داس کیپیٹل کی پہلی اشاعت کے ڈیڑھ سو سال بعد آج پوری دنیا میں اس تصنیف کو سمجھے جانے کی جتنی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی بھی نہ تھی۔ 2008ء کے معاشی بحران کو برپا ہوئے ایک دہائی کا عرصہ بیت چلا ہے لیکن ابھی تک اس کے اثرات کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ پوری دنیا جنگوں اور خانہ جنگیوں کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکی سامراج کی کمزوری اور خصی پن پوری دنیا پر عیاں ہو چکا ہے اور چین اور روس سمیت مختلف ممالک کے حکمران طبقات اس خلا کو پر کرنے کے لیے اپنے اپنے سامراجی عزائم مخصوص خطوں پر مسلط کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یورپی یونین شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کسی بھی ممبر ملک میں ہونے والے انتخابات نئے بحرانات کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔
فرانس کے حالیہ عام انتخابات میں واضح ہو چکا ہے کہ عوام کا ایک بہت بڑا حصہ انتہائی اقدامات کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی لی پین اور انتہائی بائیں بازو کے میلنشاں کو ملنے والے لاکھوں ووٹ اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سیاسی افق پر حاوی دونوں پارٹیوں کو عوام نے رد کر دیا اور انتخابات میں پہلی تین پارٹیاں نئی تھیں۔ جون کے آغاز میں برطانیہ میں ہونے والے عام انتخابات بھی عوام میں موجود اسی بے چینی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ دائیں بازو کی ٹوری پارٹی کے اقتدار میں عوام پر بد ترین معاشی حملے کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب لیبر پارٹی کے اندر موجود دائیں بازو کے ممبران پارلیمنٹ اور لیڈران بھی عوام دشمن پالیسیوں کی کھلے عام حمایت کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود جیرمی کوربن کے لیے نوجوانوں اور محنت کشوں کی حمایت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ انتخابات جیتنے کے فوری بعد تعلیم کو مفت قرار دیا جائے گا تا کہ اس سال یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طالبعلم فیس نہ ہونے کے باعث تعلیم سے محروم نہ رہ سکیں۔ اسی طرح اس نے بڑے پیمانے پر ریلوے سمیت تمام اہم اداروں کی نیشنلائزیشن کا بھی پروگرام دیا ہے۔
امریکہ کا سیاسی بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور امریکی ریاست کے مضبوط ترین ادارے بھی شدید ہیجان اور افرا تفری کا شکار ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف روس کے ساتھ خفیہ تعلقات کے بارے میں تحقیقات کرنے والے افراد کو ان کے اہم ترین عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے جس میں ایف بی آئی کا سربراہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی آئے روز نئے سکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والی سامراجی طاقت کس قدر شدید بحران کا شکار ہو کر لڑکھڑا رہی ہے۔ دوسری جانب چین کا معاشی اور سیاسی بحران بھی گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے پوری دنیا میں انفراسٹرکچر کے وسیع ترین منصوبوں کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ لیکن بیلٹ اور روڈ نامی اس منصوبے کے ذریعے چین کے زائد پیداواری صلاحیت کے بحران کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بڑے پیمانے پر سٹیل سمیت دیگر صنعتوں کی بندش کا سلسلہ جاری ہے جبکہ کھپت کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش کا سلسلہ بھی شدیدمشکلات کا شکار ہے۔ امریکہ اور یورپ میں معاشی بحران کے باعث قوت خرید میں عمومی طور پر بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے جس کے واپس پرانی سطح پر آنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں بھی نئے اتحاد اور فساد جنم لے رہے ہیں۔ آستانہ معاہدے کے تحت شام کی بندر بانٹ کا فیصلہ بھی مختلف سامراجی قوتوں کے طاقتوں کے توازن کا عندیہ دیتا ہے۔ اس بندر بانٹ کے دوران امریکہ اور یورپ کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا اور روس واحد ضامن کے طور پر موجود تھا۔ ترکی، ایران اور دیگر قوتوں کو شام میں ملنے والے حصے نئے تنازعات اور جنگوں کے بیج بوئیں گے۔ مزید اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے یہ تمام قوتیں ایک دوسرے سے زیادہ شدت سے ٹکرائیں گی جو انہیں مزید کمزور کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایران، ترکی اور خطے کے دیگر ممالک میں ابھرنے والی محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی تحریکیں ان ریاستوں پر کاری ضربیں لگائیں گی اور خطے کی سیاست اور سماج کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی جانب بڑھیں گی۔
