عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا بحران بد ترین شکل میں پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں اس سے بھیانک صورتحال نہیں دیکھی گئی اورجتنے بڑے پیمانے پر یہ دنیا کی آبادی کی اکثریت کو بھوک اور بیماری کی دلدل میں پھینک رہا ہے اس کی ماضی کے کسی بھی دور میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں ہوں یا عالمی سطح پر پھیلنے والی وبائیں، قحط سالیاں اور دیگر آفات اور عالمی مالیاتی بحران، انسانی سماج ہر عہد میں بہت بڑی بربادیوں کا سامنا کرتا رہا ہے اور حکمران طبقے کی لوٹ مار اور ہوس کی خاطر لاکھوں انسانوں کی بلی بھی چڑھائی جاتی رہی ہے۔ لیکن جس بڑے پیمانے پر آج دنیا میں تباہی اور بربادی پھیل رہی ہے اس کا موازنہ ماضی کے کسی دور سے نہیں کیا جا سکتا۔ آج ایک طرف انسان چاند پر اپنے قدم رکھ چکا ہے اور مریخ پر کمند ڈال رہا ہے۔ لاکھوں نوری سال کے فاصلوں پر موجود کہکشاؤں کے راز افشاں ہو رہے ہیں جبکہ سمندروں کی کوکھ سے لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں تک انسان نئے افق تراش رہا ہے۔ ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی نے آج انسان کو وہ سہولیات اور فوائد فراہم کیے ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود حکمران طبقے کی ہوس، لوٹ ماراور انسان دشمن کاروائیاں کروڑوں انسانوں کو تحفظ اور زندگی دینے کی بجائے انہیں موت کے منہ میں دھکیل رہی ہیں اور اس بربادی کا کوئی انت دکھائی نہیں دے رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسی خون آشام بلا بن چکا ہے جس کی زندگی لاکھوں انسانوں کا خون پی کر ہی ممکن ہے اور اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے کروڑوں لوگ ہر روز موت کے منہ کی جانب سرکتے چلے جاتے ہیں۔
ایک طرف صرف کورونا سے دس لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس دوران عالمی مالیاتی بحران کا بھی آغاز ہو چکا ہے جس میں دو ارب کے قریب افراد کا روزگار داؤ پر لگ چکا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال دنیا میں مزید 27 کروڑ افراد شدید بھوک کا شکار ہوں گے جو ان کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دے گی۔ اسی طرح، کروڑوں افراد دنیا بھر میں بیروزگاری کے باعث اپنے مکانوں کے کرائے ادا نہیں کر پا رہے اور انہیں مکانوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے جس کے باعث خصوصاً بچے اور بوڑھے موت کے منہ میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ کورونا کی وباء کے دوران دنیا کے تمام بچوں میں سے لگ بھگ ایک تہائی یا 46 کروڑ 30 لاکھ بچے تعلیم سے محروم رہے اور کسی بھی طرح تعلیم تک رسائی حاصل نہیں کر سکے۔ یہ صورتحال صرف پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیل رہی ہے۔ صرف امریکہ میں 5 کروڑ سے زائدافراد چند ہفتوں میں بیروزگار ہوگئے۔ جبکہ برطانیہ میں 90 لاکھ افراد کا روزگار داؤ پر لگ گیا۔
اس دوران دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا اور ان کی دولت نئی حدیں عبور کرتی ہوئی اب سینکڑوں ارب ڈالرفی کس تک پہنچ چکی ہے۔ دنیا کی تمام بڑی کمپنیوں نے اس دوران محنت کشوں کے بدترین استحصال کو بھی یقینی بنایا اور انتہائی کم اجرتوں پر پہلے کی نسبت زیادہ کام لینا شروع کر دیا۔ ایک جانب تو بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے باعث سرمایہ داروں کو اجرتوں میں مزید کمی کے مواقع ملے اور دوسری طرف وباء کا خوف پیدا کر کے یا پھر آن لائن کام کی جدت کے نقاب میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ کام کروایا گیا۔ دنیا بھر کی حکومتوں نے بھی اس دوران اپنے اپنے ملک کے سرمایہ دار طبقے کا بھرپور ساتھ دیا اور مزدور دشمن قوانین کو مسلط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بہت سے ممالک میں کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے سے بارہ گھنٹے کر دیے گئے۔ ایمرجنسی کی صورتحال کا بہانہ بنا کر یونین سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں اور محنت کشوں کے اجتماعات اور ہڑتالوں کو وباء کا بہانہ بنا کر جبر کے ذریعے توڑا گیا۔ اس دوران ہر طرف بد ترین مہنگائی کے حملے بھی کیے گئے جبکہ سرمایہ داروں نے ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ اور دیگر تمام ہتھکنڈوں سے بھی لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس دوران معاشی بحران کا تمام تر بوجھ بھی حکومتوں نے محنت کشوں پر ڈال دیا اور ٹیکسوں کے نئے سلسلے کا ایسا آغاز کیا جو ابھی تک ختم نہیں ہوا اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس دوران پولیس، فوج اور دیگر جبر کے اداروں کے ذریعے ظلم اور تشدد کے نئے ریکارڈ بھی بنائے گئے اور محنت کشوں کی ممکنہ بغاوتوں کو روکنے کے لیے ہر قسم کا نسلی، قومی، مذہبی اور لسانی تعصب بھی سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی تا کہ محنت کشوں کو تقسیم کیا جا سکے۔
پاکستان کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ یہاں بھی ادویات کی قیمتوں میں 200 سے 300 فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے جس سے حکومت نے لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔ علاج کی سرکاری سہولیات کا ویسے ہی خاتمہ کیا جا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ جس کے پاس پیسے نہیں حکومت اس کو علاج فراہم کرنے کی پابند نہیں اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر سسک سسک کر مر جائے تو حکمرانوں پر اس کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔ حالیہ اقدامات سے ایسی اموات کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں پہنچ رہی ہے۔ اسی طرح آٹے کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس سے بھوک کا شکار افراد کی تعداد اب لاکھوں سے کروڑوں میں پہنچ رہی ہے۔ دن میں دو وقت کی روٹی اب آبادی کی اکثریت کے لیے عیاشی بن چکی ہے اور بہت بڑے حصے کو ایک وقت بھی بمشکل نصیب ہوتی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں افراد دو سے تین دن میں صرف ایک وقت روٹی کھاتے ہیں۔ اسی طرح، بیروزگاروں کی تعداد بھی کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ حکومت پنشن کے نظام کو بھی ختم کر رہی ہے جس سے مزید لاکھوں خاندان بنیادی آمدن سے محروم ہو جائیں گے۔ پاکستان میں 65 سال کی عمر سے زائد افراد کی تعداد پہلے ہی صرف 4 فیصد ہے۔ حالیہ اقدامات سے ملک میں اوسط عمر میں مزید کمی آ چکی ہے اور بزرگوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جا رہا ہے۔ گھی، چینی، خوردنی تیل سے لے کرپٹرول اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں بھی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اشیائے خوردونوش پر حکومتی اعداد وشمار کے مطابق افراطِ زر 14 فیصد ماہانہ ہے جو کہ انتہائی کم بتایا جا رہا ہے۔
یہ تمام صورتحال واضح کرتی ہے کہ یہ انسان دشمن اور قاتلانہ نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اس پر بنائی گئی ریاست اور اس کے تمام تر اداروں کا کردار عوام دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ ان اداروں میں پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیوں سے لے کر عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا سمیت تمام ادارے شامل ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس نظام کو ختم کر کے ایک سوشلسٹ نظام قائم کیا جائے جس میں تمام وسائل عوام کی اجتماعی ملکیت میں ہوں اور ہر شخص کو مفت علاج اور تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ روٹی، کپڑا اور مکان بھی مزدور ریاست کی جانب سے فراہم کیا جائے۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ انقلاب سے ہی ممکن ہے جس کے لیے محنت کشوں کو منظم ہونے کی جتنی ضرورت آج ہے تاریخ میں کبھی بھی نہیں تھی۔