فلسطین کی آزادی کی تحریک گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے لیکن آج یہ ایک ہم موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ پچھلے ایک سال سے اسرائیل نے فلسطین کے عوام پر تاریخ کی بد ترین بربریت مسلط کی ہے اور لاکھوں افراد کو تباہی اور بربادی میں دھکیل دیا ہے۔ 41 ہزار سے زائد افراد قتل ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ لاکھوں افراد دربدر ہیں اور بھوک، قحط سالی اور بیماریوں کے ہاتھوں موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ایک سال بعد بھی اسرائیل کے صیہونی حکمرانوں کا جنگی جنون کم نہیں ہوا بلکہ اب یہ جنگ لبنان تک پھیل چکی ہے اور ایران کے ساتھ براہِ راست تصادم کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا بھر کی انقلابی قوتوں سمیت مشرقِ وسطیٰ کے عوام کے سامنے اس خونریزی اور قتل و غارت کو ختم کرنے کے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
دنیا بھر میں فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی تحریک کبھی بھی اتنی مضبوط نہیں رہی جتنی آج ہے اور امریکہ، کینیڈا سے لے کر برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت دنیا بھر میں لاکھوں افراد اسرائیلی بربریت کے خلاف اور فلسطین کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق برطانیہ کے 84 فیصد عوام سمجھتے ہیں کہ اگر نیتن یاہو برطانیہ آئے تو اسے گرفتار کر لینا چاہیے جبکہ 67 فیصد کے خیال میں اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اسی طرح 56 فیصد افراد کے مطابق اسرائیل کو ہر قسم کے اسلحے کی سپلائی فوری طور پر بند کر دینی چاہیے۔ دیگر یورپی ممالک کی بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ فلسطین کے لیے اتنی بڑی حمایت ماضی میں کبھی بھی موجود نہیں رہی اور اس کا اظہار لاکھوں افراد کے مسلسل احتجاجوں اور مظاہروں میں بھی نظر آتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ان ممالک کے حکمران طبقات اسرائیل کی مکمل پشت پناہی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کی بڑھ چڑھ کر عسکری اور مالی امداد کر رہے ہیں۔ اس عمل میں ان ممالک میں طبقاتی کشمکش بھی شدت اختیار کر رہی ہے اور حکمران طبقے کے جرائم کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
فلسطین کی آزادی کی تحریک کی سب سے بڑی حمایت مشرقِ وسطیٰ کے عوام میں موجود ہے اور عرب ممالک سے لے کر ترکی اور ایران تک کروڑوں عوام فلسطین کی تحریک آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی حکمران طبقات اپنے اپنے مفادات کے تحت فیصلہ کن اقدام نہیں اٹھا پا رہے۔ اکثر عرب ممالک کے حکمران سامراجی گماشتگی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور اس تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے اسرائیل کا اگر براہِ راست نہیں تو بالواسطہ ساتھ ضرور دے رہے ہیں۔ دوسری جانب ایران کا حکمران طبقہ بھی اپنی کرپشن، لوٹ مار اور عوام پر بد ترین مظالم کے باعث وہ عوامی حمایت نہیں رکھتا جس کی بنیاد پر خطے میں کسی بھی سامراجی طاقت کو فیصلہ کن شکست دے سکے۔ اس کے لیے خود ایران میں ایک انقلاب کے ذریعے اس ملا اشرافیہ کا تختہ الٹنا ہوگا اور ایک انقلابی قیادت عوامی حمایت کے ساتھ ہی ان سامراجی طاقتوں کے منصوبوں کو شکست دے سکے گی۔