اس تمام تر صورتحال میں بورژوا دانشوروں اور مبصروں کے تما م تر تجزیے سطحی نوعیت کے ہیں اور وہ ایک یا دوسرے واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اس کے اثرات کا جائزہ لے کر پیش گوئی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پھر ایک نیا واقعہ پوری صورتحال کو تبدیل کر دیتا ہے اور وہی دانشور اپنے پہلے تجزیے کے الٹ باتیں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس پر شرمندہ ہونے کی بجائے زیادہ ڈھٹائی سے شور مچایا جاتا ہے۔ لیکن پھر ایک اور واقعہ بالکل ہی نئی صورتحال کو سامنے لے آتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران سے لے کر عرب انقلاب اور شام کی خانہ جنگی سے لے کر بریگزٹ تک یہ دانشور کسی ایک بھی واقعے کی پیش گوئی نہیں کر سکے۔ ہر واقعہ ان کو حیران کرتا چلا جاتا ہے اور وہ حالات کے رحم و کرم پر لڑھکتے چلے جا رہے ہیں۔ منافعوں کی ہوس میں مبتلا دنیا بھر کے سرمایہ دار اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت امریکہ، چین، روس اور دیگر تمام سرمایہ دارانہ ممالک کے حکمران انہی لڑھکتے ہوئے دانشور وں کے تجزیوں کو بنیاد بنا کر آگے چلنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ان کی یہ حالت چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ان کا نظریہ اور فلسفہ ناکارہ ہو چکا ہے اور موجودہ صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہے اورسماج کو آگے لے کر جانے کی بجائے اسے تباہی اور بربادی میں دھکیل رہا ہے۔
ایسے میں آج کی دنیا کو سمجھنے اور اسے تبدیل کرنے کے لیے کارل مارکس کے نظریات اور اس کی شہرہ آفاق کتاب داس کیپیٹل کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بورژوا دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے پاس موجود نام نہاد ’جدید‘ نظریات درحقیقت ہزاروں سال پرانے نظریات کی ہی نقل ہیں جو آج کے جدید ذرائع پیداوار اور ان کے گرد بننے والے سماجی رشتوں کی وضاحت نہیں کر سکتے۔ مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کا جو تجزیہ اور تناظر پیش کیا وہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ میں وقت کی کسوٹی پر بارہا درست ثابت ہوا ہے۔ انہی نظریات کی بنیاد پر لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں سو سال قبل 1917ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا جس نے پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ انہی نظریات کی بنیاد پر منڈی کی معیشت کا خاتمہ کر کے منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا گیا اور سرمایہ داری کے بحرانوں کے چکر سے نجات حاصل کی گئی۔ سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث اس عظیم انقلاب کو بیوروکریسی کے ذریعے مسخ کیا گیا اور مارکسزم سے انحراف کرتے ہوئے ایک ملک میں سوشلزم اور مرحلہ وار انقلاب کے غلط نظریات کو بنیاد بنا لیا گیا جس کے باعث سوویت یونین کا انہدام ہوا۔
آج پہلی اشاعت کے ڈیڑھ سو سال بعد داس کیپیٹل کو درست طور پر سمجھنے اور اس کے اخذ کیے گئے نتائج کو پوری دنیا پرلاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی طریقے سے دنیا میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور دنیا بھر میں جاری انقلابی تحریکوں کو ان کی حتمی منزل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں موجود سیاسی اور سماجی بحرانوں، غربت، محرومی، ذلت اور لاعلاجی سمیت سرمایہ دارانہ نظام کی تمام غلاظتوں سے نجات حاصل کرنے کا بھی یہی واحد ذریعہ ہے۔