھے ایک منظم نظریہ اور نظام موجود ہے۔
دوسری جانب کمیونزم اپنی بنیاد ہی اس نظریے پر بناتا ہے کہ امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم ہمیشہ سے موجود نہیں بلکہ یہ انسانی تاریخ کے ایک مخصوص مرحلے پر ابھری تھی اور اب اس کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہ نظریہ پیش کرنے والوں نے اس مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے فلسفے، تاریخ اور معیشت کا گہرا تجزیہ کیا اور ایک طویل بحث و مباحثے کے بعد سائنسی طریقے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے سماج کو اس نکتے تک پہنچا دیا ہے اور ذرائع پیداوار اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ اب اس طبقاتی تقسیم کا کوئی جواز موجود نہیں اور پوری دنیا میں سامراجی جنگوں اور خونریزی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے دولت کی منصفانہ تقسیم کی جا سکتی ہے اور ہر شخص کو تمام بنیادی ضروریات مہیا کرتے ہوئے انسانیت تسخیر کائنات کے عمل میں مشترکہ طور پر شریک ہو سکتی ہے۔ ایک کمیونسٹ سماج میں امیر اور غریب کی تقسیم نہیں ہو گی اور نہ ہی دنیا کو مختلف قومی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہو گی، نہ ہی کسی فوج اور پولیس کی ضرورت ہو گی۔ لینن کے بقول پوری دنیا ایک آسمان کے نیچے ایک خاندان کے طور پر رہے گی۔ اس کے لیے تمام وسائل اور ٹیکنالوجی موجود ہیں۔ اس نظریے کی بنیاد مارکس اور اینگلز نے 1848ء میں لکھے گئے کمیونسٹ پارٹی کے منشور میں رکھی تھی۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں 1917ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب اسی نظریے کے تحت برپا کیا گیا تھا اور سوویت یونین میں اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز ہوا تھا۔
آج بھی اسی نظریے کی بنیاد پر انقلابی کمیونسٹ پوری دنیا میں اپنی سیاست کو ترتیب دے رہے ہیں۔ اس عمل میں حکمران طبقات نے ہمیشہ اس نظریے کی شدید مخالفت کی ہے اور آج بھی سماج پر حاوی دانشور اور سیاستدان اس نظریے کے نام سے بھی کانپ جاتے ہیں اور اسے کچلنے کے لیے ہر رجعتی قوت کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے ملائیت سے لے کر لبرل نظریہ دانوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔ قوم پرستی سے لے کر سوشل ڈیموکریسی تک ہر قسم کے فرسودہ نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے اور انہیں تعلیمی درسگاہوں سے لے کر میڈیا اور سیاسی لیڈروں تک ہر پلیٹ فارم سے پھیلایا جاتا ہے۔
اسی لیے کمیونسٹوں کا فریضہ بن جاتا ہے کہ ان تمام حملوں کا نظریاتی و سیاسی محاذ پر حکمران طبقات اور ان کے نظام کے حامیوں کو منہ توڑ جواب دیں۔ اسی کے ساتھ اس نظریے اور اس کی سچائی کو مزدوروں، کسانوں اور طلبہ تک پھیلائیں اور انہیں پارٹی میں منظم کریں۔ اسی پارٹی کے منظم ڈھانچوں کے تحت ہی کمیونسٹ آج کے عہد میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں کو وہ نظریاتی بنیادیں فراہم کر سکیں گے جن میں وہ صرف فوری مطالبات کے حصول یا حکومت کی تبدیلی تک محدود نہ رہیں بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کو بھی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکیں اور امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کرتے ہوئے ظلم اور استحصال سے پاک سماج کی تخلیق کا آغاز کریں۔