اس تمام تر صورتحال کی بنیاد ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال اور تاریخی متروکیت ہے۔ اس بنیادی نکتے کو نظر انداز کر کے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی خطے میں اسرائیل کے سامراجی عزائم کو فیصلہ کن شکست دی جا سکتی ہے۔ فلسطین کی آزادی کی تحریک آغاز میں کئی دہائیوں تک بائیں بازو کے کارکنوں اور سیاسی پارٹیوں کی قیادت میں ہی جاری رہی اور اس حوالے سے اسے مختلف ممالک سے حمایت بھی ملتی رہی۔ لیکن اس تحریک کی قیادت کے لیے انقلابی تبدیلی کی مشعلِ راہ 1917ء کا انقلابِ روس نہیں تھا بلکہ لینن کی وفات کے بعد ابھرنے والی سٹالنسٹ زوال پذیر قیادت اور مسخ شدہ مزدور ریاست رہی۔ انہی زوال پذیر نظریات کے تحت فلسطین کی تحریک آزادی کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکا جس کا خمیازہ 1987ء میں ابھرنے والے فلسطینی عوام کے شاندار انتفادہ یا انقلابی تحریک کو بھگتنا پڑا۔ اتنی عظیم الشان تحریک کے ابھرنے کے بعد سوشلسٹ انقلاب کی منزل حاصل کرنے کے امکانات موجود تھے لیکن تحریک کی قیادت اپنی نظریاتی کمزوریوں کے باعث دو ریاستی حل اور اوسلو معاہدے جیسے فریب کا شکار ہو گئی اور سامراجی طاقتوں کے حربوں کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ اس کے بعد تحریک کی قیادت کی زوال پذیری جاری رہی جسے 2000ء کے دوسرے انتفادہ نے غلطیاں سدھارنے کے مواقع فراہم کیے لیکن اسے کامیابی نہیں مل سکی۔ ان تحریکوں سے فلسطینی عوام کو جو تھوڑی بہت حاصلات ملی تھیں اب وہ بھی ختم ہو چکی ہیں اور غزہ راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے جبکہ مغربی کنارے پر بھی حملے جاری ہیں۔ دوسری جانب فلسطین کی آزادی کی تحریک پر مذہبی بنیاد پرستی کے نظریات کو حاوی کیا جا رہا ہے گو کہ اس میں مکمل کامیابی ملنا مشکل ہے۔
اس تمام جدوجہد سے انقلابیوں کو ضروری اسباق اخذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے عرصے کے طوفانی واقعات میں اپنے رستے اور منزل کا درست تعین کر سکیں۔ اس حوالے سے 1917ء کا انقلاب روس ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی مشعل راہ ہے اور لینن اور ٹراٹسکی کی روس میں ہونے والی بحثوں اور بالشویک پارٹی کی جدوجہد سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
فلسطین کی آزادی کی تحریک کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کے نظریات پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے اور اس کی پشت پناہی کرنے والی تمام سامراجی طاقتوں کی بنیاد بھی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ان طاقتوں کو فیصلہ کن شکست نہیں دی جا سکتی بلکہ اس کے لیے ان کے نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔ اسرائیل کے علاوہ خطے کے دیگر عرب ممالک سمیت ایران میں بھی ریاست کی بنیاد یہی نظام ہے۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد صرف اسرائیل تک محدود نہیں بلکہ خطے کے تمام حکمران طبقات کے خلاف جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کے لیے پورے خطے کے محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت بنانے کی ضرورت ہے اور قوم، مذہب، رنگ اور نسل کی تفریق سے بالا تر ہو کر سامراجی جنگوں کے ساتھ سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف بھی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ انہی نظریات پر استوار ہونے والی سیاسی قوت نہ صرف اسرائیل کی سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کر سکتی ہے اور فلسطین کو آزاد کروا سکتی ہے بلکہ سوشلسٹ بنیادوں پر ایک منصوبہ بند معیشت کا بھی آغاز کر سکتی ہے۔
آج کے عہد میں قوم پرستی ایک فرسودہ نظریہ بن چکا ہے اور قومی آزادی کا حصول سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں آنے والے عرصے میں اس سمت میں بہت سی تحریکیں ابھرنے کے امکانات موجود ہیں جو اس جنگ سے تباہ حال عوام کے لیے امید کی کرن ثابت ہوں گی۔ ان تحریکوں میں کمیونزم کے حقیقی نظریات سے لیس انقلابی پارٹی موجود ہوئی تو ان جنگوں، خونریزیوں اور قتل و غارت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے اور خطے کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن قائم کی جا سکتی ہے جویہاں رہنے والے ہر مذہب، قوم اور زبان بولنے والے شخص کے لیے امن، ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوگی۔